مجبُور کی دُعا اور مجبُوری کی دُعا !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُمر ، اٰیت 8 تا 9 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذامس
الانسان ضر
دعاربه منیبا الیه
ثم اذاخوله نعمة منه
نسی ماکان یدعواالیه من
قبل وجعل للہ اندادا لیضل عن
سبیلهٖ قل تمتع بکفرک قلیلا انک من
اصحٰب النار 8 امن ھو قانت اٰناء الیل ساجدا
وقائما یحذرالاٰخرة ویرجوارحمة ربهٖ قل ھل یستوی
الذین یعلمون والذین لایعلمون انما یتذکر اولواالباب 9
اے ہمارے رسُول ! ایک طرف انسانی نوع کا وہ بے ہمت و بے عمل انسان ہے جو اپنے بُرے معمولات سے پیدا ہونے والے بُرے حالات سے مجبور ہوتا ہے تو انتہائی لجاجت کے ساتھ اُن بُرے حالات سے نکلنے کے لیۓ اللہ سے دُعا و التجا کرتا ہے لیکن اللہ جب اُس انسان کی اُس بدترین آزمائش کو ایک بہترین آسائش میں بدل دیتا ہے تو وہ شکر فراموش ہو کر دوبارہ بغاوت پر تُل جاتا ہے آپ انسانی نوع کے اِس فرد سے کہہ دیں کہ اگر تُم اللہ سے سرکش ہو کر اِس چند روزہ زندگی کی چند روزہ منفعت پر ہی خوش ہو تو تُم دُنیا میں خوشی کے یہ چند روز ضرور گزار لو لیکن یہ بات مت بھولو کہ تُمہارے اِس ناشکری پن کا اَنجام جہنم ہے اور دُوسری طرف انسانی نوع کا وہ باہمت و باعمل انسان ہے جو دن تو خیر دن ہے مگر وہ ہر دن کے بعد آنے والی شب میں بھی ایک جرات مندانہ عزم و عمل کے ساتھ کبھی اللہ کی اطاعت کی کمی پر غور و فکر کرتا ہے اور کبھی اطاعتِ حق پر قائم رہنے کے عزم و عمل کا اعادہ کرتا ہے ، کبھی اپنے اعمالِ دُنیا کا جائزہ لیتا ہے تو کبھی اپنے حسابِ آخرت سے لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے اور پھر نئے دن کی نئی صبح ہوتے ہی ایک نئی اُمید کے ساتھ اللہ کی اطاعت و بندگی میں مصرف و مُنہمک ہو جاتا ہے ، آپ اِن دونوں انسانوں کے اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ دونوں انسان اپنی عقل و دانش اور اپنے فکر عمل میں یَکساں ہیں ، ہر گز نہیں ہیں ، آپ انسانی نوع کے اِن دونوں اَفراد کو آگاہ کردیں کہ اللہ انسانی جماعت کے ہر ایک فردِ نیک و بد کے ہر ایک عملِ نیک و بد کو بخوبی جانتا ہے لیکن ہماری اِس آگاہی سے تو اہلِ دانش ہی فائدہ اُٹھاسکتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی مُتعدد اٰیات سے قُرآن کا یہ قانُون ایک ثابت شدہ قانُون ہے کہ دُنیا میں پیدا ہونے والے ہر انسان کو االلہ تعالٰی نے ذہنی و جسمانی طور پر ایک آزاد ارادہ و عمل کا حامل و عامل انسان بنا کر پیدا کیا ہے اور قُرآنِ کریم کے اِس پہلے قانُون کی طرح قُرآنِ کریم کا یہ دُوسرا قانُون بھی قُرآن کا ایک ثابت شدہ قانُون ہے کہ دُنیا میں جو بھی انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ اپنے اُسی آزاد ارادے کے ساتھ کرتا ہے جو آزاد ارادہ اللہ تعالٰی نے اُس کی پیدائش کے ساتھ ہی اُس کو دے دیا ہوتا ہے ، قُرآنِ کریم کے اِن دو قوانین کی طرح قُرآنِ کریم کا یہ تیسرا قانُون بھی قُرآن کا ایک ثابت شدہ قانون ہے کہ انسان اپنے آزاد ارادے کے تحت جو بھی مُثبت یا مَنفی عمل کرتا ہے وہ اپنے اُس مُثبت و مَنفی عمل اور نتیجہِ عمل کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے جو مُثبت و مَنفی عمل اُس نے اپنے آزاد ارادے کے تحت کیا ہوتا ہے اور قُرآنِ کریم کے اِن تین قوانین کی طرح قُرآنِ کریم کا یہ چوتھا قانُون بھی قُرآن کا ایک ثابت شدہ قانون ہے کہ انسان کے ہر مُثبت و مَنفی عمل کی ایک مقررہ جزا و سزا ہے جس کا قُرآن کے اسی قانُونِ جزا و سزا کی بنا پر انسان پر اطلاق ہوتا ہے کہ اُس انسان نے اپنے آزاد ارادے کے ساتھ وہ عمل کیا ہے ، اٰیاتِ بالا میں سے پہلی اٰیت میں قُرآنِ کریم نے اپنے اِس قانُون کی عملی تمثیل کے لیۓ نوعِ انسانی کے اُس فرد کے ارادہ و عمل کی مثال پیش کی ہے جو مجبوری میں اللہ تعالٰی کو پُکارتا ہے اور جب اُس کی درخواست پر اللہ تعالٰی اُس کی مجبوری کو ختم کردیتا ہے تو وہ انسان مجبوری ختم ہوتے ہی بغاوت و سرکشی کا وہی عمل شروع کردیتا ہے جس عمل کے ایک نتیجہِ عمل کے طور پر وہ ناگہانی آفت اُس پر آئی تھی جس نے اُس کو ایک بے کس و مجبور بنا دیا تھا ، ایسا انسان اگر اپنے ہر غلط عمل کے بعد اُس غلط عمل سے بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تو وہ بڑی حد تک اپنے اُس بُرے عمل کے اُن بُرے نتائج سے بچتا رہتا ہے لیکن اگر وہ بدی کو اپنی عادت بنا لیتا ہے تو اُس کو اِس دُنیا میں تو اِس غرض سے ایک ہلکی پُھلکی سزا ملتی رہتی ہے کہ وہ اِس بدی سے باز آجاۓ لیکن اگر وہ دُنیا میں اِس عمل اور اِس عمل کے اِس نتیجہِ عمل کو نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے تو وہ سزاۓ آخرت کے عذابِ آخرت کا بھی مُستحق ہوجاتا ہے ، اٰیاتِ بالا کی اِس اٰیت میں اِس انسان کی جس دُعا کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک مجبُور کی دُعا نہیں ہوتی بلکہ ایک مجبُوری کی دُعا ہوتی ہے کیونکہ جب اُس مُشرک انسان کو اِس اَمر کا یقین ہو جاتا ہے کہ اُس کے جھوٹے معبود اُس کی کوئی دُعا نہیں سن سکتے تو وہ اپنے سچے معبود کی ذات سے رجوع کرتا ہے اور اُس مُشرک انسان کی اسی بات سے یہ نتیجہ بھی بر آمد ہوتا ہے اُس مُشرک انسان کی فطرت میں بھی کہیں نہ کہیں یہ بات موجُود ہوتی ہے کہ انسان کا سچا معبود صرف اللہ ہے ، نوعِ انسانی کے اِس سہل پسند و سہو پسند انسان کے عمل و سزاۓ عمل کی جو مثال اِس سُورت کی اِس اٰیت میں پیش کی گئی ہے وہی مثال سُورَہِ یُونس کی اٰیت 12، سُورَہِ رُوم کی اٰیت 33 اور اِس سُورت کی اِس اٰیت کے بعد اسی سُورت کی اٰیت 49 میں بھی پیش کی گئی ہے ، اٰیاتِ بالا کی دُوسری اٰیت میں نوعِ انسانی کے اُس فرد کی مثال پیش کی گئی ہے جو پہلے انسان کی طرح پست ہمت انسان نہیں ہوتا بلکہ ایک عالی ہمت انسان ہوتا ہے ، پہلے انسان کی طرح سہل پسند و سہو پسند انسان نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا مُشکل پسند و عالی حوصلہ انسان ہوتا ہے جو میدانِ زندگی میں شب و روز بار بار گر گر کر سَنبھلتا ہے اور بار بار سَنبھل سَنبھل کر اُٹھتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی دُنیا کو بھی سنوار لیتا ہے اور اپنی عُقبٰی کو بھی سنوار لیتا ہے اِس لیۓ اِس انسان کی دُعا مجبوری کی دُعا نہیں ہوتی بلکہ اُس مجبور انسان کی دُعا ہوتی ہے جس کو اِس اَمر کا پُورا یقین ہوتا ہے کہ اُس کا حاجت روا و مُشکل کشا اللہ تعالٰی ہے جو اُس کی ہر التجا کو سُنتا بھی ہے اور دُعا کا مناسب صلہ بھی دیتا ہے ، اہلِ روایت نے اگرچہ اِن اٰیات کو نوعِ انسانی کی عباداتِ نافلہ کے پس منظر میں دیکھا اور بیان کیا ہے لیکن درحقیقت اِن اٰیات کا تعلق انسان کے اُس ذہنی و جسمانی عزم و حوصلے کے ساتھ وابستل ہے جس عزم و حوصلے کے ساتھ وہ انسان بار بار اپنی ہر غلطی کو تسلیم کرتا ہے اور بار بار اپنی ہر غلطی کا ازالہ بھی کرتا ہے اور عُمر بھر اپنے اسی عزم و حوصلے کے ساتھ میدانِ فکر و عمل میں ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا بھی رہتا ہے اور چونکہ دین و دُنیا دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں اِس لیۓ انسان کے عزم و ہمت اور انسان کی اقامت و استقامت کی اِس قُرآنی تعلیم میں دُنیا و آخرت دونوں کے امور شامل ہیں ، جو انسان قُرآن کی اِن تعلیمات پر عمل کرتا ہے اُس کا عمل بھی اللہ تعالٰی کے علم ہوتا ہے اور اُس کا اجر بھی اللہ تعالٰی کے حساب میں ہوتا ہے جس کا کُچھ حصہ دُنیا کی کسی مُشکل گھڑی میں ایک سہولت کی صورت میں اُس کے سامنے آتا ہے اور کُچھ حصہ اُن مُشکلاتِ آخرت کے لیۓ محفوظ کردیا جاتا ہے جو مُشکلاتِ آخرت میں عندالضرورت اُس کو اُس کے اجرِ خیر کی جزاۓ خیر کی صورت میں دے دیا جاتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557974 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More