شہر راولاکوٹ میں ویسے بھی ایک ویرانی ہے پتہ نہیں یہ
ویرانی مجھے اس لیے لگتی ہے کہ 7 سال پہلے اسی فروری کے ٹھنڈے موسم میں مجھ
سے میرا محسن دانش ریاض جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی رخصت ہو گیا اور
پھر چند سال قبل میرا پیر و مرشد سردار آفتاب اچانک دنیا سے منہ موڑ چلا
لیکن اس ویرانی کے موسم میں زیادہ اُداسی اتوارکو ہوتی ہے۔ اتوار خاموش
ہوتا ہے تنہائی کے اس موسم میں اتوار کو چند لوگ ہی شہر راولاکوٹ میں پائے
جاتے ہیں ، بزرگ صحافی راجہ محمد عزیز کیانی ایڈووکیٹ نذر محمد خان ، قدیر
خان ، ان چند رفقاء کے ساتھ اب کچھ عرصہ سے طاہر اکرم،سہیل زرین،نئیر رفیق
،ثاقب رشید ، عمر بشیر ، صہیب کمال ، یاسر الیاس ، بھی اس ویرانی کو آباد
کرنے ساتھ نبھا لیتے ہیں گئے سال03فروری کو اسی اُداسی اور تنہائی میں
11فروری یوم مقبول بٹ کی سوچ و بچار ہو رہی تھی اس روز بھی برسوں کی طرح
میرا جسم راولاکوٹ تھا دل و دماغ سرینگر راہ چلتے آج پھر حسب معمول راجہ
عزیز کیانی سے ملاقات ہوئی چہرے پر جھریوں اور بڑھاپے کے ساتھ نرم خوئی ،
حلاوت اور شرافت بھری عزیز کیانی کی گفتگو ۔۔۔۔۔پچھلے کچھ عرصہ سے راجہ
عزیز کیانی واقعی بوڑھے لگنا شروع ہوئے تو ہر ہفتے اُن کی خیریت معلوم کر
کے اپنے آپ کو تسلی دینے کی اُ دھوری کوشش ۔۔۔۔۔۔۔آج اُُن سے ملاقات کے
متعلق معلوم نہ تھا کہ یہ ملاقات اُدھوری زندگی کی علامت بن جائے گی آج
اتوار چھٹی تھی اور کچھ عرصہ سے راجہ حفیظ کیانی بھی اتوار کو چھٹی کرتے
تھے ان کی یہ چھٹی آخری ثابت ہوئی پیر کی صبح ماموں ڈاکٹر صغیر خان نے جب
مجھ سے معلومات چاہی کہ کیا واقعی سوشل میڈیا پر چلنے والی یہ اطلاع درست
ہے کہ راجہ حفیظ کیانی انتقال کرگئے تو میرے لیے تصدیق کرنا مشکل تھا لیکن
مجھے یقین تھا کہ یہ سب سچ ہوگا اس لیے کہ کچھ مہینوں سے حفیظ کیانی اکثر
کہا کرتے تھے کہ میں بیمار ہوں زندگی موت کا کوئی پتہ نہیں میں ہمیشہ
اُنہیں جھوٹی تسلی دیتا میرے پاس اُن کے لیے دُعا ء صحت سے ہٹ کر کچھ نہ
تھا ٍ۔ چند نسخے جو میری معلومات میں تھے اُس سے بھی اُن کو آگاہ کیا ہاں
ایک دولت اور اثاثہ میرے پاس تھامیں نے ہر وقت دیانت داری سے اُن کو پیش کش
ضرور کی کہ جب چاہیں میرا وہ اثاثہ حاضر ہے اُن کی ضروریات کو کسی حد تک
معاونت کرنے لیکن بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے اُنہوں نے ہمیشہ اس سے انکار کیا۔
صحافت میں آنے سے قبل حفیظ کیانی نے ماسٹری شروع کی لیکن اس وقت کے حکومتی
نمائندے سیاب خالد کے میرٹ پر و ہ پورا نہ اتر سکے اور مستقل ملازمت حاصل
کرنے ناکام رہے یہی حال صحافت میں بھی ان کے ساتھ کیا گیا۔ وہی خبریں لکھتے
وہی خبریں چھپواتے اور خبریں کیش کرانے والے بہت سارے سامنے آ جاتے کیش ہی
نہ کرواتے بلکہ حفیظ کیانی کی خبروں پر کیش بھی لیتے ۔چندہی روز گزرے تھے
کہ حفیظ کیانی کی موت نے راولاکوٹ کی صحافت پر پڑا پردہ ہٹا دیا اور تو اور
دو درجن کے قریب ان کے یاروں میں سے ایک سے ہٹ کر کسی اور کو توفیق تک نہ
ہو سکی کہ ان کے انتقال کی خبر ہی اپنے اخباروں میں چھپوا دے اس نے تو اس "
صحافت" کو اسی طرح پردے میں ڈھانپ رکھا تھا جس طرح خالد ابراہیم خان نے
ریاست جموں کشمیر کی سیاست کو وظیفوں اور تنخواہ سے نہ صرف بچانے کی سعی کر
رکھی تھی بلکہ سدھن قبیلے کی کم ظرفیوں اور کمزوریوں پر بھی پردہ ڈال رکھا
تھا ۔برسوں خدمات سرانجام دینے والے ان کے بڑے بھائی عزیز کیانی کو بھی
پریس کلب کی قیادت دینا گوارہ نہ کی گئی اور نہ میرٹ پر حفیظ کیانی کو
قیادت دی جا سکی۔ یہاں تک بھی ہوا کہ جب پریس فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا کہ
ضلعی ہیڈ کوارٹر پر پریس کلب صرف ڈسٹرکٹ پریس کلب کے نام سے کام کرے گا تو
ڈسٹرکٹ پریس کلب کے ہمارے ادارے کے خلاف بھی حفیظ کیانی کو ہتھیاربنا لیا
گیا اور ان کی اخبارات میں بھی ڈسٹرکٹ پریس کلب کی خبریں چھپوانا رکوا دی
گئیں۔ لیکن اس کی یہ شرافت پھر بھی اسے سب کے لیے باعث عزت ہی رکھے رہی
اورجب وہ خالد ابراہیم کی طرح دنیا سے رخصت ہوا تو باوقار تھا۔ 04فروری پاک
گلی کی سرزمین سے لوگوں کا ایک ہجوم اُنہیں الوداع کیے جارہا تھا اس موت سے
کوئی 15سال قبل ایسے ہی ایک ہجوم نے اُنہیں بارات کی صورت دولہا بنایا تھا
اُس وقت بھی میں اور قدیر خان نذر محمد خان کی سرپرستی میں اس ہجوم عاشقاں
کا حصہ تھے اور آج بھی ہم بہت سارے اُنہیں رخصت کیے جارہے تھیگئے سال جب
عزیز کیانی سے ملاقات کے بعد میرے قدم اگلے ٹھئیا پر پہنچے تو وہاں پھر نذر
محمد خان کی محفل کا میں حصہ تھا آج ہماری گفتگو کا مرکز و محور جاوید ناز
کا اکلوتا بیٹا اُسامہ علی تھا اُس کی کہانی اُس کی یادیں اُس کے لیے
دُعائیں اور ساتھ شفقت ضیاء کی صحت یابی کے لیے تذکرہ ہمارے وہم و گمان میں
بھی نہ تھا کہ کل کی صبح ایک نئی اور درد ناک صبح ہو گی ۔گئے سے گئے سال آج
04فروری حفیظ کیانی کی جدائی کی خبر لائی تو برسوں پرانی یادیں تازہ ہوچلیں
۔ دو نہیں اڑھائی عشرے پہلے اُس سے واقفی ہوئی وہ واقفی تعلق اور قربت سے
ہوتی ہوئی اپنائیت میں بدل گئی ۔ اُن کوایک خلیق نفیس ، اور ہمدرد شخص پایا
کئی بار ایسے بھی ہوا کہ سخت دکھ اور قرب میں مایوسی اور پریشانی میں بہت
کچھ اُنہیں کہنے کا سوچا لیکن جب ان کے سامنے گیا تو دل و دماغ کے وہ سارے
فیصلے بدلنے پڑے شہید عارف شاہد اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں
کہ مجھ ناچیز کے قلم کے شر سے بچ گئے شاہد اسی طرح کی ایک اُدھوری حقیقت یہ
بھی ہے کہ پیر اور مرشد سردار آفتاب کی طرح راجہ محمد حفیظ کیانی بھی کئی
نہ کئی جا کر اُس صف میں شامل ہوجاتے ہیں جن کے سامنے میں بھی بااخلاق بن
جاتا تھا۔ میری زبان میں بھی حلاوت آجاتی تھی ۔ اُن کی کمی اُن کے گھر
والوں کو ہی نہیں ہم کو بھی محسوس ہوتی رہے گی۔ وہ اگر شفیق انسان تھے تو
شریف صحافی بھی تھے اُن کی یہ انفرادیت تھی کہ وہ ہر ممکن کوشش کرتے کہ اُن
کی رپورٹنگ سے کسی کا دل نہ دکھے 04فروری کو بہت سارا کا دل دکھا کر وہ چل
دیے ہم دنیا میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ زندگی کی جنگ ہا رگیا لیکن
ہمیں مقروض کر کے چلا اس کا اخلاق اس کی نرم خوئی اور اس کی شرافت نہ صرف
اسے سرخرو کر گئی بلکہ اس کے سامنے ہمیں بہت نیچا کر گئی۔ اُن کی یادیں ہی
رہیں۔ یہ یادیں ہمارا سرمایہ ہیں یہ یادیں ہماری اصلاح کا ذریعہ بھی ہیں ۔
کاش انہیں یادوں کی طرح ہم سب جب اس جہاں سے جائیں تو ایک دوسرے کے لیے
یادیں بن کر رہ جائیں حفیظ کیانی کی طرح ہر ایک کے لیے لوگوں کے ہاتھ دُعا
کے لیے اُٹھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجب آزاد مرد تھا ۔۔خدا مغفرت کرے
|