ایک بار پھر ۵ فروری کو اہل پاکستان یوم یکجہتی کشمیر
مناکر ریاست جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ اپنی محبت اور ان کے حق خود آرادیت
کی حمایت کررہے ہیں۔ سرکاری سطح پرحسب روایات بیان دئیے جارہے ہیں اور
میڈیا بھی اس بارے میں اپنا کردار ادا کررہاہے لیکن اس سب کے باوجود جموں
کشمیر کے عوام آزادی سے ہمکنار نہیں ہورہے ۔ ظلم مزید بڑھتا چلا جارہا ہے
اور غلامی کی سیاہ رات ختم ہونے کا نام نہیں لی رہی۔ جموں کشمیر کے عوام
پوچھتے ہیں کہ کیا چارہ گراں کے پاس مسئلہ کشمیر کا بھی کوئی حل ہے جس نے
ستر برسوں سے کروڑوں انسانوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر
کا ممکنہ حل کیا ہوسکتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہو گا؟۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں
کشمیر کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا۔ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ
انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی اور اس سے یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید کئی
سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ تو کیا مذاکرات سے بھارت جموں کشمیر کو پاکستان
کے حوالے کردے گا جسے وہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور جس پر اربوں ڈالر
وہ خرچ کرتا ہے؟ اور کیا پاکستان مذاکرات کے نتیجہ میں کشمیر دستبردار
ہوسکتا ہے؟ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔کیاکشمیری ایک آزاد اور خود مختار
ریاست حاصل کرسکتے ہیں جس کے لئے کیا بھارت اور پاکستان اپنی افواج کو
ریاست سے نکال لیں گے؟ اس صورت میں کیا پاکستان چین کے ساتھ اپنا جغرافیائی
تعلق ختم کرنا گوارا کرسکتا ہے اور کیا بھارت اپنی سرحدوں کو گرداسپور تک
محدود کرنے کا سوچ سکتا ہے؟ تقسیم کشمیر بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا
کیونکہ اس وقت ریاست منقسم ہونے کے باوجود یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ہے۔ ان
تمام امکانات پر غور کرتے ہوئے کسی ممکنہ حل کی طرف سوچنے کی ضرورت ہے اور
وہ ایسا حل ہونا چاہیے جو کشمیری عوام کی خواہشات کے ساتھ پاکستان اور
بھارت کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مسئلہ
کشمیر کا مستقل وہی ممکن ہو گا جس میں تینوں فریقوں کی منشا شامل ہوگی۔ اگر
کوئی ایک فریق بھی رضامند نہ ہوا تویہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکے گا، اس
لئے جذباتی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لینے کی
ضرورت ہے۔ بھارت کو پہل کرنی چاہیے کیونکہ وہ ایک بڑا ملک اور اپنے آپ کو
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ بھارت کو یہ جمہوری اصول ریاست
جموں کشمیر پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔ بھارت کو اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ کر یہ
تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ مسئلہ موجود ہے اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
بھارت کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کے زور پر کسی بھی قوم کو ہمیشہ
کے لئے زیر قبضہ نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیر میں اب تیسری نسل ہے جو زیادہ شدت
سے جدوجہد آزادی میں قربانیاں پیش کررہی ہے۔ یہ مسئلہ جوناگڑھ یا حیدرآباد
کی طرح نہیں کہ بقول نہرو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ ایسا نہیں
ہوسکا اور یہ مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے جس کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی
دیتی ہے۔ بھارت کو اپنی عوام میں جذباتی فضا کم کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ
کشمیر کے کسی حل صورت میں اندرونی خلفشار اور دباو نہ ہو۔ اسی جذباتی فضا
کو پاکستان میں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔
پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی بھی کشمیر کو اپنی شہ رگ نہیں قرار دیا اور
پوری ریاست جموں کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا ہے۔ ستر سال کا عرصہ گزرنے کے
بعد حالات بہت بدل چکے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی
انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں
تاکہ جموں کشمیر کے عوام سکھ کے ساتھ جی سکیں اور اس کا فائدہ پاک بھارت کے
عوام کو بھی پہنچے گا جن کی بہت بڑی تعداد غربت اور زندگی کی بنیادی
سہولتوں کو ترس رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے
دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگی اور وہ رقم دونوں ممالک کے عوام
کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پر خرچ ہوگی۔ کشمیریوں سے کہیں زیادہ پاکستان
اور بھارت کے عوام کو امن کی ضرورت ہے اور اگر برصغیر میں امن قائم ہوگیا
تو یہ علاقہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ ہوگا۔ دونوں ممالک کو آپس میں لڑنے کی
بجائے باہمی تعاون کی ضرور ت ہے جو تعلیم، صحت، تجارت، ثقافت، زراعت، صنعت
و حرفت اور دوسرے کئی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔ اس سنہرے دور میں اگر
مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا بہترین حل
یہی ہے کہ پوری ریاست جموں کشمیر کو دس سے پندرہ سال یا اس سے بھی زیادہ
عرصہ کے لئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے اور دوران دونوں
ممالک کا ریاست جموں کشمیر سے مشترکہ تعلق بھی قائم رہے۔ یہ مدت گزر جانے
بعد ریاست جموں کشمیر کے عوام سے آزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے پوچھ لیا جائے
کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ دونوں ممالک کے مشترکہ نظام کے تحت رہنا چاہتے
یا پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا اپنی آزاد و خودمختار
ریاست چاہتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں اور
ضرورت ہے کہ اب سنجیدگی کے ساتھ اس ضمن میں کوشش کی جائے۔ ٹرسٹی شپ کونسل
اقوام متحدہ کے چھ مرکزی اداروں میں سے ایک ہے جو آرٹیکل 75 اور 76 کے تحت
کام کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قواعدکے مطابق کسی بھی متنازعہ علاقہ کے لئے
ٹرسٹی شپ کونسل تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک گیارہ
ممالک یو این ٹرسٹی شپ میں رہے ہیں جن میں ناؤرو ،گھانا ، ٹوگو لینڈ،مغربی
سامووا، ٹینگا نیکا، راوانڈا ارونڈی، برطانوی کیمرون، فرانسیسی کیمرون، نیو
گنی، بحرالکاہل جزائر اعتماد علاقہ، اطالوی صومالی لینڈ شامل ہیں۔اقوام
متحدہ کے تحت بارہویں ٹرسٹی شپ ریاست جموں کشمیر کے لئے کیوں نہیں ہوسکتی؟
پاکستان ماضی میں ایسی تجاویز جنوری 1951 میں دولت مشترکہ کانفرنس اور 1965
میں پیش کرچکا ہے۔ پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے مشرقی تیمورکے طرز
کی تجویز پیش کی تھی۔ اب بھارت کو بھی چاہیے کہ جرات مندانہ فیصلے کرے اور
آگے بڑھے۔ بھارت نے دیکھ ہے کہ ہر طرح کا جبر، ظلم یا لالچ کشمیری عوام کے
جذبہ حیرت کو ختم نہیں کرسکا۔ مسئلہ جموں کشمیر آج بھی زندہ ہے۔بھارت ایک
بڑا ملک ہے اسے چاہیے کہ آنے والے نسلوں کو جنگوں کی تباہی کے خطرات بچانے
کے لئے امن اور جمہوری اقدار کا راستہ اپناتے ہوئے پر امن اور خوشحال
مستقبل کے لئے کام کرے۔
|