آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے

ایوان پارلیمان کے بجٹ اجلاس میں بی جے پی کو وزیر اعظم مودی کی تقریر سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ مودی جادوگر سرکار کی طرح پھر ایک بار اپنی ٹوپی سے کوئی نیا کبوتر نکال کر ذرائع ابلاغ چھا جائیں گے لیکن ٹیلی پرامپٹر نے اس کی ریڑ مار دی۔ اس بار وہ خراب تو نہیں ہوا مگر تقریر خراب ہوگئی کیونکہ اس میں مواد پہلے ہی نہیں تھا اورجو روانی ہوا کرتی تھی وہ ٹیلی پرامپٹر کی نذر ہوگئی۔ اب تو مودی جی پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں اور وہ ہکلا ہکلا کر بولنے لگے ہیں۔ وزیر اعظم کو غالباً دورانِ تقریر ہی اس کے پھسپھسے ہونے کا احساس ہوگیا اس لیے انہوں نے اپنی اگلے دن کے خطاب کا اعلان فرما دیا۔ مودی جی نے کہاکہ ’’کل بھارتیہ جنتا پارٹی نے مجھے بجٹ کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی ہے‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ بجٹ کی خوبیاں وہ کل بیان کریں گے۔ یہ سن کر ایسا لگا جیسے داووس کے عالمی معاشی فورم سے انہیں پھر ایک بار دعوت کی دی گئی ہے حالانکہ پچھلی بار جو تماشہ ہوا اس کے پیش نظر شاید ہی وہ لوگ اپنی غلطی دوہرائیں۔

وزیر اعظم کو ایوان پارلیمان میں صدر جمہوریہ کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے تفصیل سے اپنا موقف رکھنے بھرپور موقع ہوتا ہے اس لیے وہ کسی پارٹی کے اجلاس میں جاکر اپنی بات رکھنے کے محتاج نہیں ہیں اور بی جے پی کی دعوت تو گویا ان کی اپنی ،اپنے آپ کو دعوت ہےجیسے خود اپنے پیسے سے اپنے گلے میں پھول مالا ڈلوانا۔ وزیر اعظم تو خیر ایوانِ پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں جگہ فلاپ ہوگئے مگر اس موقع کا فائدہ اٹھا کر حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے بازی مارلی اور ایسی تقریر کرڈالی کہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی موضوع ِ بحث بن گئی ۔ ان کی تقریر میں امریکہ کا کوئی ذکر نہیں تھا اس کے باوجود وہاں پر اس بابت سوال کیا گیا ۔ وزیر اعظم کی تقاریر کا تو اب دنیا میں کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے تو بس پاکستان اور چین کےتعلقات پر مودی سرکار کو تنقید کانشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی کی غلط پالیسیاں پاکستان اور چین کو ایک ساتھ لائی ہیں جو سب سے بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کے لوگوں کو نقصان ہوا۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا واحد سب سے بڑا اسٹریٹجک ہدف پاکستان اور چین کو الگ رکھنا ہے۔یہ ایک سچائی ہے کشمیر کی دفع 370 کا خاتمہ اورامیت شاہ کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اکسائی چین کو بھی واپس لانے کے اعلان نے پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کے بہت قریب کردیا۔

اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے کہ پہلے تو چین کے ساتھ تجارت کے فروغ کی بات چیت ہورہی تھی اب مسلسل جنگ بندی پر گفت و شنید ہورہی ہے۔راہل گاندھی کےتبصرے پر امریکی ترجمان نیڈ پرائس سے سوال کیا جانا اپنے آپ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے گوکہ امریکہ نے اس کی تو ثیق نہیں کی مگر تردید بھی نہیں کی اور یہ سوال متعلقہ ممالک یعنی چین یا پاکستان سے کرنے کی صلاح دی۔ مذکورہ صحافی نے چونکہ ساتھ میں اس سوال کا اضافہ کردیا تھا کہ کیا پاکستان چین کے ساتھ اس لیے چلا گیا کہ امریکہ نے اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے؟ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پاک چین تعلقات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کے لئے شرط نہیں کہ وہ تعلقات کیلئے امریکہ یا چین میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور امریکہ متعدد محاذ پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کواہمیت دیتاہے۔

راہل گاندھی کے بیان کی بلا واسطہ تصدیق کرتے ہوئے اگلے ہی دن چین نے گلوان وادی میں ہندوستانی فوج کے ساتھ پرتشددجھڑپ میں ملوث چینی فوج کے کمانڈر کو سرمائی اولمپک کھیلوں کی مشعل تھما کر ایک اوردل آزاری کا سامان کردیا ہے۔ چین کی اس مذموم حرکت کے جواب میں ہندوستان نے اپنا احتجاج درج کروانے کی خاطر اولمپک کی افتتاحی اور اختتامی تقریب کےبائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اس بارے میں کہا کہ یہ بے حد افسوس کی بات ہے کہ چین کی حکومت نے اولمپکس جیسے ایونٹ پر سیاست کی ہے۔ان کے مطابق بیجنگ میں واقع ہندوستانی سفارت خانے کے انچارج بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی اور اختتامی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔چینی اخبار گلوبل ٹائمزنےمذکورہ فوجی فاباؤکو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہےاس طرح بیجنگ سرمائی اولمپکس شروع سے ہی سیاسی تنازعات کا شکار ہوگیا ہے ۔ گزشتہ سال امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

چین کے بارے میں راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ اُن لوگوں کے پاس بہت ہی صاف ویژن ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا ہےوہ بولے ’’ میں صاف دیکھ رہا ہوں کہ چین کے پاس ایک منصوبہ ہے۔ ڈوکلام اور لداخ میں چین نے بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے جموں و کشمیر میں بھی بڑی اسٹریٹجک بھول کی ہے۔ اگر ہم اس کی اصلاح نہیں کریں گے تو ملکی باشندوں کو بھگتنا ہوگا‘‘۔ راہل گاندھی کو اس حق گوئی کی بنیاد پر چین یا پاکستان نواز قرار دیا جارہا ہے لیکن اگلے ہی دن آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے نے بھی چین کا نام لئے بغیر کہا کہ سرحدوں پرسابق صورتحال کو تبدیل کرنے جیسی کاروائی مستقبل کے ٹکراؤ کے ’ٹریلر‘ کی طرح ہے ۔ انہوں نےکہا ’’ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ ممالک عالمی سطح پرتسلیم شدہ قواعد اور ضوابط پر مبنی نظام کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ یہ چیلنجز پس پردہ کئے جانے والے حملوں، موقع پرستانہ کارروائی، سابق صورتحال کو تبدیل کرنے اور ماحول کو جنگ کی حدود سے کچھ نیچے تک لے جانے کی صورت میں سامنےآرہے ہیں‘‘۔اب کیا زعفرانی ٹرول آرمی جنرل نرونے کی بھی مخالفت کرے گی ؟

راہل گاندھی نے اس بار اپنی تقریر میں بی جے پی کی ہر دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ۔ انہوں نے بتایا ملک کو امیروں اور غریبوں کے ہندوستان میں تقسیم کرکے اس کے درمیان کی کھائی کو بڑھایا جارہاہے۔ کانگریس نے دس سالوں میں 27 کروڈ لوگوں کو غربت کی سطر سے اوپر لایا تھا اور اس سرکار نے 23 کروڈ کو غریب بنادیا۔ امبانی اور اڈانی کی مونو پولی بڑھ رہی ہے۔ چھوٹی اور درمیانی صنعت کو ختم کیا جارہا ہے۔ بیروزگاری میں بے شمار اضافہ ہوچکا ہےیہ پچھلے پچاس سال میں سب سے زیادہ ہے لیکن صدر مملکت نے اس بابت خاموشی اختیار کرلی ۔ ملک کو ملوکیت کی طرز پر چلایا جارہا ہے ۔ آئین کے مطابق یہ ایک وفاقی ملک ہے لیکن تین ہزار سال کی روایت کو بالائے طاق رکھ کر اسے ایک شہنشاہ کی مانند چلایا جارہا ہے۔ مختلف صوبوں سے کوئی بات نہیں کرتا۔ ان کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ عدلیہ ، انتخابی کمیشن اور دیگر اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
راہل گاندھی نے جن سلگتے ہوئے سوالات کو اٹھایا ان میں سے کسی کا جواب موجودہ سرکار کے پاس نہیں ہے اس لیے بھلائی اسی میں تھی کہ انہیں نظر انداز کردیا جاتا لیکن بی جے پی نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اس کی بڑی شدومد کے ساتھ مخالفت شروع کردی۔ ’ راہل جواب دیں‘ اس ہیش ٹیگ پر اڑتالیس ہزار ٹویٹ ہوئے اور راہل گاندھی کو خوب برا بھلا کہا گیا۔ کسی نے انہیں پاگل کہا تو کسی نے غدارِ وطن قرار دے دیا ۔ سوال یہ ہے اگر یہی بات ہے ان کے بیان پر ہائے توبہ مچانے کے بجائے مقدمہ دائر کرکے جیل بھیج دینا چاہیے۔ اس پر وزیر خارجہ سے لے وزیر قانون تک کو ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ سچ تو یہ ہے اس مخالفت نے راہل گاندھی کو اس قدر مقبول کردیا کہ ان کے مخالفین نے بھی اس تقریرکو سنا اور وہ ایسا خطاب ہے کہ شاید ہی کوئی اس سے متاثر نہیں ہوا ہو۔ اس نادانستہ حمایت کے لیے راہل گاندھی کو مودی بھگتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ راہل گاندھی کے بیان سے ان لوگوں کو ایسی مرچی لگی کہ تلملا اٹھے ۔ ایسے میں بی جے پی والوں پر 1964 کی فلم ’آئی ملن کی بیلا‘ کا یہ نغمہ صادق آتا ہے؎
وہ تو ہر روز رلاتے ہیں گھٹاوں کی طرح
ہم نے اک روز رلایا تو برا مان گئے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449650 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.