پانچ اہم صوبوں میں انتخابات سے قبل ایوانِ پارلیمان کا
بجٹ سیشن سرکار کے لیے عوام کا دل جیتنے کا ایک نادر موقع تھا۔ ویسے بھی یہ
جملہ باز سرکار ہے ۔ جھوٹ موٹ وعدے کرنا اور پھر ان سے مکر جانا اس کا شعار
ہے اس کے باوجود جب میڈیا انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تو لوگ بہل جاتے
ہیں لیکن اس بار سرکار کو نہ جانے کیا ہوگیا ۔ اول تو صدارتی خطبے میں
عوامی مسائل کو نظر انداز کیا گیا ۔ اس کے بعد وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن
سے توقع تھی کہ وہ اپنے بجٹ میں کچھ پھلجھڑیا ں چھوڑیں گی تو وہ بم بھی
پھٹنے سے قبل پھُس ہوگیا ۔ نرملا سیتا رامن کے دفتر والوں کی سمجھ میں یہ
بات آگئی ہے کہ ان کو نہ کچھ آتا جاتا ہے اور نہ یاد رہتا ہے۔ اس لیے
محنت مشقت کرنے کے بجائے 2015 میں ارون جیٹلی کے ذریعہ پیش کردہ بجٹ کو
تاریخ بدل کر کاپی پیسٹ کردیا ۔ آنجہانی جیٹلی جو ہدف 7 سالوں میں حاصل
کرنا چاہتے اس کی مدت کو بڑھا کر 25 سال کردیا گیا ۔
پرانے اہداف کو پھر سے بجٹ میں شامل کرکے پیش کرنا اس حقیقت کا بلا واسطہ
اعتراف تھا کہ پچھلے 7 سال ضائع ہوگئے اور ان میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا
۔وز ارتِ داخلہ کے کاہل افسران کی خوش فہمی کو رویش کمار نے ارون جیٹلی کی
پرانی تقریر کی کلپ بتابتا کر دور کردیا لیکن جس طرح مودی مخالف لوگ گودی
میڈیا نہیں دیکھتے اسی طرح سرکار کے طرفدار رویش کمار سے دور رہتے ہیں ہوں
گے۔ اس لیے ان درباریوں کو اپنی غلطی کا احساس بھی نہیں ہوا ہوگا ۔ وزیر
داخلہ امیت شاہ کو مودی جی کی تعریف و توصیف کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ
انہوں نے نرملا سیتا رامن کے پیش کردہ بجٹ کو بھی سراہتے ہوئے اسے تاریخی
قرار دےدیا۔ ویسے ان سے یہ توقع تو تھی ہی نہیں کہ آگے بڑھ اس کی وجہ
بتائیں گے ۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عوام نہایت بیوقوف اور اپنے آپ
کو بہت زیادہ عقلمند سمجھتی ہے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔
عوام کے بارے میں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ بیچارے بھولے
بھالے لوگ کچھ نہیں جانتے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ ’یہ تو پبلک ہے یہ سب
جانتی ہے۔ اندر کیا باہر کیا یہ سب کچھ پہچانتی ہے ۔ یہ پبلک ہے یہ سب
جانتی ہے پبلک ہے‘۔ یہ اور بات ہے کہ وہ جانتے بوجھتے بھی توقع اورامید
یانفرت و محبت سے مغلوب ہوکر غلطی کربیٹھتی ہے ۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں
ہے کہ ان کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے ۔انسانی فطرت ایسی ہے کہ وہ بار بار
ایک ہی غلطی دوہراتے دوہراتے اوب جاتی ہے۔ اترپردیش کے رائے دہندگان کا فی
الحال ایسا ہی کچھ موڈ دکھائی دیتا ہے۔ انتخابات میں رہنماوں کا وعدے کرنا
۔ انہیں بھول جانا اور پھر سے اپنے حلقۂ انتخاب میں جاکر کامیاب ہوجانا
کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ اس کے برخلاف
کبھی کبھار ووٹرس قدآور رہنماوں کو ان عدم کارکردگی کی سزا دے کر شکت فاش
سے بھی دوچار کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا ۔ اس کا دارومدار
عوام کے پیمانۂ صبر پر ہے کہ وہ کب چھلک پڑے۔
سیاسی رہنماوں کی قوت برداشت تو بہت کم ہوتی ہے مگر ہندوستانی لوگ کچھ
زیادہ ہی صابر و شاکر بلکہ بے حس واقع ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے
کہ پانچ سال کے اندر ہی اترپردیش کے رائے دہندگان نے ارادے بدل لیے ہیں۔ اس
مرتبہ وہ اپنے غم وغصہ کو پولنگ کے دن تک قابو میں رکھنے کے روادار نہیں
بلکہ اس سے پہلے ہی اس کا اظہار کرنے لگے ہیں ۔اترپردیش سے ایسی کئی ویڈیوز
سامنے آچکی ہیں جن میں بی جے پی کے ارکان ِ اسمبلی اور وزراء تک کو عوام
نے اپنے علاقہ سے کھدیڑ کر بھگا دیا ہے۔ یہ معاملہ صرف مغربی اترپردیش تک
محدود نہیں ہے جہاں کسان تحریک نے ساری سیاست کی کایا پلٹ کردی بلکہ وسطی
اور مغربی یوپی میں بھی ایسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اترپردیش نے
اندر پسماندہ طبقات میں بی جے پی کے مقبول ترین رہنما اور نائب وزیر اعلیٰ
کیشو پرشاد موریہ کا اپنے علاقہ سے بھگا دیا جانا کوئی معمولی واردات نہیں
ہے۔ وہاں ان کو بھگانے والے کل تک موریہ کی برادری کے بی جے پی حامی تھے۔
نائب وزیر اعلیٰ کے علاوہ کئی مقامات سے ہاتھ جوڑ کر بھاگنے والوں کے
ویڈیوز میں عام لوگ اور نوجوانوں کی بڑی تعدادنظر آتی ہے ۔ یہ معاملہ بی
جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کے ساتھ نہیں ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے
اپنے رہنما کی حمایت میں بی جے پی کے کارکن بھی سامنے نہیں آتے اس لیے کسی
ایک بھی مقام پر تصادم نہیں ہوا۔ یہ عجیب و غریب معاملہ ہے کیونکہ ایساتو
مغربی بنگال میں بھی نہیں ہوا تھا ۔ اس لیے یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ ایسا
کیوں ہوگیا ؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں ۔ ایک عوام میں غم وغصہ کیوں ہے؟ اور
دوسرے کارکنا ن کو فالج کیوں مارگیا ہے ؟ پہلے سوال کا جواب عوام کے ایک
سوال میں پوشیدہ ہے۔ بی جے پی والوں کی جہاں بھی اس حد تک مخالفت ہوئی کہ
انہیں بھاگ کھڑا ہونا پڑا تو یہ ضرور پوچھا گیا کہ پچھلے پانچ سال تک وہ
کہاں تھے ؟ یعنی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جب وہ شدید آزمائش سے گزر رہے
تھے تو یہ رہنما کس غار میں چھپ کر ہنومان چالیسا پڑھ رہے تھے ۔
یہ سوال تو بالکل جائز ہے لیکن وہ اپنے رہنما کی مجبوری نہیں سمجھتے ۔ اس
دوران ان کے گم سم ہوکر بیٹھنے کی وجہ یہ تھی کہ اقتدار میں ہونے کے باوجود
ان کی کوئی سن کر نہیں دیتا تھا ۔ انتظامیہ ان کے مطالبے پر اس وقت تک عمل
در آمد نہیں کرسکتا تھا کہ جب تک یوگی جی اس کی توثیق نہیں کردیتے۔ جہاں
تک یوگی جی کا سوال ہے ان تک کسی کی رسائی ممکن نہیں تھی ۔ وہ چند افسران
کی مدد سے اپنی من مانی کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف خود بی جے
پی کے تقریباً دوسو ارکان اسمبلی نے دھرنا دیا لیکن نہ ان کے اور نہ مرکز
کے کان پر جوں رینگی ۔ ایسی اندھی بہری سرکار کا وزیر یا رکن اسمبلی کیا
منہ لے کر اپنے حلقۂ انتخاب میں آتا؟ اور اگر ان سے کوئی وعدہ کرکے جاتا
تو اسے کیسے پورا کرتا ؟ اس لیے ان لوگوں نے سرکاری سہولتوں پر عیش کرنے پر
اکتفاء کیا ۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ٔکار نہیں تھا ۔ کورونا کے
دوران جن رہنماوں نے خط کتابت کی وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ ان کی اس حرکت
کو گستاخی یا پارٹی مخالف سرگرمی سمجھا گیا ۔ وہ تو خیر انتخاب کی مجبوری
انہیں اپنے حلقۂ انتخاب میں لے گئی ورنہ اب بھی نہیں جانتے۔
ایک اور نئی بات اس بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پہلے اگر کسی بی جے پی کے رکن
اسمبلی کا ٹکٹ کٹتا تھا تو وہ اپنے غم غصے کا اظہار کرتا تھا ۔ کئی لوگ
بغاوت کرکے آزاد کھڑے ہوجاتے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں ہورہا ہے۔ لوگ باگ
اس تلخ فیصلے کو مسکرا کر قبول کرلیتے ہیں اور پارٹی کے ساتھ وفاداری کی
تجدید کرتے ہیں کیونکہ انہیں اندر ہی اندر اس بات کی خوشی ہے کہ پہلے تو
لوگوں میں جاکر رسوا ہونے سے بچ گئے اور آگے چل کر شکست کی شرمندگی سے
نجات مل گئی ۔ رہنماوں کی اس کیفیت سے کارکنان کی حالت کا اندازہ بخوبی
لگایا جاسکتا ہے۔اقتدار سے محروم پارٹی کے کارکنان سے عوام کو کوئی توقع
نہیں ہوتی۔ اس لیے مشکل حالات میں عوام کے غم و غصے کو اور بھڑکا کر اسے
اپنے حق میں استعمال کرنا بہت سہل ہوتا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بیس سال
کے بعد اترپردیش میں اقتدار نصیب ہوا۔ اس سے پہلے وہ لوگ یہی کرتے تھے۔ اب
اقتدار میں آنے کے بعد بھی کانگریس کے سترّ سال اور اکھلیش کے پانچ سال
والی بات عوام کے گلے سے کیونکر اتر سکتی ہے۔
کورونا کے زمانے میں بی جے پی کارکنان خود بے یارومددگار ہوگئے تھے ۔ ان کے
اپنے لوگ مررہے تھے لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا تو وہ دوسروں کی کیا مدد
کرتے ؟عوام کے اندر جو بے چینی ہے وہی غصہ کارکنان کے اندر بھی ہے۔ وہ اس
کو محسوس کرتے ہیں ایسے میں ان سے یہ توقع کیسے کی جائے کہ وہ اپنے رہنما
کو بچانے کی مخالفین سے ٹکرائیں گے ؟ ان کو اندیشہ ہے کہ رہنما تو ایک بار
رسوا ہوکر چلا جائے گا مگر انہیں تو اسی گاوں میں رہنا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ
بات عقل عام کے خلاف ہے کہ آپ جس کی مخالفت کریں وہ آپ کو ووٹ دے کر
کامیاب کرے ۔ ایسے میں بادلِ نخواستہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا پڑتا ہے
۔یوگی کو معلوم ہونا چاہیے کہ گرمی نکالنے کی دھمکی سے چوٹ تو ملتی ہے ووٹ
نہیں ملتے بلکہ چربی اتار دینے کا جواب منہ توڑ جواب ملتا ہے۔ قوی امکان ہے
کہ اس بار کمل پر ہی نہیں دل پر بھی جوزخم لگے گا وہ جلدی نہیں بھرے گا۔
|