ٹرین کی کئی کوچیں دونوں کے اوپر سے گزریں… لڑکی کی جان بچانے والے شخص نے اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالی؟

image
 
انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں 37 سالہ محمد محبوب پیشے سے بڑھئی ہیں اور شہر کے علاقے برکھیڑی کی ایک دکان میں کام کرتے ہیں۔
 
مگر گذشتہ کچھ دنوں میں ان کی زندگی اچانک بدل گئی ہے اور لوگ مسلسل ان کے گھر آکر انھیں مبارکباد دے رہے ہیں۔
 
محبوب نے 5 فروری کو ریلوے ٹریک پر پھنسی ایک لڑکی کی جان بچائی مگر خود اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔ یہ لڑکی سامان لے جانے والی ایک ٹرین کے نیچے سے گزر رہی تھی جب اس ٹرین نے چلنا شروع کردیا۔
 
اس لڑکی نے مدد کے لیے پکارا اور محبوب، جو پاس ہی موجود تھے، فوراً ٹرین کے نیچے کود پڑے اور لڑکی کو وہیں محفوظ رکھا۔ اس دوران ٹرین کی کئی کوچیں ان دونوں کے اوپر سے گزریں۔ ٹرین گزر گئی اور محبوب اور وہ لڑکی دونوں محفوظ رہے جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
 
محبوب نے اس بارے میں کہا ہے کہ ’یہ کام اللہ کی مدد سے ہوا ہے۔ جب لڑکی نے مدد کے لیے پکارا تو میں اس سے قریب 30 فٹ دور تھا۔ وہاں 30 سے 40 لوگ دیکھ رہے تھے لیکن میں نے محسوس کیا کہ اسے مدد کی ضرورت ہے۔ مجھے یہی کرنا چاہیے تھا اور میں نے یہی کیا۔‘
 
ان کے مطابق یہ واقعہ 5 فروری کا ہے اور انھوں نے اس بارے میں بہت کم لوگوں کو بتایا ہے کیونکہ وہ خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ زیادہ لوگ اس بارے میں جانیں۔
 
image
 
وائرل ویڈیو
اگر اس واقعے کی ویڈیو وائرل نہ ہوتی تو شاید لوگ اس بہادری کی کہانی کو کبھی نہ جان پاتے۔
 
بھیڑ میں موجود ایک شخص نے اس کی ویڈیو 11 فروری کو شیئر کی اور یہ فوراً وائرل بھی ہوگئی۔ اس وقت سے محبوب بھوپال شہر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
 
محبوب کو اس لڑکی کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اس واقعے کے بعد روتی ہوئی لڑکی وہاں سے چلی گئی تھی۔
 
محبوب خود بھی ایک تین سالہ بیٹی کے والد ہیں۔ ان کے والدین بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ محبوب کے مطابق انھوں نے اس بارے میں اپنے والدین اور اہلیہ کو بتایا اور جواب میں انھوں نے محبوب کو کافی داد دی۔ لیکن جب محبوب نے اس کی وائرل ویڈیو اپنی بیوی کو دکھائی تو انھیں اندازہ ہوا کہ محبوب نے کس قدر بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔
 
محبوب کی اہلیہ روحی انصاری کہتی ہیں کہ ’یہ ہمارے مذہب میں ہے کہ لوگوں کی مدد کریں۔‘
 
اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے محبوب کہتے ہیں کہ ’جب میں ٹریک پر لیٹا ہوا تھا تو میں نے لڑکی کا سر اپنے ہاتھ سے ڈھکا ہوا تھا۔ کیونکہ وہ ڈر سے اپنا سر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔‘
 
image
 
وہاں سے اٹھنے کے بعد وہ لڑکی اپنے بھائی کے پاس دوڑتی ہوئی گئی۔ محبوب کہتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں کہ انھوں نے اس مشکل صورتحال میں لڑکی کی مدد کی۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے وہی کیا جو اس وقت میرے دل نے کہا۔‘
 
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محبوب مسجد سے عشا کی نماز پڑھنے کے بعد لوٹ رہے تھے۔ وہ برکھیڑی گیٹ کے قریب پہنچ گئے تھے۔
 
ٹریک پر لیٹنے کے دوران محبوب یہی سوچ رہے تھے کہ ٹرین کا کوئی بھی حصہ انھیں یا لڑکی کے سر کو نہ لگے۔
 
image
 
محبوب نے جس لڑکی کی جان بچائی اس کا نام سنیہا گور ہے اور وہ بھوپال کی ایک نجی کمپنی میں سیلز پرسن کے طور پر کام کرتی ہیں۔
 
سنیہا نے اب تک محبوب سے ملاقات تو نہیں کی ہے لیکن انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ محبوب نے ان کی جان بچائی ہے۔
 
ان کے بھائی ٹریک کے دوسری جانب کھڑے تھے۔ سنیہا بتاتی ہیں کہ وہ اپنے بھائی کو سر اٹھا کر بتانا چاہتی تھیں کہ وہ محفوظ ہیں۔
 
محبوب کے پاس اپنا موبائل فون نہیں لیکن اب بہت سی مقامی تنظیمیں ان کی مدد کرنا چاہ رہی ہیں۔ جیسے بی بی ایم کے آپریٹر شعیب ہاشم نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک موبائل فون کا تحفہ دیا ہے۔
 
شعیب ہاشم کا کہنا تھا کہ ’محمد محبوب کو عزت ملنی چاہیے۔ انھوں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر کسی اور کی جان بچائی ہے۔ وہ اس بارے میں خود کسی کو نہیں بتانا چاہتے تھے۔ لیکن ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ بات پھیل چکی ہے۔ تو اب سب ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
 
اسی دوران مقامی پولیس افسران نے بھی محبوب کا شکریہ ادا کیا ہے۔
 
اسی علاقے میں کام کرنے والے ذیشان قریشی وہاں موجود تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں سامنے کھڑا تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہ کیسے اتنا بڑا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ وہ مر بھی سکتے تھے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت عمدہ کام تھا۔ جب ٹرین کے جانے کے بعد وہ لڑکی وہاں سے گئی تو وہ کافی پریشان تھی اور فوراً بھاگتے ہوئے اپنے رشتہ دار کے پاس پہنچی۔‘
 
ذیشان کا کہنا ہے کہ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے مگر کسی نے بھی اتنی بہادری نہیں دکھائی۔
 
image
 
اس گنجان آباد علاقے میں پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی پُل نہیں ہے۔ یہاں ایک گیٹ ہوا کرتا تھا مگر مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ سات سال قبل بند کر دیا گیا تھا۔ اب یہ جگہ تنگ ہے اور ہزاروں کی آبادی روزانہ غیر محفوظ طریقے سے ٹریک پار کرتی ہے۔
 
علاقہ مکین الماس علی کہتے ہیں کہ ’یہاں روز کوئی سامان لے جانے والی ٹرین پارک ہوتی ہے جو کبھی کبھار آدھے گھنٹنے تک رکی رہتی ہے۔ اس وجہ سے لوگ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ اس طرح ٹرین کے نیچے سے گزرتے ہیں تاکہ دوسری جانب پہنچ سکیں۔‘
 
ماضی میں اس کی وجہ سے کافی حادثات بھی ہوئے ہیں۔ ریلوے پولیس کے مطابق گذشتہ سال 18 لوگوں کی جانیں اسی وجہ سے گئی تھیں۔ لوگوں نے کئی بار پُل بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور اب اس حادثے کے بعد ریلوے کے محکمے نے اس منصوبے کی منظوری بھی دی ہے۔ مگر اس پُل کو بنانے میں ایک سے دو سال لگ سکتے ہیں۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: