اولاد کی نافرمانی

یہ آرٹیکل والدین اور اولاد کے تعلق پر لکھا گیا ہے اور میں نے اس رشتے کے متعلق غلط فہمیاں ختم کرنے کی ایک کوشش کی

Sikandar Ghouri

آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچے۔

قارئین ، ایسا مانا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کیلئے خواہ مرد ہو یا عورت صاحبِ اولاد ہونا کسی اعزاز سے کم نہیں ہر انسان اس بات سے متفق ہے اور ہونا بھی چاہئے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اولاد ذاتِ اقدس کا انسان کو دیا ہوا انمول تحفہ ہے بلکہ بیش قیمتی نعمت ہے ہر آدم ذاد اپنی ایک پہچان رکھتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ انسان اپنی پہچان اپنے پُرکھوں کی نسل یا لڑی سے کرواتا ہے جن کی وہ اولاد کی اولاد اور ان کی اولاد سے پیدا ہے سادہ الفاظ میں بتاتا چلوں کہ ہر کسی کی پہچان والدین سے ہے۔

جبکہ میں اپنے الفاظ سپردِ قلم کر چکا ہوں کہ صاحبِ اولاد ہونا کسی بھی شخص کیلئے اعلٰی شرف اور اعزاز کی بات ہے آئیے اس بات کی گہرائی کو جانچتے ہوئے فلسفے کی دنیا کو پرکھیں تو اس بات کا فرق معلوم ہو جائےگا کہ اولاد کو پہچان دینا اگر والدین کا احسان ہے تو قارئین ! ایک لمحے کیلئے سوچیئے کہ والدین کو صاحبِ اولاد کے لقب سے نوازا جانا بھی اولاد کا احسان ہے اور اولاد کو والدین جیسی نعمت اور والدین کو اولاد جیسی نعمت بخشنا خالقِ کی مہربانی ہے لیکن ازل سے ہر آدم ذاد کا دستور اور فطرت رہے ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کا احسان ماننا ہے اور جتانا ہے جبکہ خالق کی ہر نعمت کو انسان ٹھُکراتا رہا ہے۔

ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہر کسی کااپنا پلڑا بھاری ہے البتہ دوسرا پلڑا ہلکا ہی ہونا چاہئیے اگر ترازو کا وہ پلڑا جس میں آپ بیٹھے ہیں ہلکا پایا گیا اور دوسرا پلڑا جس میں کوئی اور ہے وہ بھاری پایا گیا یا آپکا پلڑا بھاری اور سامنے والے کا ہلکا پایا گیا تو یقیناً ترازو میں بیٹھے دونوں اشخاص یہی کہیں گے کہ وزن کا پیمانا درست نہیں۔

ہر انسان نے کسی نا کسی بات کو اپنی اناء کا سبب بنایا ہوا ہے کسی کیلئے مذہب اناء ہے ، کسی کیلئے اچھائی و نیکی کا ٹُھکرایا جانا ، کسی کیلئے مال و دولت کسی کیلئے رُتبہ و درجہ کسی کیلئے اپنا رعب و دبدبا اور کسی کیلئے عزتِ نفس اناء کی وجہ بن چکے ہیں جبکہ اناء کا ہونا ہی ممنوع ہے چاہے حق پر ہو یا نا حق۔

والدین اور اولاد کے درمیان بھی اناء کا وجود قائم ہے اور وہ وجود تب نمایا ہوتا ہے جب دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ، فرائض اور حقوق یاد کرائے جاتے ہیں اور جب انہیں نبھانے کی باری آتی ہے تو اناء عداوت بن جاتی ہے اور پھر کیا ہوتا ہے ؟ زیادہ کچھ نہیں !۔۔۔۔۔۔۔بس والدین اولاد کو نافرمان کے لقب سے نوازتے ہیں اور اولاد والدین کو غیر ذمہ دار ہونے کا سہرا ان کے سر سجا دیتی ہے ۔

ہر گھر میں والدین خاص طور پر والد کے منہ سے اکثر یہ کلمات سننے کو ملتے ہیں “میرا بیٹا کچھ نہیں کرتا کچھ کماتا نہیں ہے مجھے بھلا اس کے پیسے کا کیا لالچ ہم نے تو کبھی نہیں سوچا کہ کما کر ہمیں دے بس کوئی کام دھندا کرے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھے” خیر بیٹا شرمندہ ہو کر کام پر لگ جاتا ہے اور سب خوش بھی ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بیٹے کو کچھ زیادہ ہی شرم آجاتی ہے یعنی وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ گھر میں دینے لگ جاتا ہے پھر بھی کچھ عرصے بعد بلکہ محدود مدت کے بعد اسے ملے سبق کا خلاصہ سنایا جاتا ہے “بیٹا تمہاری آمدن کچھ کم نہیں” اور قارئین معذرت کے ساتھ کہوں گا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کم آمدن والا معاملہ ایک نئے جملے کی تخلیق کا سبب بنتا ہے “ بیٹا گھر میں کچھ نہیں دیتا” ارے بھئی بیٹے کے کام کاج کرنے سے پہلے تو آپ کو یہ کمائی نہیں چاہئے تھی۔

عقیدے کے حوالے سے سب مذاہب ایک دوسرے سے الگ ہیں لیکن اگر کوئی مسلمان مولوی سے والدین کے متعلق پوچھے تو مولوی صاحب کہیں گے کہ والدین اللّہ تعالٰی کی نعمت ہیں اگر ہندو مندر کے پنڈت سے یہی سوال کرے تو پنڈت مہاراج کہیں گے کہ ماتا پِتا جیون داتا ہیں اور اگر کوئی مسیح اپنے پیشوا یا کاہن سے پوچھے تو کاہن جواب دیں گے کہ ماں اور باپ ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور خدا کا حکم ہے کہ ماں باپ کی عزت کرو اب ذرا مغربی معاشرے پر نظر ڈالیں تو اس معاشرے کا مرد اور عورت دونوں حوس کے بھوکے ہیں اور اس معاشرے میں جنسی تعلق عام بات ہے لیکن انہوں نے بھی یہ کہہ دیا Parents are blessing والدین کے متعلق ہر مذہب ، ہر قوم کا نظریہ ایک جیسا ہے پھر بھی اولاد نافرمان ہے آخر کیوں ؟ یا پھر والدین بھول گئے ہیں کہ وہ بھی کسی کی اولاد ہیں۔

ہم انسان کسی حال میں خوش نہیں رہ سکتے میں تحریر کے اوّل حصے میں بتا چکا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں نسل در نسل اپنی پہچان کرائی جاتی ہے یعنی باپ، داد ، پردادا، پھر ان کا باپ اور پھر ان کے باپ کا دادا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک ہی لڑی چلتی آرہی ہے اور ہر باپ اپنے بچوں کو یہ بات کہتا ہے کہ آج تم جیسا ہمارے ساتھ کروگے ویسا ہی تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کرے گی ! ہمیں سکون نہیں دو گے تو تمہاری اولاد بھی تمہیں سکون نہیں دے گی لہٰذا مطلب صاف ہے جیسا اولاد کرے گی ویسا ان کی اولاد ان کے ساتھ کرے گی یعنی ایسا کہنے والے جو والدین ہیں انہوں نے بھی اپنے والدین کو سکون نہیں دیا اور اب ان کی اولاد ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کر رہی ہے جیسا انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا۔

قارئین یہ زندگی کا سبق ہوتا ہے جو ہم لکھتے ہیں اور ہماری اولاد ہمیں یہ سبق پڑھ کر سناتی ہے۔

اب اولاد کی نافرمانی کی وجہ اور نتیجہ اخذ کرنے کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے بلکہ یہ فیصلہ آپ کی سوچ ہے۔

خدا آپ سب کا حامی و ناثر۔
 

Sikandar Ghouri
About the Author: Sikandar Ghouri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.