سینٹ ویلنٹائن ڈے (Saint Valentine's Day) جسے ویلنٹائین
ڈے (Valentine's Day) اور سینٹ ویلنٹائن کا تہوار (Feast of Saint
Valentine) بھی کہا جاتا ہے محبت کے نام پر مخصوص عالمی دن ہے اسے ہر سال
14 فروری کو ساری دنیا میں سرکاری و غیر سرکاری، چھوٹے یا بڑے پیمانے پر
منایا جاتا ہے۔ اس دن شادی شدہ و غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو پھول اور
تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اس کے علاوہ لوگ بہن، بھائیوں،
ماں، باپ، رشتے داروں، دوستوں اور استادوں کو پھول دے کر بھی اس دن کی
مبارکباد دیتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کیا ہے اور اس کی ابتدا کس طرح ہوئی؟ اس کے بارے میں کئی
روایات ملتی ہیں تاہم ان میں یہ بات مشترک ہے :
’’ویلنٹائن ڈے (جو 14/ فروری کو منایا جاتا ہے)، محبت کرنے والوں کے لیے
خاص دن ہے۔‘‘
’’اسے محبت کرنے والوں کے تہوار(Lover's Fesitival) کے طور پر منایا جاتا
ہے۔‘‘
سینٹ ویلنٹائن ایک مسیحی راہب تھا۔ اس سے بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کچھ
باتیں جڑی ہیں۔ اسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے؟ اور
سینٹ ویلنٹائن سے اس کی کیا نسبت بنتی ہے، اس کے بارے میں بک آف نالج کا
مذکورہ اقتباس لائق توجہ ہے :
’’ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار
لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع
پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔
بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے بعد میں جب اس تہوار
کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو
برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا
رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراْمید دوشیزہ سے یہ بات
منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ
پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے
خاوند کو دیکھ سکے گی بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا
سلسلہ شروع کر دیا۔‘‘۔
14 فروری کا یہ ’یومِ محبت‘ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس
کے بارے میں محمد عطاء اﷲ صدیقی رقم طراز ہیں :
’’اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی
داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے
جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ مسیحیت میں راہبوں
اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔ اس لیے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی
معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری
کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے
گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں
یہ سب کچھ کر گذرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اْڑانے پر ان کا حشر وہی
ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں
نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں
دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے
راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی مسیحی
پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیے۔ بینکاک میں تو ایک مسیحی
پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کر دیا جس پر
ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔‘‘
قدیم رومی اپنے مشرکانہ عقائد کے اعتبار سے خدائی محبت کی محفلیں جماتے
تھے، اس کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومیوں کے دور میں ہوا جب کہ اس وقت
رومیوں میں بت پرستی عام تھی اور رومیوں نے پوپ ویلنٹآئن کو بت پرستی چھوڑ
کر مسیحیت اختیار کرنے کے جرم میں سزائے موت دی تھی لیکن جب خود رومیوں نے
مسیحیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ ویلنٹائن کی سزائے موت کے دن کو یوم
شہید محبت کہہ کر اپنی عید بنالی۔اس کی تاریخ مسیحی راہب ولنٹینس یا
ویلنٹائن سے یوں جڑی ہے کہ جب رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے لشکر
تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا، بادشاہ کو
معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل و عیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں
چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے
اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی بلکہ
اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے
ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی۔ویلنٹائن ڈے
منانے کے حق میں جو دلائل دیے جاتے ہیں، اْن کے مطابق ویلنٹائن ڈے خوشیاں
اور محبتیں بانٹنے کا دن ہے۔ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی رائے یہ ہے کہ :
٭’’اس روز اگر خاوند اپنی بیوی کو از راہِ محبت پھول پیش کرے یا بیوی اپنے
سرتاج کے سامنے چند محبت آمیز کلمات کہہ لے تو اس میں آخر حرج کیا ہے؟‘‘
٭ یہ محبت کے اظہار کا دن ہے، اس پر پابندی کیوں لگائی جائے؟انسانی زندگیوں
میں نفرتیں اس قدر زیادہ ہوچکی ہیں ، اگر ایک دن محبت کے نام کر دیا گیا ہے
تو اس میں کیا برائی ہے؟
٭ ویلنٹائن ڈے صرف لڑکے اور لڑکی کی محبت کا دن نہیں ہے،کیونکہ محبت کا صرف
ایک یہی رنگ تو نہیں ہوتا۔ ماں، باپ، بہن بھائیوں اور دوستوں وغیرہ کو بھی
تو پھول دیے جاسکتے ہیں۔
محبت کسی ایک دن کی محتاج نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی پوری دنیا میں 14 فروری
کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے، اس دن لوگ اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔
اظہار محبت کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ تاہم پاکستان اور انڈیا میں زیادہ تر
عاشق حضرات ویلنٹائن ڈے کے دن اپنے پیار و محبت کا اظہار محبت بھری شاعری
سے کرتے ہیں۔ہمارے دین اسلام میں ایسے کسی بھی تہوار کی نا تو اجازت ہے اور
نہ ہی کوئی کنجائش ہے۔اسلام میں غیر مردوں اور غیر عورتوں کا ایک دوسروں سے
ملنا اور اظہارمحبت کرنا منع ہے۔
مسیحی نقطہ نظرکے مطابق:
چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر
مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2016ء بھی مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت
میں سخت بیانات دیے۔ اسی کی کڑی کے طور پر بینکاک میں ایک مسیحی پادری نے
بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کر دیا جس پر ویلنٹائن کارڈ
فروخت ہو رہے تھے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ویلنٹائن ڈے کو منانے کی رپوٹ:
حالیہ برسوں میں امریکا اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں
میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay)اورلڑکیاں پیش پیش تھیں۔ وہ
بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ہم
جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکاء نے اپنے سینوں
اوراعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن
سمجھا جاتا ہے جب ’محبت‘ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی
تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں۔ کچھ اسلامی ممالک میں اس دن اس رسم کیخلاف
مہم بھی چلائی جاتی ہے۔
پاکستان:
پاکستان میں گذشتہ دو تین سالوں سے اس دن کے جشن منانے کا جذبہ نوجوانوں
میں جوش پکڑتا جا رہا ہے، حالانکہ یہاں کا ماحول یورپ جتنا سازگار نہیں ہے
اور آبادی کا معتدبہ حصہ اس دن کی تقاریب کو قبیح مانتا ہے۔ یہاں پر
ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی
نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہری علاقوں میں اسے جوش وخروش سے منایا جاتا
ہے۔ پھولوں کی فروخت میں کئی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال کارڈز کی
فروخت کا ہوتا ہے۔2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوامی مقامات پر
ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگا ئی تھی۔
بھارت:
بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل نے ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو
سنگین نتایج کی دھمکیاں دیتے ہوئے انھیں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے
تیار رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ایک اور انتہا پسند تنظیم ہندو مہاسبھا نے اعلان
کیا ہے کہ وہ کْھلے عام آئی لو یو کہنے والے جوڑوں کی زبردستی شادی کروائے
گی۔
انڈونیشیا:
2020: انڈونیشیا میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی رہی۔ حکام نے مختلف ہوٹلوں پر
چھاپے مار کر بہت سے جوڑوں کو گرفتار کیا۔
سعودی عرب:
2002ء اور 2008ء میں سعودی پولیس نے ویلنٹائن کے حوالے سے کسی بھی چیز کی
فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پابندی نے وہاں ایک کالا بازار (بلیک
مارکیٹ) بنا دی جہاں ویلنٹائن کے پھول اور دیگر چیزیں ملتی تھی۔ 2012 میں
مذہبی پولیس نے 140 مسلمانوں کو یہ تہوار مناتے ہوئے پکڑا اور دوکانوں پر
فروخت ہوتے تمام پھول قبضے میں لے لیے۔سعودی عرب میں مسلمان یہ تہوار نہیں
منا سکتے جبکہ غیر مسلم گھروں میں اسے منا سکتے ہیں۔ 2020 ء میں سعودی عرب
میں کھل کر ویلنٹائن ڈے کو منایاگیا۔ پیار کرنیو الوں نے ایک دوسرے کے لیے
پھول اور تحائف خریدے۔اس سال سرکاری سطح پر ویلنٹائن ڈے پر کوئی رکاؤٹ نہیں
ڈالی گئی اور نہ ہی مذہبی حلقوں نے اس کی مخالف کی۔اس کی وجہ ولی عہد محمد
بن سلیمان کا سعودی عرب کو معتدل بنانے کا عزم ہے۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور تباہ کاریاں:
مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اور بدتہذیبی اور
بدکرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔ جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا
ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو
فروغ دینا شروع کیا۔اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات روایات اور بد اخلاقی و
بے حیائی کو پھیلانے لگے۔ چنا نچہ ان ہی میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس
کو ’’یوم عاشقاں ‘‘یا ’’یوم ِ محبت ‘‘کے نام سے منایا جاتا ہے اور تمام
حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور
تہذیب وشرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے اور ناجائز طور پر اظہار
محبت کے لئے اس دن کاخاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل یہ لعنت اس درجہ
ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نوجوان طبقہ اس کا غیر
معمولی اہتمام کرنے لگا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء
وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے دیگر تمام
دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیوں کہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل
اور اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں اور غیر شرعی و غیر اخلاقی طور پر محبت
کا راگ الاپ سکتے ہیں۔جب کہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی اعتبار سے اس کی
بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش ِ
جنوں اور دیوانگی میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا
ہے۔آئیں اس کی حقیقت اورتاریخ کو جانتے ہیں تاکہ اس لعنت سے مسلم نوجوانوں
کو بچایاجا سکے۔
واقعہ بہر حال جو بھی ہو اور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو
لیکن آج اس رسم کو ِ بد لنے کی ضرورت ہے اس کی وجہ سے ایک طوفان ِ بے حیائی
برپا ہورہا ہے جو کہ معاشرے کے لیے ناسور بنتا جارہا ہے۔ عفت و عصمت کی
عظمت اور رشتہ نکاح کے تقد س کو پامال کردیاگیا اور نوجوان لڑکو ں اور
لڑکیوں میں آزادی اور بے باکی کو پیدا کیا جارہا ہے۔ معاشرہ کو پراگندہ
کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات،اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے۔ بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے
ذریعہ شرم و حیا،ادب وشرافت کو ختم کرڈالا گیا ہے۔اس کی وجہ سے جو نہایت
شرمناک واقعات رونماں ہورہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور جامعات میں جس قسم کی
بے حیائی بڑھتی جارہی ہے وہ نہایت افسوس ناک ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی تباہیاں:
ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بد امن اور داغ دار
کیا ہے۔ اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے اور رشتوں تعلقات، احترام، انسانیت
تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے،
پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِمحبت کی
علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس
کو منہ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان
بن گیا۔ ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں
میں بیان کیا گیا ہے :
٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام، خاوند کے
ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔
٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا۔
٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔
٭محبت کی ناکامی پر دوبھائیوں نے خود کشی کرلی۔
٭محبت کی ناکامی میں نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا، جسم کے دوٹکڑے۔
٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔
یہ وہ اخباری سرخیا ں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناپر معاشرتی المیہ بنی آئے
روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔
یہ وہ تلخ حقائق اور ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں کی ایک مختصر روداد ہے،جس
سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے عنوان سے پوری دنیا میں کیا تباہی
مچائی جاتی ہے اور کس طرح ایمان و اخلاق سے کھیلاجاتا ہے،معاشرہ کو بے حیا
بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں اس دن کی
کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار
نہیں ہوسکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بدکاری کو
عام کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہ رو کرنے اور
بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ایمانی کو کھرچنے اور حیا واخلاق کے جوہر سے
محروم کردینے کے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں
استعمال کررہی ہیں۔امت ِمسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات
قسم کی چیزوں سے بچنا ضروری ہے اور معاشرہ کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق
وکردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کی بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں
کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے،اور ا س کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ
تعلیمات کو عام کرنے سکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور
نوجوان اپنے افراد واحباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کے
حقیقت اور تباہ کاری سے آگاہ کریں اور ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں
جو کسی بھی اعتبار سے معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا
والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔
محبت اپنے والدین اوربہن بھائیوں سے کرنی چاہیے وہی ہماری سب سے زیادہ محبت
کے حقدار ہیں اس کے بعد اگر کوئی شریک حیات زندگی کا حصہ بنے تو اُسے محبت
سے نوازنا چاہیے ، دوسری طرف اﷲ تعالیٰ اوررسول اﷲ ﷺ سے محبت کے اظہار کے
لئے اسلام کے حقیقی اصولوں کے مطابق زندگی کو گذارنے کی کوشش ہمیں دنیاوی
اورآخری لحاظ سے کامیاب کر سکتی ہے۔
ختم شد۔
|