پاکستان میں اسٹیج ڈرامے حقیقت میں فحاشی ،عریانی اور
جنسی بے راہ روی پھیلارہے ہیں حیرت اور افسوس اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب
ہمارے ٹاپ کے فنکار افتخار ٹھاکر ،آغا ماجد،امانت چن اور ساجن عباس بھی ایک
دوسرے کی ماں کوبہنوں کو نہیں بخشتے ماں تو وہ ہستی ہوتی ہے جو آپ جیسوں کو
دنیا میں لاکر ایک شناخت دیتی ہے ماں وہ ہستی ہے جسکے قدموں کے نیچے جنت
رکھ دی گئی ہے اور ہمارے یہ فنکار اپنی ہر جگت کا آغاز ہی ایک دوسری کی ماں
کو غلط ثابت کرنے سے کرتے ہیں ڈرامے کے دوران ایسی ایسی جگتیں لگاتے ہیں جو
شریف آدمی اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں سن سکتا اسی لیے تو فیملیاں ان
ڈراموں کے نام سے بھی دور بھاگتی ہیں چند دن قبل اپنے ایک سرکاری افسر کے
ساتھ الفلاح تھیٹر میں ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوابے ہودہ ڈانس اور ننگے
جملوں سے خود بھی شرمندہ ہوتا رہا اور دوست بھی ۔بلاشبہ اس بیہودگی کو
پھیلانے میں ہماری آرٹس کونسل ڈپٹی کمشنر آفس اور محکمہ داخلہ کے وہ لوگ
شامل ہیں جو خاموش تماشائی بن کر ان کی سرپرستی کرتے ہیں صوبائی دارالحکومت
لاہور کی اہم شاہراہ پر پنجاب اسمبلی کے بلکل ساتھ ہمارے سینئر فنکار ایک
دوسری کی ماں اور بہنوں کو ہی بازاری عورت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس سے
ہمارے معاشرے میں کیا پیغام جاتا ہوگا شروع شروع میں تو ڈانس کرتے ہوئے
لڑکیاں کپڑے تک اتار دیا کرتی تھیں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی
خواش ہے کہ پنجاب کا کلچر موثر انداز میں واضح کیا جائے مگر اس طرح کی
بیودہ گفتگو کو وہ بھی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہماری ایجنسیاں انہیں ان
ڈراموں کی رپورٹ پیش کرتی ہونگی ۔تھیٹر شروع دن سے ہی تفریح کا زریعہ سمجھا
جاتا ہے اورپچھلے 2500 سالوں میں تھیٹر کی ترقی کونمایاں کرتی ہے اگرچہ
اداکاری کے عناصر ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں لیکن تھیٹر کو بطور آرٹ اور
تفریح کا زریعہ سمجھا جاتا ہے تھیٹر کی تاریخ کا تعلق بنیادی طور پر ایک
خود مختار سرگرمی کے طور پر تھیٹر کی ابتدا اور اس کے بعد کی ترقی سے ہے
چھٹی صدی قبل مسیح میں کلاسیکی ایتھنز کے بعد سے تھیٹر کی متحرک روایات
دنیا بھر کی ثقافتوں میں پروان چڑھی ہیں تھیٹر کا رسم کے ساتھ بھی اہم تعلق
بنتاہے رسم کے ساتھ ابتدائی تھیٹر کی اس مماثلت کی ارسطو نے تصدیق کی ہے
یونانی تھیٹر ایتھنز میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ مغربی روایت کی جڑ ہے
تھیٹر یونانی زبان کا لفظ ہے قدیم یونان کا تھیٹر تین قسم کے ڈراموں پر
مشتمل تھا المیہ، مزاحیہ، اور ڈرامہ۔ ڈرامہ فکشن کا وہ مخصوص انداز ہے جس
کی کارکردگی میں نمائندگی کی جاتی ہے ڈرامہ، اوپیرا، مائم، بیلے وغیرہ
تھیٹر میں، ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر پیش کیا جاتا ہے اورعام طور پر شاعری کی
ایک صنف کے طور پر تصور کیا جاتا ہے اسی طرح ٹریجڈی ڈرامے کی ایک صنف ہے جس
کی بنیاد انسانی مصائب اور بنیادی طور پر ان خوفناک یا افسوسناک واقعات پر
ہوتی ہے جو ایک مرکزی کردار کے ساتھ پیش آتے ہیں جبکہ ڈرامے کا اصل حصہ
کامیڈی اسی حصہ میں فنکار ہنستے ہنساتے وہ پیغام بھی ڈیلیور کردیتا ہے جو
ڈرامے کا اصل مقصد بھی ہوتا ہے کامیڈی ایک تفریح ہے جس میں ایسے لطیفے ہوتے
ہیں جن کا مقصد سامعین کو ہنسانا ہوتا ہے قدیم یونانیوں اور رومیوں کے لیے
اسٹیج ڈرامہ مزاح کا نام تھا جس کا اختتام بھی خوشگوارہوتا تھا رقص ڈرامہ
کی ایک قسم ہے جس نے ڈرامہ میں جدت پیدا کی مغربی تھیٹر نے رومیوں کے دور
میں کافی ترقی اور توسیع کی رومن مورخ لیوی نے لکھا ہے کہ رومیوں نے پہلی
بار چوتھی صدی قبل مسیح میں تھیٹر کا تجربہ کیا قدیم روم کا تھیٹر ایک فروغ
پزیر اور متنوع آرٹ کی شکل تھی جس میں اسٹریٹ تھیٹر، عریاں رقص، اور
ایکروبیٹکس کے تہوار پرفارمنس سے لے کر، پلاؤٹس کی وسیع پیمانے پر دلکش
صورتحال والی مزاحیہ فلموں کے اسٹیج تک، سینیکا کے اعلیٰ طرز، زبانی طور پر
وسیع المیے تک شامل تھے۔ اگرچہ روم میں کارکردگی کی مقامی روایت تھی، لیکن
تیسری صدی قبل مسیح میں رومن ثقافت کی ہیلنائزیشن نے رومن تھیٹر پر گہرا
اور حوصلہ افزا اثر ڈالا اور اسٹیج کے لیے اعلیٰ ترین معیار کے لاطینی ادب
کی ترقی کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ہندوستانی تھیٹر کی ابتدائی شکل سنسکرت
تھیٹر ہی تھی یہ 15ویں صدی قبل مسیح اور پہلی صدی کے درمیان کسی وقت ابھرا
اور پہلی صدی اور 10ویں صدی کے درمیان پھلا پھولا جو ہندوستان کی تاریخ میں
نسبتاً امن کا دور تھا جس کے دوران سینکڑوں ڈرامے لکھے گئے تھے پورے برصغیر
میں گاؤں کے تھیٹر کی حوصلہ افزائی کی گئی جو 15ویں سے 19ویں صدی تک بڑی
تعداد میں علاقائی زبانوں میں ترقی کرتا رہا جدید ہندوستانی تھیٹر 19ویں
صدی کے وسط سے 20ویں صدی کے وسط تک برطانوی سلطنت کے تحت نوآبادیاتی
حکمرانی کے دور میں تیار ہوا رابندر ناتھ ٹیگور ایک جدید ترین ڈرامہ نگار
تھے جنہوں نے قوم پرستی، شناخت، روحانیت اور مادی لالچ کی تلاش اور سوال
کرنے کے لیے مشہور ڈرامے لکھے ان کے ڈرامے بنگالی میں لکھے گئے ہیں اور ان
میں چترا (چترنگاد، 1892)، دی کنگ آف دی ڈارک چیمبر (راجہ، 1910)، ڈاکخانہ
(ڈاکگھر، 1913)، اور ریڈ اولینڈر (رکتکاربی، 1924) شامل ہیں 1855 میں اودھ
کے آخری نواب واجد علی شاہ کے دربار میں آغا حسن امانت کے لکھے گئے ڈرامے
اندر سبھا (اندرا کی آسمانی عدالت) کی کارکردگی کو اردو تھیٹر کا آغاز قرار
دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تھیٹر روایتی اور رسمی فارسی تھیٹر کے ساتھ ساتھ
مغل سلطنت کے کلاسیکی ہندوستانی رقص کے طریقوں سے تیار ہوا ایک اسلامی
ریاست کے طور پر ماضی میں ڈراموں کی تیاری اور تھیٹر پرفارمنس کو مذہبی
وجوہات کی بنا پرفارمنگ آرٹ کو ترقی اور پنپنے کا موقع نہیں ملا اور جب
موقعہ ملا تو پھر ہم نے اپنے مشرق وسطیٰ کے پڑوسیوں کی طرح پرفارمنگ آرٹس
کو معاف نہیں کیا خواتین کے جسم کو بے دردی سے دکھایا گیا تھیٹر گروپس نے
ایسے کھیل پیش کیے جن میں انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ قوم پرستی، مذہب اور
جنس کے متعصبانہ تصورات کو بھی دکھایا اور چیلنج کیا گیا پاکستانی ادب کی
الگ آواز 1947 میں تقسیم ہند کے فوراً بعد سامنے آئی چونکہ بہت سی ثقافتی
مماثلتیں تھیں اس لیے اردو اور انگریزی ادب اس نئی ریاست کو وراثت میں ملا
تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر صوبے میں ایک ایسا ادب ابھرا جو کسی حد تک
منفرد پاکستانی تھا ابتدائی طور پر یہ ڈرامے تحریک پاکستان اور ہندوؤں اور
سکھوں کی طرف سے آزادی کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور مسلم
دشمنی کے بارے میں تھے جو بتدریج 1960 کی دہائی میں تبدیل ہونا شروع ہوا
اور موجودہ رجحان خاص طور پر پاکستانیوں کی طرف سے بہت سی مختلف انواع میں
پیش رفت ہے منٹو 20ویں صدی کے سب سے زیادہ بااثر اردو ادیب ہیں وہ سب سے
زیادہ متنازعہ بھی تھے منٹو کا ڈی ایچ لارنس کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے یہ
موازنہ اس لیے بھی ہے کہ لارنس کی طرح اس نے بھی اپنے معاشرے کے سماجی
ممنوع سمجھے جانے والے موضوعات کے بارے میں لکھا محبت، جنس، بدکاری، عصمت
فروشی اور روایتی جنوبی ایشیائی مرد کی مخصوص منافقت کے متنازعہ موضوعات کے
بارے میں کافی غصے کوبھی جنم دیا قدامت پسند حلقوں میں عام شکایت یہ ہے کہ
کمرشل تھیٹر فحش مکالموں اور رقص پر پروان چڑھتا ہے اور پنجاب حکومت کی طرف
سے کم از کم تین محکموں کو کمرشل تھیٹر کی سرگرمیوں کی نگرانی کا کام سونپا
گیا ہے پنجاب آرٹس کونسل جو کہ سکرپٹ کی جانچ کی ذمہ دار ہے ضلعی انتظامیہ
جو ڈراموں کی نمائش کی نگرانی کے مجاز ہیں اورمحکمہ داخلہ جو پروڈیوسروں،
ہدایت کاروں، فنکاروں اور تھیٹر مالکان کے خلاف کارروائی کرتا ہے ۔ لاہور
میں کمرشل تھیٹر کی آمد 1980 کی دہائی کے اوائل میں ہوئی ناہید خانم، امان
اﷲ، مستانہ اور ببو برال کی مشترکہ کاوشوں سے فن میں جاندار مکالمے اور
اختراعی انداز شہریوں کے لیے تازہ ہوا کی سانس کی مانند تھا ان ڈراموں کے
اسٹیج کا ابتدائی مقام الحمرا تھا لیکن-82 1981 میں الحمرا کے بند ہونے کے
بعد متبادل مقام تلاش کرنا پڑا ہر اسکرپٹ کو پنجاب آرٹس کونسل (پی اے سی)
کو کلیئر کرتا ہے شروع شروع میں لاہور میں پانچ نجی تماثیل، محفل، ناز، تاج
اور الفلاح سمیت ایک سرکاری تھیٹر الحمرا تھاجنکی تعداد اب بڑھ چکی ہے جہاں
اب تفریح کی بجائے جنسی تسکین کا سامان مہیا کیا جاتا ہے گوجرانوالہ، فیصل
آباد، ملتان،ساہیوال اور بہاولپور میں میں بھی گھٹیا، فحش اور بے ہودہ
اسٹیج ڈراموں سے شہریوں کا دھڑن تختہ ہورہا ہے لاہور میں زیادہ تر سامعین
جنہیں اب تماشبین بھی کہا جاتا ہے دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ جمعرات، جمعہ
اور ہفتہ کو تھیٹر کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں ایک اسٹیج ڈرامہ تقریباً 20 لاکھ
روپے تک کماتا ہے ٹکٹ کی قیمت ایک ہزار روپے سے لیکر 6ہزار روپے تک ہوتی ہے
اب ان ڈراموں میں نہ کوئی پیغام ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سبق صرف لوگ آتے
ہیں توسستی جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ایسے پرڈیوسرز ،رائٹرز
اور ہدایت کاروں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ تھیٹر کوبھی
بند کردینا چاہیے کیونکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لیکر جارہے
ہیں
|