کشمیر کو سیاستدان نہیں لیڈر کی ضرورت

کارگل کے محاذ پر37000بھارتی فوجیوں کوچھوڑاگیاوہی ٹرننگ پوائنٹ تھاجوہماری سیاست کی نظرہوگیاورنہ آج کشمیرآزادہوچکاہوتا۔ عمران خان نے کہا کہ جنگ کسی مسئلہ کاحل نہیں میں خان صاحب اگرکارگل میں ہم نے بھارت کے 37ہزارفوجی چھوڑے تووہ جنگ ہی تھی جب ہمیں کشمیرحاصل کرلیناچاہیے تھا مگرہمارے سیاستدان بھی اس وقت اپنی سیاست کھیل کراس مسئلہ کوپھرSKIPکردیاتواسی لیے کشمیراگرآزادہوگاتونہ مذاکرات سے نہ ہی مذمت سے بلکہ بھارت کی مرمت سے ہوگاورنہ ہمیشہ سیاستدانوں کی نظرہوتارہے گا۔جب بھی کشمیرکی بات ہوتی ہے تودل دہل ساجاتا ہے کہ وہ لوگ کیسے ظلم وستم برداشت کرتے آرہے ہیں ان کی عزتیں پامال ہورہی ہیں نہ کھل کے کھاپی سکتے ہیں اورنہ ہی عبادت کرسکتے ہیں مگرجیساکہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے تومودی سرکارکومنہ کی کھانی پڑی کیونکہ 70سال بعداقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیرکامقدمہ سناجاناکوئی معمولی بات نہیں لیکن ابھی تک اس مقدمہ کا نتیجہ آنے میں دیر ہے میں اب جنگ ہوگی یاکشمیرآزاد اس کا فیصلہ اکیلانہ پاکستان کرسکتاہے اورنہ ہی بھارت اس کا فیصلہ اقوام عالم کوکرناہوگابھارتے کے کھلے دعوؤں کوتوایسے لگتاہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کے منہ پرتمانچہ ماراہے کیونکہ اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائیٹ پراجلاس کے متعلق بیان ہے کہ کشمیرکامسئلہ 1965کے بعدپہلی بار زیربحث آیا ہے جویواین چارٹراورسلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہوگا۔ بھارت نے ایک بل370اور35Aپیش کیاتھا جس کی منسوخی سے بھارتی عام شہری ،بھارتی کارپوریشنزاوردیگرنجی سرکاری کمپنیاں جائیداد نہیں خریدسکتیں نہ بلاقانونی جواز کے جائیدادحاصل کرسکتی تھی جس کی وجہ سے اراضی پرقبضہ اوراکثریت کواقلیت میں بدلنے کاخدشہ کسی قدرکم تھامگر5اگست2019کو اس آئین کاقتل کرکے اس شق کوختم کرکے کشمیرکی خصوصی حیثیت الگ پرچم اورآئین کااختیارغصب کیاگیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی شہری کشمیری شہریت اور جائیدادیں بناکرآسانی سے کشمیرپرقبضہ کرسکتے ہیں یہ بات بھی خوشی سے کم نہیں کہ پاکستانیوں کی کشمیریوں سے محبت کی وجہ سے کشمیرآج پھر سے دنیا میں سب سے زیادہ زیربحث ایشوبن چکا ہے سلامتی کونسل کے اجلاس میں مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کومنہ کی کھانی پڑی ۔آزادی کشمیرکی آواز کودبنے نہیں دیناکیونکہ جب 5اگست کومقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کواپنے آئین سے ختم کیاتوپاکستان نے آوازاٹھائی توبھارت نے کہاکہ یہ بھارت کااندرونی معاملہ ہے جس پرپاکستان اقوام متحدہ کے پاس گیاجس اجلاس میں بھارت کوواضع بتایا گیا کہ کشمیربھارت کااندرونی معاملہ نہیں ہے ۔کچھ دن قبل ہندوستانی فنکار کے مرنے کی خبر سنی , ہر ایک نے اپنے انداز میں افسوس کا اظہار کیا , کسی نے اس کے لیے دعا کی اور کسی نے پاکستانی عوام کو تنقید کیا کہ یہ مردہ قوم ہے۔ جو ایک ہندو کے مرنے پر تو غم و غصّے کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جو کشمیری روزانہ بے گناہ مار دیے جاتے ہیں۔ ان کہ بارے میں تذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔کیا یہ سچ ہے ؟؟؟ سب سے پہلے ہم کشمیر کے مسئلے پر نظر ثانی کریں تو اس بات کا علم ہوتا ہے , کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی کشمیر کو حاصل کرنے کی جدو جہد جاری رہی اور آج تک کشمیر ڈے منایا جاتا ہے۔ کتنی حکومتیں آئی اور گئی سب نے ہی کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین 1965 کی جنگ دونوں ممالک کے مابین ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق دوسرا تنازعہ تھا۔ جب 1947 میں ہندوستان کی برطانوی کالونی نے اپنی آزادی حاصل کی ، تو اسے دو الگ الگ خطوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ہندوستان کی سیکولر قوم اور پاکستان کی اکثریتی مسلم قوم پاکستان جو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا۔ ریاست جموں و کشمیر ، جس کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے لیکن ایک ہندو رہنما نے ہندوستان اور مغربی پاکستان دونوں کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ں رکھی۔ جس کی وجہ سے 48ء1947 میں پہلی ہندوستان پاکستان جنگ ہوئی اور اقوام متحدہ کی ثالثی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ جموں و کشمیر ، جسے "ہندوستانی کشمیر" یا محض "کشمیر" بھی کہا جاتا ہے ، اس نے جمہوریہ ہند میں شمولیت اختیار کی ، لیکن پاکستانی حکومت یہ مانتی رہی کہ اکثریت والی مسلم ریاست کا حق پاکستان سے ہے۔اور آج تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا گیا ایسی کیا وجہ ہے دنیا اتنی ترقی کر گئی اور دوسری طرف ایک زمین کے ٹکڑے کو آزاد نہیں کیا جا رہا وہاں کے لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہو رہا ہے۔ ہماری پوری قوم سو رہی ہے ؟؟؟؟ اسکے علاوہ ہم دوسرے ملکی مسائل کی طرف دیکھیں یا قوم کی بیداری کا موازنہ کریں ترقی یافتہ ممالک سے تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہو گا کہ ہماری قوم کتنے پیچھے ہے۔ہم حالیہ دنوں میں بہت کچھ برداشت کر چکے ہیں اور اب بھی دوچار ہیں ... ، لیکن ہم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔کیا ہم اپنی حالت کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ ... کوئی بھی ادارہ کام نہیں کررہا ہے ، پھر بھی ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کررہے ہیں . ہم گھر میں بجلی ، گیس اور پانی کے بحرانوں ، اور دوسرے معاشرتی مسائل کے بارے میں ماتم کرتے ہیں لیکن یہ محض کہنے کی بات ہے . چند لوگ یہاں اور وہاں جمع ہیں لیکن کوئی حقیقی کوشش نہیں .جب میں نے وقت کے ساتھ پیچھے دیکھا تو ، میرے خیالات ہمارے لوگوں کے ظالمانہ رویوں اور ظالمانہ کارروائیوں کی طرف گئے ، انہوں نے انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ میرے ذہن میں صرف اتنا ہی سوال آیا کہ "کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں"۔ یہاں میں ان میں سے کچھ واقعات کی یاد دلانا چاہوں گی جو آج تک نہیں مجھے نہیں بھولے. ہمارا تعلیم یافتہ معاشرہ انصاف خود دیتا پھرتا ہے۔ کچھ عرصے قبل میں نے ایک خبر سنی تھی کہ ایم اے.جناح روڈ پر 2 نوجوان لڑکوں کو کہیں زندہ جلایا گیا ہے۔ افواہ یہ تھی کہ جلائے گئے لڑکے چور تھے کہ انہیں دوکانداروں کے ہاتھوں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ، لہذا انہوں نے انہیں زندہ جلایا۔ انصاف خود لوگوں نے کیا۔جبکہ کچھ دنوں بعد خبر اسی لڑکے کے متعلق چلی لیکن وہ پچھلی خبر کے بالکل برعکس تھی۔ وہ لڑکے میں سے کسی لڑکی کے ساتھ اس میں شامل تھا ، وہ اپنے دوست کے ساتھ اس سے ملنے گیا تھا ، اس وجہ سے لڑکی کے رشتہ داروں نے اسے پکڑ لیا اور زندہ جلا دیا۔ قوم کے نام نہاد محافظ , عدالتیں اور قانون ہونے کے باوجودجود ان پر کوئی رحم نہیں کیا گیا۔زینب کیس ... اور ایسے کتنے ہی معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے انہیں مار کر پھینک دیا جاتا…… کہاں ہے ہمارا عدالتی نظام…… کہا ہیں ہمارے وہ پڑھے لکھے لوگ جو سیاسی بحث تو کرنا پسند کرتے ہیں لیکن معاشرتی مسائل پر بات نہیں کرتے۔ ہمارے سیاستدان آتے ہیں بڑے بڑے دعوے لے کر لیکن اپنے وعدے اپنی باتوں پر قائم نہیں رہتے۔ آخر کیا وجوہات ہیں؟؟ کیا ہمارا آئین ہماری عوامی روایات و اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟؟ کیوں ہمارے آئینی نظام میں اتنا فرق پایا جاتا ہے مغربی ممالک سے جبکہ ہم ابھی تک انہی کا دیا ہوا نظام چلا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمتِ عملی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جیسے کہ ہمارے حکمران جمہوریت کہ نعرے لگاتے پھرتے ہیں, لیکن اپنی ہی پارٹی کو جمہوری نظام پر چلنا بھول جاتے ہیں۔ اور ہم ایسی قوم ہیں جو ہر بات کا علم رکھنے کے باوجود بھی کرپٹ لوگوں کو آگے لاتے ہیں کیا ہم عقل و شعور سے ماورا قوم ہیں یا ہم ایک مردہ قوم ہیں؟ ہمیں اس نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ہمیں پہلے خود کو جاگنا ہو گا۔ ہمیں خود کو ایسے ہی جھنجوڑنا ہو گا۔جیسے کئی سو سال پہلے محترم قائد اعظم محمد علی جناح رح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح نے مسلم قوم کو جگایا۔مگراس کے باوجود بھی کشمیری عوام لیڈرکی تلاش میں ہیں اوراس بات کوکوئی نہیں جھٹلاسکتاجب تک قائداعظم جیسالیڈرنہیں ملے گاتب تک کشمیرآزادنہیں ہوگااس لیے میں کہتی ہوں کشمیرکو سیاستدان نہیں لیڈرکی ضرورت ہے۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 25103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.