پلجرازم کے خلاف ڈٹ کے کھڑے نوجوان کو انصاف کب ملے گا؟

پاکستان میں جہاں بہت سارے المیے ھیں وھاں کسی کی ریسرچ اور انٹیلکچول پراپرٹی کا محفوظ نہ ھونا بہت بڑا المیہ بن چکا ھے۔ایسی ھی ایک کہانی ھمارے علاقے سے کچھ یوں جنم ھوئی کہ نومبر 2019 میں ڈاکٹر سلیمان طاھر کی خواجہ فرید یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر تعیناتی کر دی گئی۔جب کہ یہ راز بعدمیں کھلا کہ موصوف پروفیسری کے عہدے کے لیے بھی نا اہل ہونے کے باوجود دیمک زدہ نظام کے کافی منجھے ہوئے کھلاڑی بہر حال ہیں کہ جامعہ کا تدریسی وغیر تدریسی عملہ سلیمان طاہر کے ابتدائی بیانیوں سے ہی حیران اور ششدر رہ گیاکہ وہ ہر اْس شخص کے درپے ہو گئے جسے سابق وائس چانسلر کے لئے کلمہ خیر کہتے ہوئے پایا گیا بہت جلدکئی تجربہ کار اساتذہ اور افسران کو حیلے بہانوں سے غیر قانونی طور پر سبکدوش کر دیاگیا۔ جن لوگوں نے ذرا مزاحمت دکھائی اْن کے خلاف جھوٹی انکوائری شروع کرا دی۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ وضاحت ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز کے بوسیدہ نظام کے تاریک پہلوؤں میں سے یہ بات عام ہے کہ کرپٹ آفیسر ایماندار ماتحت عملے سے خوف کے پیشِ نظر جھوٹی انکوائری کو ایک کار آمد حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جامعہ کے سینکڑوں تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین کو یا تو نہایت توہین آمیز طریقے سے چلتا کیا گیا یا پھر اْن کی خوب پگڑی اْچھالی گئی۔پھر انہوں نے اپنے ایک شاگرد کا تھیسزز چوری کرکے انٹرنیشنل جریدے" فیول"میں چھپوا دیا جس نے بعد میں اس چوری کو سائنس کی دنیا میں گالی قرار دیکر اس کی تردید بھی چھاپ دی۔اسی طرح

یہ بات زبان زدعام ہے کہ جامعہ مذکوربالا میں ڈاکٹر فرخ منصور جنجوعہ عجیب شہر ت کے حامل اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اْن کو مکمل آشیر باد دی گئی کہ وہ اپنے سٹوڈنٹ تک کو جامعہ کے اساتذہ کے خلاف جھوٹی FIR درج کروانے میں استعمال کرتے رھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ وی سی کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں کہ جب چاہے کسی بھی بے گناہ کی شامت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اب ہوایو ں کہ موصوف سنڈیکیٹ میں ضد کر بیٹھے کہ جناب سابقہ انتظامیہ کرپٹ تھی لہذٰا تحقیقات کی جائیں، یہاں سنڈیکیٹ کی حیرانگی اپنی جگہ جائز تھی کہ ایسی شاندار کار کردگی کی حامل سابقہ انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا کیوں کہا جا رہا ہے۔ جبکہ درجنوں مقدمات لاہور ہائیکورٹ اور سول کورٹ رحیم یار خان میں موصوف کی آمد کی وجہ سے درج ہو گئے ہیں۔ المختصر سنڈیکیٹ نے ایک ہائی پاور کمیٹی بنا دی تا کہ حقائق معلوم کرے اور لگے ہاتھوں موجودہ وی سی کی بے قاعدگیوں کی جانچ پڑتال بھی کر لی جائے۔ جیسا کے کہا جاتا ہے کہ
ع لوآ پ اپنے دام میں صیاد آگیا

سابقہ انتظامیہ کا کیا کہیے کے اْن کے بیر اور مخالفت میں تو یہ کمیٹی بنائی ہی گئی تھی، کمیٹی نے موجودہ وی سی سلیمان طاہر کی من مانی، لا قانونیت، بے قاعدگی، ظلم اور دھوکہ دہی کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے کچھ نکات بطور مشت از خروارے پیش خدمت ہیں۔ جہاں کمیٹی نے جامعہ کے موجودہ وی سی کی گوشمالی کی ضرورت پر زور دیا ہے وہیں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہائی پاور کمیٹی نے جامعہ کے ملازمین کی شکایات سننے کے لئے ایک ذیلی کمیٹی جامعہ مذکور میں بھیجی،موجودہ انتظامیہ کے حراساں کرنے کے باوجود سینکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین اپنی بپتا سنانے کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ہائی پاور کمیٹی نے واشگاف یہ بات بتکرار کہی ہے کہ سلیمان طاہر نے خوب من مانی کی ہے، قواعد کی دھجیاں اڑائی ہیں، جامعہ کے ملازمین کے کنٹریکٹ غیر قانونی طریقے سے ختم کیے اور اْن پربے بنیاد الزامت لگائے ہیں اور اِس پر مستزاد یہ کہ اْن کی تنخواہیں سنڈیکیٹ کے واضح احکامات کے باوجود یکطرفہ ظلماً کم کر دی گئی ہیں۔ جس سے کئی قابل لوگ خود ھی یونیورسٹی چھوڑ گئے۔باعث دلچسپی امر یہ ہے کہ ہائی پاور کمیٹی ڈاکٹر سلیمان طاہر کے اصرار پر بنائی گئی جس میں موصوف نے اپنی کی گئی بے قاعدگیوں کا جا بجا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ رپور ٹ کا ہوش ربا پہلو یہ بھی ہے کہ جب کمیٹی ارکان نے سلیمان طاہر، سابق رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر محمد اصغر ہاشمی اور ڈپٹی رجسٹرار ظہور الہی سے بجٹ 2019-20 کامیزانیہ اور جمع خرچ کا حساب طلب کیا تو بار بار اصرار کے باوجود یہ دستاویزات انہیں فراہم نہیں کی گئیں۔اور یہاں کمیٹی بھی دادکی مستحق ہے کہ انہوں نے دستاویزات کی عدم فراہمی کے بابت ذمہ داروں کے خلاف کوئی سزا تجویز نہ کی بلکہ موصوف کی کرپشن کی جانچ کے لئے ایک مزید انکوائری کو لازمی قرار دیا۔سوال یہ ہے کہ موصوف نے اگر نئی کمیٹی کو بھی دستاویزات فراہم نہ کیں تو پھر کیا کیجئے گا؟ کو ئی ہے مائی کا لال جو موصوف کی کرپشن اور لاقانونیت کی تلاشی لے سکے؟جبکہ حال یہ ہو کہ جب ہائی پاور کمیٹی نے موصوف کو سوال نامہ پیش کیا تو انہوں نے کئی اہم سوالات کے جوابات دینے سے ہی انکار کر دیا ماشااﷲ!

موصوف نے ہائی پاور کمیٹی میں ایک عدد جھوٹا بیان حلفی بھی داخل کرایا کہ اْن کے دور میں جامعہ میں کو ئی تعیناتی نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ جھوٹ کی قلعی کمیٹی پر اْس وقت کھلی جب کمیٹی نے ساتویں سنڈیکیٹ کے Minutesدیکھے۔ کمیٹی نے بجا طور پر یہ قرار دیا کہ جتنے بھی ملازمین کو موصوف کے دور میں نکالا گیاوہ برطرفیاں ناجائز تھیں۔ جبکہ اِن بر طرف ملازمین کا

ریگولرائز ہونے کا جا ئزقانونی حق تھا۔اِسی تناظر میں معاصر اخبارات صبح شام لکھ رہے ہیں کہ موجودہ وی سی نے غیر قانونی بر طرف ملازمین کی جگہ اپنے قریبی رشتہ دار، منظور نظر اور شریک جْر م لوگوں کوتعینات کر لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وی سی کو جس نے غیر قانونی طور پر ایک رشتہ دار کو جامعہ کا Resident Auditor لگوایا ہو جسے بد قسمتی سے جامعہ کی سنڈیکیٹ بھی نہ روک سکی ہو سے ایمانداری کی آس کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک جھوٹا شخص اتنے بڑے اور معتبر عہدے پر رہنے کا حقدار ہے؟ ایک ایسا رئیس الجامعہ جس نے ہا ئی پاور کمیٹی کو 2019-20کا میزانیہ اور اخراجات کی تفصیل تک دینے سے انکار کر دیا ہو نجانے اْس کی بد انتظامی کی کْوکھ میں کتنا بڑا مالی و انتظامی اسکینڈل پنپ رہا ہے اور ہماری اعلیٰ انتظامیہ شاید حسبِ روایت اْس وقت ہی خوابِ گراں سے بیدار ہوگی جب چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔معاصر میں چھپنے والی ایک تازہ خبر کچھ یوں ھے"دس لاکھ گرانٹ کا بھی لحاظ نہ کیا۔وی سی خواجہ فرید یونیورسٹی پلجرازم کارروائی رکوانے کے لئے متحرک۔ایچ ای سی بھی متحرک تفصیل کے مطابق سلیمان طاھر فیصل آبادی جسے وی سی خواجہ فرید یونیورسٹی کی بربادی کے نام سے بھی جانا جاتا ھے کے اپنے شاگرد کے تھیسز کی چوری کے الزام کی انکوائری آخری مراحل میں داخل ھوچکی ھے۔ایچ ای سی ذرائع کے مطابق وی سی خواجہ فرید یونیورسٹی پر اگرچہ اور بھی کئی الزامات ھیں۔جیسے شاگردوں اور دوستوں رشتے داروں کو نوازنا.غیرقانونی طور پر نوکریوں سے نکالنا وغیرہ مگر ان کے خلاف پلجرازم کی کارروائی کسی وقت بھی شروع ھوسکتی ھے کیونکہ باقی الزامات سے تو معافی مل سکتی ھے مگر پلجرازم کی معافی ھر گز نہیں۔ذرائع کے مطابق ایچ ای سی نے دس لاکھ گرانٹ جاری کرتے وقت یہ شرط بھی رکھی تھی کہ اگر پلجرازم ھوئی تو نہ صرف طالب علم بلکہ سرپرست یا سپروائزر کے خلاف بھی کارروائی ھوگی۔مگر خطے کے طلباء ابھی تک کارروائی کے منتظر ھیں"اب پتا چلا ھے کہ سلیمان طاھر نے اپنے مدعی شاگرد کے خلاف کئی حربے آزمائے ھیں۔مقدمات میں پھنسانے کی بھی کوشش کی ھے مگر آسٹریلیا میں زیرتعلیم نوجوان انصاف کے لئے ڈٹ کے کھڑا ھے۔اب دیکھنا یہ ھے کہ نہ گبھرانے والے اس نوجوان کو موجودہ حکومت اور ایچ ای سی کب انصاف دیتی ھے؟اگر اس نوجوان کو انصاف مل گیا تو پاکستان کے ریسرچر اور لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ھوگی۔اس سے انٹیلکچول پراپرٹی کے تحفظ کی داغ بیل بھی ڈل جائیگی۔اس سلسلے میں گورنر پنجاب چوہدر ی محمد سروروچانسلر جا معہ ہٰذا، وزیر اعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم سے اور ایچ ای سی سے پْر زور گزارش ہے کہ جامعہ کے معاملات میں بروقت ضروری اقدامات لیں تاکہ جامعہ شکست و ریخت اور اس کے منطقی انجام یعنی مکمل تباہی و بربادی کے ساتھ ساتھ چور وی سی کی مزید سینہ زوری سے بچ سکے۔
 

Razish Liaquat Puri
About the Author: Razish Liaquat Puri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.