اماں جی


اماں جی

(والدہ صاحبہ کی محبت اورزندگی کے حاصل اسباق کے حوالے سے تحریر)

ازقلم: ذوالفقار علی بخاری

میں آج جس مقام پر ہوں،اس میں میری والدہ کا کردار بے حد اہم ہے۔انہوں نے مجھے شروع سے ہی حوصلہ دیا ہے تاکہ میں وہ سب کچھ کر سکوں جس کا خواب دیکھتا ہوں۔ہر انسان کی کامیابی میں کچھ افراد کا اہم کردار ہوتا ہے اور میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی میں میری والدہ نے کامیابی کے حصول کے لئے بھرپور رہنمائی دی ہے۔اگر ان کی حوصلہ افزائی مجھے حاصل نہ ہوتی تو شاید آج ادب اطفال میں یوں دلیری کے ساتھ خود کو نہ منوا رہا ہوتا، بچوں کو والدین کی بھرپور پذیرائی ملے تو وہ بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں اوریہی ان کے آپس کے تعلقات کو بھی خوشگوار رکھتے ہیں۔

میری والدہ کی شادی اگرچہ کم عمری میں ہی ہو گئی تھی مگر میری پیدائش کے بعد سے لے کر آج تک وہ نا مساعد حالات میں بھی کبھی مایوس نہیں ہوئی ہیں۔ان کی یہ عادت ایسی ہے جو کہ بہت سے معاملات میں انسان کو پریشان ہونے سے بچاتی ہے۔وہ چونکہ خود اللہ میاں پر بے انتہا یقین رکھتی ہیں تو میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے دیکھا ہے کہ انہوں نے یہی کہا ہے کہ یہ ”مشکل“ ٹل جائے گی،سب ٹھیک ہو جائے گا،صبر کے ساتھ کچھ وقت گذار لو۔

میرے والدظہور احمد مرحوم اگرچہ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے مگر وہ کہیں ”ٹک“ کررہنے کے عادی نہیں تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے آپ پر بہت یقین رکھتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ جہاں سے بھی وکالت شروع کریں گے،اُن کو کامیابی حاصل ہوگی۔وہ اپنی جگہ پر درست بھی ثابت ہو جاتے تھے مگر میری والدہ کے مشورے پر اکثر اس تبدیلی سے رکتے بھی نہیں تھے،دل چسپ بات یہ ہے کہ ہر نئی جگہ میں انہوں نے شروع کے دنوں میں مسائل کا ہی سامنا کیا تھا
۔انہی دنوں میں والدہ کو بھی پریشانی ہوتی تھی کہ وہ مشکل میں پڑجاتی تھیں کہ نئے شہر میں رہنا کچھ آسان نہیں ہوتا ہے۔اس حوالے سے وہ لوگ بہتر طور پر جان سکتے ہیں جو کہ تبادلے کی وجہ سے مختلف شہروں میں نوکری کرتے رہتے ہیں۔میری اماں کی باتوں کو وہ اکثر تب ہی مانا کرتے تھے جب وقت گذر چکا ہوتا تھا۔

یہاں یہ بات ضرور کہوں گا کہ میری اماں جی نے حالات کی تنگی کے باوجود بھی اپنے شوہر کا ساتھ دیا تھا اور انہوں نے بچوں کی تربیت کو پوری توجہ سے سرانجام دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب نے اپنے خواہش اور مرضی سے اُتنا پڑھ لیا ہے جتنا ہم اپنے لئے بہتر سمجھتے تھے۔اگرچہ ہماری والدہ نے خاطر خواہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ علم کی طاقت سے بخوبی واقف ہیں۔انہوں نے اپنی بیٹی کو بھی بھرپور تعلیم دلوانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔یہ بات بڑی اہمیت کی حامل اس وجہ سے ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیوں کو بہت کم ہی اعلی تعلیم دلوائی جاتی ہے۔اُن کے اس عمل کی وجہ سے ہی آج کئی بچیاں تعلیم حاصل کرنے کی جانب مائل ہو چکی ہیں، یعنی کہا جا سکتا ہے کہ اگر گھر کے بزرگ اچھا فیصلہ کریں تو ان کے بچوں کی زندگیاں خوشگوار اورکامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔

اماں جی نے ہمیں سچ بولنے اور کسی کے ساتھ غلط کرنے سے ہمیشہ ہی روکا ہے۔اُن کی یہ تربیت ہمار ے بہت کام آئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے جس طرح سے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ خواتین کسی بھی طور مردوں سے کم نہیں ہوتی ہیں۔

میری اماں جی کے سولہ بہن بھائی تھے،ایک بڑا کنبہ ہو تو بے حد مسائل کا سامنا ہوتا ہے، لڑائی جھگڑے بھی بہن بھائیوں میں ہوتے ہیں مگر والدہ صاحبہ چونکہ بے حد معصوم مزاج اور سادہ سی تھیں تو انہوں نے کسی بہن یا بھائی کے ساتھ کبھی نہیں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اماں جی نے سب کے ساتھ بنا کر رکھی ہے اور آپ یہ سب تو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جو شخص آج کے دور میں سب کے ساتھ بنا کر رکھتا ہے تووہ یہ صلاحیت بخوبی رکھتا ہے کہ وہ سب کی باتوں کو سن کر نظر انداز کرے اور برداشت کرتے ہوئے اچھے تعلقات کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرے۔یہ بات واضح ہے کہ جب تک عدم برداشت ہوگا تب تک انسان کبھی بھی کچھ نہ تو سیکھ پائے گا اور نہ ہی اُس کے تعلقات اچھے قائم ہو سکیں گے۔

اگرچہ انسانوں کے دوست اور دشمن ہمیشہ سے رہتے ہیں مگر یہ وہ عمل ہے جس کی وجہ سے میری اماں جی سے خوب دوستی ہے کہ وہ ہمیں ہر وہ بات بتاتی ہیں جس سے ہمیں فائدہ ہونا ہوتا ہے۔اُن کی تقلید کرنے سے آج تک مجھے کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے کہ تجربہ انسان کو نقصان سے بچاتا ہے۔جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تھا تو وہ بہاولپور میں تھیں مگر مجھے غم کی اُس گھڑی میں بہت پرسکون رہ کر انہوں نے حوصلہ دیا تھا، وہ بات لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی ہے۔

مجھے اپنے والد صاحب کے جانے پر یہ احساس ہوا ہے کہ باپ کا سہار ا کیا شے ہوتی ہے مگر اُسی دن یہ بھی احساس ہوا تھا کہ ماں کتنی عظیم ہوتی ہے۔میر ی والدہ نے اپنی خواہش کے تابع بہت کچھ کبھی مجھ سے نہیں کہا ہے،اگرچہ کئی بار میری وجہ سے اُن کو بے حد تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر انہوں نے بیٹے کی خوشی کی خاطر کبھی لب کشائی نہیں کی، مگر میں نے محسوس کی ہے۔اماں جی نے کبھی دل میں بات نہیں رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے،میں نے ہمیشہ وہی کہا ہے جو کہ میرے دل میں ہوتا ہے،اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر میں اپنے سامنے جب اماں کی ذات رکھتا ہوں تو میں بہادری سے بہت کچھ سہہ بھی لیتا ہوں اور پایہ تکمیل تک پہنچا بھی لیتا ہوں۔ماں کے قدموں تلے جنت ہے،ماں کی آغوش انسان کو بے پناہ سکھ دیتی ہے، اس لئے اپنی والدہ کو اپنی جان سے عزیز تر رکھیں۔آپ کچھ بھی کریں مگر اپنی اماں کے ساتھ خوشگوار رویہ رکھیں۔آپ کو ماں سب کچھ دیتی ہے، آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ماں کا نعم البدل کوئی نہیں ہے،تو تھوڑا ساتھ وقت گذار یں اورخوب خدمت کریں۔
۔ختم شد۔
بشکریہ روزنامہ شہباز، پشاور۔۔۔۔یکم مارچ٢٠٢٢
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 478891 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More