دہکتا کراچی، قومی بیداری کا مطالبہ

کافی دنوں سے دل بہت اداس ہے نہ ہی میرے خیالات الفاظ قلم کا ساتھ دے رہے بلکہ ملکی صورت حال نے بھی بہت رنجیدہ کر دیا۔ پہلے ڈرونز حملے اور اب کراچی روشنیوں کا شہر کس مقام پر آ ن پہنچا ہے آئے دن ٹارگٹ کلنگ ہزاروں معصوم جانیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ یہ معاملہ لسانی نہیں بلکہ شخصی اور سیاسی رنگ پکڑ چکا ہے آج کا یہ کالم کراچی کی موجودہ صورت حال پر قارئین کی نظر کیا جاتا ہے کیونکہ عوام کی عدالت میں ہمیشہ انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔

اس وقت کراچی کی معیشت دم توڑ چکی ہے اور ہمارے پورے ملک کی معیشت کا دارومدار کراچی پر ہوتا ہے ۔ نہ جانے کس کی نظر لگی کہ آج ہمیں اس گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے۔ مائیں صبح اپنے جگر گوشوں، بیویاں اپنے سہاگ کو اور بہنیں اپنے بھائیوں کو کس امید کے ساتھ رخصت کرتی ہیں اور دن کے آٹھ گھنٹے گزرنے کے بعد یہ سہاگ اجڑ جاتے ہیں مائیں اپنے چاند کھو دیتی ہیں اور بہنیں اپنی عزت کے محافظوں سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ گھر کی ساری رنگینیاں، خوشیاں اور امیدیں تاریکیوں کی نظر ہو جاتی ہیں اچانک بے گناہوں کا اس طرح خون رنگ ہونے پر یقین ہی نہیں ہوتا یہ مائیں بہنیں اور بیویاں اپنے گھر کی دہلیز پر دیوانوں کی طرح ان کا انتظار کرتی نظر آتی ہیں ابھی آئے گا دفتر ٹائم ختم ہو گیا، میرا چاند آنے والا ہے سکول کی چھٹی ہو گئی ، میرا بھائی آئے گا اور میں ان کی خدمت کروں گی کی صدائیں سن کر یوں لگتا ہے جیسے بہار کا موسم چند ہی لمحوں میں شروع ہونے والا ہے مگر ان کو کیسے سمجھائیں کہ خزاں آگئی اور اب وہ کبھی نہیں لوٹیں گے خدا قسم ایسے بیگناہوں کے قتل پر پولیس کی ناکامی اور رینجرز کی خاموشی دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں مگر اپنے ارباب اختیار کے کیا کہنے ان کا حال میں چند روز قبل اسلام آباد قومی ادارہ کے سامنے NCHD کے دھرنے میں دیکھ چکا ہوں سترہ ہزار ملازمین کو بر طرف کر دیا گیا اور وہ سات دن تک اسمبلی ہال کے سامنے اپنی قسمت کا ماتم کرتے رہے مگر غفلت کی نیند کے مزے لوٹنے والوں نے ان کی خبر تک نہ لی۔ اور میرے ملک کے آقاﺅں نے اس سال کے شروع میں اعلان کیا کہ یہ تعلیم کا سال ہوگا اور ثابت کر دیا NEF اور NCHD جیسے علم کی شمع کو روشن کرتے ہوئے اداروں کو تحلیل کر کے بہر حال معذرت کے ساتھ میرا قلم اپنے نقطہ سے دوری اختیار کر رہا ہے لیکن کیا کریں اگر خود کشی حرام نہ ہوتی تو شاید اٹھارہ کروڑ عوام اس کے سینے سے لگا چکے ہوتے۔

چند روز قبل کراچی میں کچھ امن کی فضا قائم ہونے ہی لگی تھی کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی دل لبریز کر دینے والی تقریر نے پورے شہر کا امن تباہ کردیا ایک طرف تو بے گناہوں کی بے وقت موت دوسری طرف زندہ رہنے والے آئے روز جی جی کر مرتے ہیں کاروبار ختم ہو گیا اور غربت نے ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے کر دیے یہ لوگ ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں مگر ہمیں اس کی فکر کہاں ہمیں تو باہرکے دورے کرنے ہیں مجھے پیرس جانا ہے پھر لندن ۔ مگر انہیں بلوچستان اور کراچی میں دہکتی آگ نظر نہیں آرہی کیونکہ جس کے گھر میں آگ لگتی ہے دکھ اسی کو ہوتا ہے۔ہم نے تو اس ملک کو اپنا گھر سمجھا ہی نہیں یہ تو ایک کمائی کی دکان ہے۔ مگر دکھ اس بات کا ہے اس دکان کا مالک بنانے میں بھی تو اس بے حس عوام کا ہاتھ ہے فلاں لیگ آئے گی تو یہ مسائل حل ہو جائیں گے فلاں آئے گا تو یہ ہو جائے گا مگر یہ کڑوا سچ ہے کہ جس سیٹ پر مسائل کے حل کے لیے عوام انھیں بٹھاتی ہے آج اسی سیٹ سے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں مجھے ابھی تک کسی لیڈر میں جذبہ نظر نہیں آیا جس نے اس دہکتی ہوئی آگ کو سلجھانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہو ۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ اس ٹارگٹ کلنگ میں ہمارے اپنے ہی ملوث ہیں اور ملک دشمن عناصر ان کی ہر لحاظ سے مدد کر کے معاملے کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عوام کو صحیح معنوں میں بیدار ہونا ہوگا کیونکہ جو قوم اپنے فیصلے کرپٹ لوگوں کے ہاتھ سونپ دیتی ہے تو پھر اس کے مقدر میں غربت ، افلاس اور ناامیدی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔اگر ہم نے اب حالات کو جماعتی نگاہ کی بجائے حقیقت کی نگاہ سے نہ دیکھا تو صف ماتم بچھتا رہے گا اور ماﺅں ، بہنوں اور بیویوں کی نگاہیں حسرت سے ہجوموں میں کھو جانے والوں کو ڈھونڈتی رہیں گی مگر ضرور ایک وقت آئے گا۔۔۔جب خدا کی عدالت ہو گی اور ظلم جھٹ جائے گا۔ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے۔۔آخر میںیہ چند مصرعے ارباب اختیار کی نظر کیے جاتے ہیں
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں ، روئی کی طرح اڑ جائینگے
ہم محکوموں کے پاﺅں تلے ، یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اہل حکم کے سر اوپر ، بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے ، ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
Khalid Iqbal Asi
About the Author: Khalid Iqbal Asi Read More Articles by Khalid Iqbal Asi: 8 Articles with 6003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.