بھارتیہ جنتا پارٹی کا آج کل یہ حال ہے کہ جب اس کے
رہنما ووٹ مانگنے کی خاطر گاوں میں جاتے ہیں تو مقامی لوگ ڈنڈے لے کر پیچھے
پڑ جاتے ہیں لیکن اس بیچ یوگی سرکار پر عدالت عظمیٰ کا جو جوتا پڑا ہے وہ
بھی بے مثال ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اس بیس فیصد مسلمانوں کے سبب ہے
جس کو یوگی جی ناقابلِ توجہ سمجھ کرنظر انداز کردیتےہیں ۔ سپریم کورٹ میں
یوگی جی کے اسیّ فیصد ان کے کسی کام نہیں آسکےکیونکہ انصاف کی ترازو پر
تعداد نہیں وزن دیکھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کےسی
اے اے مخالف مظاہرین سے معاوضہ لینے کی خاطر بھیجے جانے والے نوٹس کو غیر
قانونی قرار دےدیا۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور سوریہ کانت کی بنچ نے نوٹس
واپس لینے کی کارروائی نہ کرنے پر ریاستی حکومت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا
کہ اگرسرکار عمل نہیں کرےگی تووہ انہیں منسوخ کردے گا۔ عدالت نے اس کے لیے
18 ؍فروری تک کا موقع دے کر یوگی جی کو پھٹکار لگائی ہے۔ سپریم کورٹ کے
مطابق اس طرح کی خلافِ قانون کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
اترپردیش کی حکومت کو بارہا اس طرح کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اس
بے حیا حکومت نے کبھی بھی اس پر شرم محسوس نہیں کی۔2019 میں، شہریت ترمیمی
قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران اترپردیش کی یوگی نے پہلے تو اعلان کیا کہ
وہ انتقام لیں گے ۔ اس کے بعد مظاہرین کو طرح طرح سے پریشان کیا گیا ۔ان کے
راستے مسدود کردیئے گئے اور ضروری سہولیات ہٹا دی گئیں۔ بجلی کاٹ دی گئی
پنڈال توڑ دیئے گئے۔ تقریباً تئیس لوگوں کو یوگی کی سفاک پولس نے شہید
کردیا اور الٹا مظاہرین کے خلاف سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام
لگا کر ان کی تصویر سمیت شہر کے اہم چوراہوں پر بینر لگائے گئے۔ ان کو رسوا
کرنے کے ساتھ ساتھ نقصان کی تلافی کا نوٹس بھیج دیا گیا۔ یہ سب مسلمان
مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیا گیا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ کورونا کی وباء
کے سبب مظاہرہ تو معطل ہوگیا مگر جب قرقی کا معاملہ الہ باد ہائی کورٹ میں
پہنچا تو اس نے بھی اسے غیر قانونی قرار دی۔ یوگی سرکار نے اپنی غلطی تسلیم
کرکے معافی مانگنے کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کیاحالانکہ اگر اس وقت وہ
اپنی اصلاح کرلیتی تو عین انتخاب کے دوران اس طرح کی رسوائی سے بچ سکتی تھی
لیکن مغرور دماغ اوندھے منہ گرے بغیر درست نہیں ہوتا ۔
صوبائی حکومت کی وکالت کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد نے
سماعت کے دورا ن انکشاف کیا کہ833 فسادیوں کے خلاف 106 ایف آئی آر درج کی
گئیں۔ ان کے خلاف 274 ریکوری نوٹس جاری کیے گئے مگر 236 میں ریکوری آرڈرز
پاس کیے گئے کیونکہ 38 معاملات کو بند کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان
میں ایک ایسا نوے سالہ فرد کا انتقال وارادت سے۶ ماہ قبل ہوچکا تھا ۔ ایک
کی عمر 94 سال تھی اور دیگرکئی بے قصور بزرگ بھی تھے ۔ اس سرکاری دہشت گردی
کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا تھا لیکن آج ان مظاہرین میں سے
کئی یوگی سرکار کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں اور مہم تو سبھی چلارہے ہیں ۔ اس
لیے ڈرانے دھمکانے کا یہ حربہ تو پوری طرح ناکام ہوگیا۔ اس کے ساتھ وزیر
اعظم کا یہ دعویٰ کہ ان کی حکومت مسلم خواتین کے ساتھ کھڑی ہے اور عدل و
انصاف کے قیام کی خاطر یوگی کو پھر سے امنتخب ہونا چاہیے بھی ملیا میٹ
ہوگیا۔ وزیر اعظم کی تردید کا کام عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ہوا ہےاگر کسی
بھگت میں ہمت ہے تو یہ کہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غلط ہے۔
سپریم کورٹ نےاس سخت پھٹکار کے ذریعہ اپنے ایک گناہ کا کفارہ ادا کیا ہے ۔
سابق چیف جسٹس کی ناانصافی کو درست کرکے اس نے اپنا وقار بحال کرنے کی کوشش
کی ہے۔ سی اے اے تحریک کا سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب دہلی کی پولس جامعہ
ملیہ اسلامیہ کے اندر گھس گئی اور اس نے لائبریری کے اندر بیٹھے ہوئے طلباء
کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس غیر معمولی دہشت گردی کے خلاف دوسرے دن اندرا جئے
سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرکے مداخلت کی درخواست کی
۔ اس پر سابق چیف جسٹس شرد بوبڈے نے کہا ’’اگر آپ سڑک پر ہیں تو انصاف کی
توقع نہ کریں ‘‘۔ یہ نہایت غیر انسانی تبصرہ تھا بلکہ بلیک میل تھا کہ اگر
کوئی احتجاجی مظاہرہ کرے تو سرکار اس پر مظالم کرنے کے لیے حق بجانب ہے اور
عدلیہ اس کی مدد نہیں کرے گا ۔ اس رویہ نے یوگی جیسے لوگوں کو من مانی کرنے
کی شئے دی۔ ان لوگوں نے اس کو قانونی شکل دے دی اور عدلیہ کے سارے اصول و
ضوابط کو پامال کرکے ظلم و جبر پر اتر آئے۔ ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں کیا
گیا۔ ابھی حال میں ریلوے امتحانات کے خلاف طلباء نے ریل گاڑی کے ڈبے تک جلا
دئیے گئے لیکن نہ ان کے پوسٹر لگے اور نہ قرقی ہوئی لیکن مسلمانوں کے خلاف
بغض و عناد سے کام لیا گیا۔
بی جے پی کے لیے اتر پردیش میں سب سے بڑ چیلنج مسلمانوں اور جاٹوں کا اتحاد
ہے۔ بی جے پی سے دور جانے والے جاٹوں کو جب مسلمان دشمنی کے ذریعہ قریب
نہیں کیا جاسکا تو مرکزی وزیرسنجیو بالیان نے براہمنوں کے خلاف انہیں
بھڑکانے کی مذموم کوشش کی ۔ اس کے لیے انہوں نے اسٹیج سے پنڈت واد مردہ باد
کا نعرہ لگوایا ۔ اتفاق سے ان کی وہ ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور
پھر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ والامعاملہ ہوگیا ۔ آگے چل
کر سنجیو بالیان نے اپنی صفائی میں پریس کانفرنس کی تو چہرے کی سیاہی اور
بھی پھیل گئی۔ اس کی قیمت پوروانچل میں چکانی پڑے گی ۔ بجنور سے راہِ فرار
اختیار کرنے والے وزیر اعظم نے نقصان بھرپائی کے لیے ایوان پارلیمان کا
بیجا استعمال کرڈالا۔ وہاں پر ان کی تقریر سن کر یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ
وہ صدر کے خطاب کا شکریہ ادا کررہے ہیں یا راہل گاندھی کے الزامات کا جواب
دے رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے یہ کہا کہ جو سنتا نہ ہو اسے کیسے سنایا جائے
لیکن پھر جی بھر اسی موضوع پر بولتے رہے۔ اس کے جواب میں راہل نے کہا میں
ان کی کیوں سنوں ؟ اس میں ہوتا ہی کیا ہے؟اس طرح وزیر اعظم نے خود اپنی
توہین کروالی ۔ اپنے مخالفین کو ایوان پارلیمان میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہنا
اور اگلےسوسال تک ان کے اقتدار سے باہر رہنے کی پیشنگوئی کرنا وزیر اعظم کے
عہدے کو زیب نہیں دیتا۔
پہلے مرحلے کی پولنگ سے ایک دن قبل شام میں مودی جی اے این آئی کو ایک
روایتی جعلی انٹرویو دے ڈالا۔ گودی میڈیا کے سارے چینلس نے اسے براہ راست
نشر کرکے خوب روپیہ جٹا یا ۔ اس انٹرویو میں قومی یا عالمی مسائل پر گفتگو
کرنے کے بجائے مودی جی نے اپنے مخالفین کو اس طرح کوسا کہ ناظرین کو سمبت
پاترا کی یاد آگئی اور ان دونوں کے درمیان جو ایک باریک سا پردہ حائل تھا
وہ بھی ہٹ گیا۔ ویسے تو ہندوستان کے اندر گودی میڈیا نے اپنے ہر سروے میں
یوگی کے اقتدار میں آنے کی پیشنگوئی کی ہے جو ان کی مجبوری ہے لیکن
آزادانہ جائزے یہ بتا رہے ہیں کہ مغربی اترپردیش میں ایس پی اور آر ایل
ڈی کا اتحاد 32 نشستوں پر کامیابی درج کراسکتا ہے ۔ بی جے پی 15 کے آس پاس
سمٹ سکتی ہیں باقی سیٹیں بی ایس پی جیت سکتی ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ بی جے
پی کا سب سے محفو ظ قلعہ اس بار زبردست خطرے میں ہے۔ وزیر داخلہ کا تھوک
لگا کر انتخابی پرچے بانٹنا ان کے کسی کام نہیں آسکا ہے۔ عام طور پر
انتخابی جائزے غلط نکلتے ہیں لیکن وہ کبھی کبھار درست بھی نکل جاتے ہیں اور
اس بار قوی امکان ہے کہ یہ صحیح نکل آئے۔
وزیر اعظم کے انٹرویو میں خوشحالی کے جو لمبا چوڑا دعویٰ کیا گیا تھا اس کے
اثرات کو زائل کرنے والی ایک خبر اتفاق سے اسی دن مغربی اترپردیش کے باغپت
سے آگئی جہاں اگلے دن پولنگ ہونی تھی۔ باغپت ضلع کے بڑوت میں معاشی بحران
سے تنگ آکر ایک جوتوں کے تاجر نے اپنی بیوی سمیت زہر کھا کر خودکشی کی
کوشش کی اور خاتون ہلاک ہو گئی۔ یہ نہایت اندو ہناک سانحہ ہے کہ جس میں
سبھاش نگر کا 40 سالہ راجیو تومر فیس بک لائیو پر اپنی 35 سالہ بیوی پونم
کے سامنے زہر کھاتا ہے۔ اسے روکنے کی کوشش میں ناکامی پرپونم بھی زہرمار
کرلیتی ہے۔ میاں بیوی کو سنگین حالت میں اسپتال کے اندر داخل کیا جاتا ہے
جہاں پونم دم توڑ دیتی اور راجیو کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ یہ کوئی
ازدواجی چپقلش کی وارادات نہیں ہےکیونکہ راجیو اپنی موت کے لیے وزیر اعظم
نریندر مودی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے الزام لگاتا ہے کہ وہ چھوٹے
کاروباریوں اور کسانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں۔
راجیوتومر کے رشتے داروں کے مطابق اس نے موت سے قبل کئی بار حکومت سے مدد
کی اپیل کی تھی، لیکن اسے کوئی مدد نہیں ملی۔ اس دل دہلا دینے والے ویڈیو
نے کتنے رائے دہندگان کو وزیر اعظم سے بدظن کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے اور اس کے سبب بی جے پی کا پندرہ سیٹیں بھی نکال پانا مشکل
ہوگیا ہے۔ ویسے یہ بہت اچھا ہوا کہ یوگی کے اقتدار سے محروم ہونے سے قبل یہ
حکمنامہ آگیا ورنہ ان کے بھگت کہتے کہ ہمارا رہنما اس قدر طاقتور تھا کہ
جب تک وہ وزیر اعلیٰ رہا عدالت بھی اس کے خلاف نہیں جاسکی ۔ سپریم کورٹ نے
یہ بتایا دیا کہ وہ کسی یوگی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ اس فیصلے سے یہ اشارہ
ملتا ہے کہ یوگی جی کے اچھے دن جارہے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
اترپردیش کے سات میچ کی انتخابی سیریز میں بی جے پی اپنا پہلا میچ بری طرح
ہار چکی ہے۔ ویسے یہ تو دس مارچ کو ہی پتہ چلے گا کہ کس نے کتنے رن بنائے
اور کون کتنے وکٹ گنوا کر ہار گیا۔ اس لیے اس وقت خوش گمان رہنے میں کوئی
حرج نہیں ہے۔
|