مظفرپور بہار میں پندرہ فروری کو ایک آٹو رکشا کا گئورکشکوں نے پانچ
کلومیٹر پیچھا کرکے پکڑا ۔ اس کوشش میں بجرنگ دل کے دو موٹر سائیکل سوار
کارکن زخمی بھی ہوگئے ۔ اس کے بعد ڈرائیور کو ماراپیٹا گیااور رکشا کو آگ
لگا دی گئی۔ بجرنگ دل والوں نے احتجاجاً دس کلومیٹر لمبا ٹرافک جام کرکےبھی
عوام کو پریشان کیا۔ اس دوران پولس آگئی ۔ اس نے گوشت کو اپنے قبضے میں لے
جانچ کے لیے بھیج دیا ۔ ڈرائیور نےسواریوں کا نام بھی بتا دیا اور پولس نے
تشدد کرنے وانے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے سمجھا بجھا کر بھیج دیا
کیونکہ اس ملک میں گائے کے نام پر فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنا مہا پاپ
ہے ۔ یہ گئو رکشک فی الحال ملک کے سب سے بڑے محافظ بنے ہوئے ہیں اور ان
کواپنے دھرم یدھ میں انتظامیہ و سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ خود جس کو
چاہتے ہیں پکڑ کر جسمانی اور معاشی سزا دے سکتے ہیں یعنی نہ صرف مارپیٹ
سکتے ہیں بلکہ گاڑی کو آگ لگانے کی بھی انہیں چھوٹ ہے۔ ان لوگوں کو گائے
یا اس کے گوشت کی اسمگلنگ کا تو پتہ چل جاتا ہے اور وہ گائے کی محبت میں
پہنچ جاتے ہیں مگر گئوشالا میں مرنے والی گایوں کے متعلق کچھ بھی معلوم
نہیں ہوتا اور پتہ چل بھی جائے تو یہ انہیں بچانے کے لیے نہیں جاتے یقین نہ
آتا ہوتا تو مدھیہ پردیش کا یہ واقعہ دیکھیں ۔
بھوپال کے قریب بیرسیا گاوں کے گئو سیوا بھارتی گئو شالا میں 100 سے زیادہ
گایوں کے موت کی خبر ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوگئی مگر کسی گئو رکشک کو ان
کی مزاج پرسی کاخیال نہیں آیا ۔ اس خبر کی تفتیش کے لیے جب روزنامہ بھاسکر
کا نمائندہ رات ایک بجے وہاں پہنچا تو 500 سے زیادہ گائیں ٹھنڈ سے ٹھٹھر
رہی تھیں اور ان میں سے ایک سب کے سامنے لڑکھڑا کر گری اوردس منٹ میں دم
توڑ دیا۔ صبح ٹرالی بھر کر گایوں کی ہڈیاں وہاں سے نکالی گئیں۔ کروڈوں دیش
بھکتوں کی ان لاوارث ماتاوں کے سر پر چھت نہیں تھی اور نہ بھوسے و پانی کا
کوئی انتظام تھا۔ جہاں چارہ ڈالاجاتا ہے وہاں مٹی پڑی ہوئی تھی۔ انتظامیہ
نے رات دس بجے ایک ٹرک بھوسا تو بھیجا لیکن کسی دیکھ ریکھ کرنے والے کا
انتظام نہیں کیا اس لیے وہ گاڑی سے اتارا نہیں جاسکا ۔ اس طرح ابتداء میں
گئو شالا کے اندر سو سے زیادہ گایوں کے فوت ہونے کی خبر آئی ۔ ان میں سے
29؍ جنوری کی شب میں 8 گایوں کی موت ہوئی۔ گئو شالا کے کنوئیں میں 20 گایوں
کی لاشیں 80 پنجر میدان میں ملے ۔
دس ایکڑسرکاری زمین پریہ بیرسیا گاوں کی گئوشالا بنائی گئی ہے ۔ اس کو چہار
دیواری سے گھیرا بھی گیا ہے۔ آس پاس کے کسان اس گئوشالا میں اپنے مویشی
چھوڑ کر جاتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سو دوسو روپیہ چندہ بھی دیتے
ہیں۔ اس وارادت کے بعدپولس نے پچھلے 20 سالوں سے اس کی دیکھ ریکھ کرنے والی
نرملا دیوی چنڈالیا کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ اس کے بعد سرکاری انتظامیہ
نےگئو شالا کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں تو لیا لیکن کوئی نگراں مقرر
نہیں کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ گائیں بھوک پیاس سے تڑپتی رہیں۔ چارے کی تلاش
میں جب وہ تالاب کی جانب نکل گئیں تو آوارہ کتوں نے ان پر حملہ کردیا۔
گئوماتا کا یہ حال اس بھوپال سے قریب کے گاوں میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی
نے ایک شعلہ بیان گئو بھگت سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو رکن پارلیمان بنا رکھا ہے
۔
پرگیا ٹھاکر اور ان گوڈسے پریم کے بارے میں قارئین پہلے بھی بہت کچھ جانتے
ہیں لیکن اس گئوشالا کی منتظم نرملا دیوی کوکوئی نہیں جانتا۔ اپنا تعارف
کراتے ہوئے نرملا کہتی ہیں کہ وہ بی جے پی کی رہنما ہیں اور گزشتہ تیس سال
سے سرگرمِ عمل ہیں ۔ وہ بی جے پی کی بلاک صدر رہی ہیں ۔منڈی کی کمیٹی کی
رکن بھی تھیں اسی لیے ان کو منڈی والی یا گئو شالا والی میڈم کے نام سے یا
د کیا جاتا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اتنی ساری
گائیں موت کے منہ میں چلی گئیں۔ ان کا کہنا ہے ٹھنڈ کے سبب صرف 3-4 گائیں
مری ہیں ۔ گئوشالا میں چونکہ چھت نہیں اس لیے پولی تھین سے ڈھانپا جاتا ہے
جو کافی نہیں ہے اور اس سے موت ہوجاتی ہے۔ نرملا دیوی کے بیان میں نہ تو
کوئی افسوس ہے اور نہ تعجب ہے۔ اس بیان کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ان
کے لیے یہ ایک معمولی واردات ہے۔
نرملا دیوی کو اپنی پارٹی کی حکومت سے یہ شکایت بھی کی کہ ایک گائے کی خدمت
کے لیے انتظامیہ کی جانب ڈیڑھ روپئے ملتا ہے۔ اتنی کم رقم میں گائے کی خدمت
کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی سطح گئو سیوا کررہی ہیں ۔ انہوں
نے یہ الزام بھی لگایا کہ جو پنیّ (پولی تھین) لگائی تھی اس کو انتظامیہ نے
نکال دیا۔ ایک گئو بھکت سرکار کے اوپر یہ بہت ہی سنگین الزام ہے۔ وہ کہتی
ہیں کہ ’’میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں ۔ میرے خلاف الزامات لگائے جارہے ہیں
اور مجھے پریشان کیا جارہا ہے‘‘۔ ایک بی جے پی کی کارکن کا اپنی سرکار کے
خلاف یہ الزام نہایت شرمناک ہیں ۔ اس کے بعد گرفتاری کے ڈر سے وہ روپوش ہو
گئیں ۔ نرملا دیوی نے دعویٰ تو خوب کیا مگر جب اس کی تفتیش شروع ہوئی تو
دلچسپ حقائق سامنے آئے اور گئوشالا کے نام پر چلنے والا گورکھ دھندا بھی
بے نقاب ہوگیا ۔
2001 سے اس گئوشالا کو چلانے والی نرملا دیوی کی کذب گوئی کو مسترد کرنے کے
لیے آر ٹی آئی کے ذریعہ سامنے آنے والی ایک معلومات ہی کافی ہے کہ جس
میں بتایا گیا پچھلے دو سالوں کے اندر انہیں سرکار کی طرف سے 21.09 لاکھ
روپئے کی امداد مل چکی ہے۔ یہ رقم اس کے علاوہ ہے جو خود ان کے مطابق کسان
دے جاتے ہیں اور اس کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔ ویسے مقامی ایس ڈی
ایم دستاویز کی جانچ کررہے ہیں اور ممکن ہے ان کی رپورٹ میں اور بھی حیرت
انگیز انکشافات ہوں مثلاً جے سی بی چلانے والے ڈرائیور شاہ رخ کا بیان ہے
کہ صرف 100 نہیں 850 گایوں کی لاشوں کو دفنایا گیا ہے۔ ویسے سرکاری رپورٹ
تو جب آئے گی تب آئے گی اور اس میں نرملا دیوی کو بچانے کی خاطر جو کیا
جائے گا تو سو کیا جائے گا اس سے قطع نظر صحافیوں کے ذریعہ بھی بہت ساری
عجیب و غریب تفصیلات ذرائع ابلاغ میں آرہی ہیں ۔
ہندو سماج انسانوں کے اندر نسل کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کرتا مگر گایوں
کے درمیان یہ فرق افادیت کے سبب کیا جاتا ہے۔ اس گئوشالا کے اندر گایوں کو
دو حصوں میں یعنی دودھ دینے والی اور بانجھ گائے کے بیچ بھید بھاو برتا
جاتا تھا ۔ نرملا دیوی دودھاری گایوں کا توخوب خیال رکھواتی تھیں ۔ ان کو
بھرپور چارہ دیا جاتا اور سردی سے تحفظ کے لیے پلاسٹک سے ڈھانپا جاتا مگر
دودھ نہیں دینے والی گایوں کو سوکھا چارہ اور گھاس تک سے محروم رکھا جاتا
تھا ۔ اس لیے وہ گائیں بھوک سے بیمار ہوکر دم توڑ دیتی تھیں حالانکہ دونوں
کی دیکھ ریکھ کے لیے سرکار کی مدد میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ ایسا امتیاز
تو قصائی بھی نہیں کرتے کجا کہ گائے کو ماں کا درجہ دینے والے کریں ۔ یہ
گئو بھگت گائے کو ماں کہہ کر اس کے نام بڑی بڑی سرکاری زمینوں کو اپنی
تحویل میں لیتے ہیں ۔ حکومت سے ان کی پرورش کے لیے مدد لے کر ان کے ساتھ
ایسا برا سلوک کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ماں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کی تفریق کرسکتی ہے
اور بچوں کو یہ زیب دیتا ہے ماں اور باپ میں فرق کریں ۔ ان میں سے جو کماتا
ہو اس کا خیال کریں اور جو نہیں کماتا اسے بھوکا ماردیں؟ اس تناظر میں
کانگریس کے رہنما دگوجئے سنگھ کا الزام درست معلوم ہوتا ہے کہ کئی سالوں سے
بی جے پی کی شنڈلیا کے زیر انتظام گئوشالا میں چمڑے اور ہڈی کا کاروبار چل
رہا تھا اور اسی کی وجہ 500پنجر ملے ہیں ۔ان کا مطالبہ ہے کہ نرملا پر گائے
کے قتل کا مقدمہ درج کیا جائےنیز ہڈیوں اور چمڑے کے کاروبار کےعلاوہ گزشتہ
سالوں میں ملنے والی سرکاری امداد کی بھی جانچ ہو۔ اس تنازع میں سیاستدانوں
کے علاوہ سادھو سنت بھی شامل ہوگئےہیں۔ مرچی بابا نے گئوشالا کا دورہ کرکے
کہا کہ 500گائیں تڑپ تڑپ کر مرگئیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ اور
بہت بڑا ٹیکہ لگاکر خود کو یوگی کا وارث ثابت کرنے کرنےوالے وزیر داخلہ
نروتم مشرا کے طریقۂ کار کا موازنہ راون سے کردیا۔ مرچی بابا نے کہا کہ بی
جے پی سرکار میں بھوک سےگائیں مررہی ہیں اس لیے اب وہ خود ریاست کی ساری
گئو شالاوں کا جائزہ لیں گے ۔ اس طرح کے واقعات جب بھی منظر عام پر آتے
ہیں ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں مگر آگے چل کر سب ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے۔
کوئی گئورکشک ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے میدان میں نہیں آتا کیونکہ اپنے
ہی لوگوں پر کون انگلی اٹھاتا ہے یہ تو غیروں کے لیے ہوتی ہےَ
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|