"واقعات لاہور" ---از محمد نعیم مرتضی

" واقعات لاہور " برصغیر پاک و ہند کے قدیمی اور تاریخی شہر لاہور میں وقتا فوقتا رونما ہونے والے واقعات پر مشتمل کتاب ہے۔ اسکتاب کے مصنف محمد نعیم مرتضی ہیں ۔جو 4اپریل 1967ء کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے اسی شہر میں رہتے ہوئے ایم اے تاریخ ، ایم اے اردو ،اور ایم اے پنجابی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔حصول تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے شعبہ صحافت میں قدم رکھا اور نوائے وقت کے فیملی میگزین سمیت کتنے ہی اخبارات و جرائد میں کلیدی عہدوں پر ذمہ داریاں نبھائیں بلکہ اب بھی کالم نگاری میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ۔انہوں نے پانچ کتابیں لکھیں جن میں سے ایک "واقعات لاہور" ہے ۔ محمد نعیم مرتضی لکھتے ہیں کہ زندگی کسی تصویری معمہ کی طرح لگتی ہے ۔آڑے ترچھے ٹکڑے بظاہر بے معنی لگتے ہیں مگر جب انہیں ایک دوسرے سے جوڑا جائے تو ایک تصویر ابھرکر سامنے آتی ہے ۔اسی طرح ہر روز رونما ہونے والے مختلف النوع چھوٹے بڑے واقعات مل کر حیات تشکیل دیتے ہیں ۔ واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زنجیر کی صورت اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔جسے زندگی کہتے ہیں ۔گویا زندگی واقعات کے مجموعے ہی کا دوسرا نام ہے ۔اس لئے زندگی کے ساتھ واقعات اور واقعات کے ساتھ زندگی عبارت ہے۔کچھ واقعات اس قدر اہم یا غیر معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں حاصل زندگی کہا جاتا ہے۔یہی واقعات آگے چل کر دوسروں کے لئے قصے کہانیاں بن جاتے ہیں،جنہیں سننا اور سنانا لوگوں کا قدیم اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔بھارتی نقاد اور مصنف شمیم حنفی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ برصغیر کے لوگوں نے لاہور جتنی محبت سے کسی دوسرے شہر کو کبھی یاد نہیں کیا۔عبدالقادر حسن نے کیا خوب کہا تھا کہ لاہور اگر بادشاہوں کا شہر تھا تو ہمارے جیسے مسافروں کا شہر بھی تھا۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ اور فیض احمد فیض جیسے دو عظیم شاعر خود چل کر لاہور میں آبسے اور یہی دفن ہوئے۔ملکہ نور جہاں بھی دریائے راوی کے کنارے آسودہ خاک ہیں،ملکہ نورجہاں لاہور شہر کے عشق میں ایسی مبتلا ہوئیں کہ اس شہر پر مر مٹیں۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر لاہور میں رہے ، ایف سی کالج میں تعلیم پائی ۔وہ اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔آزادی کے وقت ہندوستان جانے کے بعد بھی اپنی روح لاہور ہی میں چھوڑ گئے۔اس شہر کا تذکرہ وہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح رقت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے۔وہ لاہور سے آنے والوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے اور اپنے محبوب شہر کی گلی کوچوں ،بازاروں ،عمارتوں ،باغوں کا تفصیل سے حال معلوم کیاکرتے ۔کرشن چند ر نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ لاہور کا ذکر تو کجا اس شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔راجندر سنگھ بیدی جنہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز محسن لاہوری کے قلمی نام سے کیا تھا،مرتے دم تک لاہور کے عشق میں گرفتار رہے۔لاہور کی باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ۔ایک مرتبہ ٹی وی پر انٹرویو کے دوران لاہور کا ذکر آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔اے حمید برما میں قیام کے دوران اپنی جنم بھومی امرتسر کی بجائے لاہور کو یاد کیا کرتے تھے۔وہ کہاکرتے تھے کہ لاہور کا نام زبان پر آتے ہی طلسم و اسرارکی الف لیلہ کا ایک باب کھل جاتا ہے۔لاہور ایک شہر ہی نہیں ،یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔سید احمد شاہ پطرس بخاری کا شمار بھی لاہور کے سچے عاشقوں میں ہوتا تھا۔نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے صوفی تبسم کے نام ایک خط میں پوچھا "کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے؟"۔گویا یہ شہر اپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ وہ کبھی ،کسی دوسری جگہ پر سکون نہیں پا سکتے ۔جمنا داس اختر، گوپال متل ، پران نوائل اور ان جیسے کئی قلمکار آزادی کے بعد لاہور سے کوچ کرگئے لیکن ان کے دل میں لاہور ہی اٹکا رہا۔معروف شاعرہ شبنم شکیل لاہور کے ہجر میں غزلیں کہتی رہیں ۔بھارتی فلمی اداکار پران ،اوم پرکاش ، دیو آنند ، یش چوپڑا اور ناول نگار ہپسی سدھو جیسے مشاہیر لاہور کی بزم سے اٹھ جانے کے باوجود اس کی طرف بار بار مڑکر دیکھتے رہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور ایک کیف و مستی کا نام ہے۔ایک نشہ ہے جو طاری ہوجائے تو اترنے کا نام نہیں لیتا۔پیدا ہونے کے لئے لاہور کے درشن کرنا بھی ضروری ہیں ۔بہرکیف 280صفحات کی اس کتاب میں 591واقعات پر درج ہیں ۔کتاب کی قیمت صرف 400/- روپے ہے۔ جو کتاب کی اہمیت اور افادیت کو دیکھتے ہوئے معمولی دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ کتاب بطور خاص لاہور کے رہنے والوں کے بہترین تحفہ قرار پاتی ہے ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.