سدا بہار ( طنزو مزاح انتخاب )

 سدابہار،یہ کتاب ڈاکٹر صفدر محمود کی تالیف ہے ۔ وہ اس کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ میں طنزو مزاح کو ا یک ایسا سدابہار پھول سمجھتا ہوں جس کی خوشبو اور حسن کبھی ماند نہیں پڑتے بلکہ اکثر اوقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تروتازگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔اس کتاب کی شکل میں ایسے ہی سدا بہار پھولوں کا ایک گلدستہ اس دعا کے ساتھ شامل کتاب کررہا ہوں کہ اﷲ کرے اس کی خوشبو سے وطن عزیز کا ہر گوشہ مہکتا رہے ۔ان مضامین کا انتخاب بنیادی طور پر ایک سہ ماہی میگزین "اردو پنچ" رالپنڈی سے کیا گیا ہے ۔جس کا ادارتی بورڈ سید ضمیرجعفری ،کرنل محمد خان، سلطان رشک اور اس خاکسار پر مشتمل تھا۔فکاہی ادب کے اس مخزن میں چوٹی کے مزاح نگاروں کے ادب پارے شائع ہوتے رہے ہیں ۔ڈاکٹر صفدر محمود اپنے ایک مضمون "مولوی گڈو"میں لکھتے ہیں -:مولوی گڈو کے نام کی وجہ تسمیہ کا تو مجھے علم نہیں اور نہ میں نے کبھی جاننے کی کوشش کی ۔ اﷲ نے انہیں مفصل تن و توش سے نواز رکھا تھا۔ مگر حیرت ہے کہ ان کا نام مولوی گڈو پڑ گیا ۔تکبیر کی یہ تصغیر کس طرح عمل میں آئی ،اس امر سے کوئی آگا ہ نہ تھا ۔ہوسکتاہے مولوی صاحب بچپن میں گڈے (پتنگ ) اڑاتے رہے ہوں یا بچپن میں بزرگوں نے پیار سے انہیں گڈو کہا ہو۔ اور پھر وہ پیارکانام اصل نام پر حاوی ہوگیا ۔مولوی گڈو بارعب بزرگ تھے ۔دیکھنے میں ہرگز اندازہ نہ ہوتا تھا کہ وہ ایک کالج کی ویران مسجد کے امام ہونگے ۔ظاہری طورپر وہ سیاست دان یا گاؤں کے چودھری لگتے تھے جو عام طور پر ساٹھ پینسٹھ برس کی عمر کے لگ بھگ نو سو یا اس سے زیادہ چوہے پورے کرلینے والی بلی کی طرح تائب ہوجاتے ہیں ۔عمل میں نماز اور جسم میں داڑھی کا اضافہ کرلیتے ہیں اور قریب آتی ہوئی قیامت کی چاپ کے خوف سے اسی مولوی کے پیچھے باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں ۔ایک مزاح نگار سے ملاقات کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ سید ضمیر جعفری کو اگر آپ نے دیکھا ہے تو آپ نے ان کے چہرے پر سوچ کی گہری چھاؤں ،بلکہ ان کے فوجی ہونے کے ناطے یہ کہنا چاہیئے کہ چھاؤنی چھائی دیکھی ہوگی۔ مضمون لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ضمیر صاحب کی بھاری بھرکم شخصیت ( وزن میں تو کوئی ڈیڑھ من سے اوپر ہیں )ان کا ہمہ وقت مسکراتا چہرہ چشم تصور میں سامنے آگیا ۔سارا آدمی تو کب دیکھ سکتا ہے لیکن ضمیر صاحب کو جتنا کچھ ہم نے دیکھا ہے اس کی روشنی میں یہ ایک ایسی شخصیت کا تصور تھا جس کی باتوں سے محبت کا زمزمہ رواں رہتا ہے جو سرتاپا خلوص اور مروت کا مجسمہ ہے ۔میں بعض اوقات سوچتا ہوں اگر سب انگریز ضمیر صاحب کی طبیعت کے ہوتے تو وہ کبھی کسی دوسرے ملک میں اپنی حکومت قائم نہ کرسکتے بلکہ اپنا ملک بھی ہاتھ سے دے بیٹھتے ۔احمد ندیم قاسمی "بہزاد آرٹ گیلری میں " کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ استاد بہزا د جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا ۔چاروں طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔پھر اس گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بینچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ دیکھا ۔اﷲ اﷲ گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی ترقی کی ہے ۔ اس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اٹھ کر چلنے لگے گااور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ سچ مچ اٹھ کر چلنے لگا تو جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایااور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرہ ارض کا سفر کرکے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں۔جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا میں سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھر میں سجے ہوئے شیشے پرمنعکس ہو جاتی ہیں ۔اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس میں حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہوگا ۔پھراستاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور سید ھا اس کے سامنے آ کررک گیا اور بولا "کیا آپ میرا ماڈل بنانا پسند کرینگے ؟"۔ ڈاکٹر صفدر محمود بیشک اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی تحریریں اور کتابیں ہمیشہ ہمیں انکی یاد دلاتی رہیں گی کیونکہ وہ لکھنے کا فن بھی جانتے تھے اور ان کو تاریخ کا ایک اہم مورخ ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا ۔تصوف میں گہری دلچسپی نے ان کی گفتگو اور تحریروں کو ایک خاص رنگ میں ڈھا ل دیا تھا ،جہاں تک میری بات ہے میں نے ان کو کبھی مزاح لکھتے نہیں دیکھا اور اس سے پہلے نہ ہی کسی جگہ ان کی مزاحیہ تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ لیکن ڈاکٹر صفدر محمود کی یہ کتا ب "سدا بہار"طنزو مزاح کے حوالے ان کی تحریروں کو بھی پڑھ کر دلی خوشی ہوئی۔اس کتاب میں احمد ندیم قاسمی ، کرنل محمد خان ،مشکور حسین یاد،عطاالحق قاسمی اور ڈاکٹر صفدر محمود جیسے مصنفین کی تحریریں شامل ہیں ۔اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ کتاب مسکراہٹوں کی ایک آبشار ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 783964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.