ہم اکثرایک دوسرے سے پوچھتے ہیں،کبھی حالات کا رونا روتے
رہتے ہیں کوئی اﷲ تعالیٰ سے شکوہ کرتاہے کوئی بھگوان سے ،لیکن ہر شخص سوچوں
میں گم ضرورہے ایک سوال دل و دماغ پر حاوی ہے کہ ہماری دعائیں قبول کیوں
نہیں ہوتیں؟ درویش نے بڑی متانت سے حاضرین کے دلوں میں موجزن ایک وسوسے کا
تجزیہ کرتے ہوئے کہا اس سوال کا جواب ہمارے پاس موجود ہے لیکن شاید ہم نے
صرف ِ نظر کیاہوا ہے یا پھر ہم منافقت کا شکارہیں غورو فکرکریں تو یقینا دل
و دماغ روشن ہوجائے اور ہمیں اپنے سوالوں کا جواب بھی مل سکتاہے اسی لئے تو
علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ ِ زندگی
لیکن بیشتر اپنے من میں ڈوبے بغیر زندگی کے تلخ حقائق جاننا چاہتے ہیں یہ
سراسر خودفریبی ہے، اپنے آپ سے منافقت ، دھوکہ ہی دھوکہ انسان اگر سوچے تو
سوچتا رہ جائے ۔درویش نے اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائی مسکراتے ہوئے کہا ہم
جس ملک رہتے ہیں اس میں کئی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں جہاں ہرسال
لاکھوں،کروڑوں افراد تبلیغی اجتماعات میں جاتے ہوں، الحمداﷲ ہرسال لاکھوں
افرادحج کی سعادت حاصل کرتے ہیں،عیدمیلادالنبی ﷺ کروڑوں لوگوں کا جوش و
خروش دیدنی ہوتاہے نعت خوانی کی روح پرور ہزاروں محافل میں شہرشہر
لاکھوں،کروڑوں مسلمان شرکت کرتے ہوں،دروس ِ قرآن کی روزانہ لاکھوں، ہر شہری
اپنے مذہب کے مطابق عبادات بھی کرتا ہوگا آپ کے سامنے روحانی شخصیات کا
کردار بھی موجود ہے آپ میں سے اکثر ان کی مثالیں بھی دیتے ہیں ہمارے چاروں
اطراف سینکڑوں ہزاروں مسجدیں ،مندر ،گوردوارے ، اولیاء کرام کے مزارات
موجودہیں لیکن ایک کڑوا سچ کوئی قبول کرنے کو تیارنہیں ہرشخص خود اچھا بننے
کی بجائے دوسروں کو درست کرنے کا ٹھیکہ لے رکھاہے ۔ درویش نے کہا ذرا انپے
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خودسے سوال کریں
کیاہم میں اکثررشوت کا لین دین نہیں کرتے حالانکہ آپکو معلوم ہے کہ یہ بری
چیز ہے صرف مسلمانوں میں ہی رشوت حرام نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں اس کو
برا خیال کیا جاتاہے ہم سب سمجھتے ہیں رشوت حرام ہے لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی
مروج ہوگئی ہے اب سوچتے ہیں اس سے چھٹکارا کیونکرکیسے ممکن ہے ؟ رشوت کو دل
ہی دل میں ہر شخص برا سمجھتاہے لیکن رشوت کے پیسوں خریدے جانے والے قربانی
کے بکرے کے متعلق کیا فتویٰ ہے ؟درویش نے کہا یا پھر حرام کی کمائی سے
خریدی جانے والی حلال اشیاء کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ہمارے ارد گرد نہ
جانے کردار اچائے کی پتی میں رنگ ملاکربھینس یابیل کی کلیجی ڈرائی کرکے مکس
کرنے اعلیٰ درجے کی چائے کی پتی بنانے کر مال کمانے والے موجود ہیں چلیں یہ
بتائیں درویش نے آہ بھر کرپوچھا بجلی کے 500 یونٹ کو 1500 یونٹ لکھنے والا
میٹر ریڈر…… خالص گوشت کے پیسے وصول کرکہ ہڈیاں،چھچھڑے بھی ساتھ تول دینے
والا قصائی...یاپھر خالص دودھ کا نعرہ لگا کر پانی اور پاوڈر کی ملاوٹ کرنے
والا گوالا۔۔ گاڑی کے اوریجنل سپیئر پارٹس نکال کر دو نمبر لگانے والا
مستری…… اﷲ کے مقدس ناموں سے تعویذ بنا کر اسکو بیچنے والا عامل ۔۔ گھر
بیٹھے حاضری لگوا کرحکومت سے تنخواہ لینے والا مستقبل کی نسل کا معمار
استاد.. کم ناپ تول کرکہ دوسروں کا حق کم کرکے پورا پیسہ لینے والا
دکاندار۔۔معمولی بیماری کے باوجود کمیشن کی لالچ میں مریض ہزاروں کی دوا
لکھنے والا ڈاکٹر۔۔ نارمل ڈیلیوری کو پیسوں کی حاظر اپریشن کے نام پر
چیرپھاڑ کرنی والی لیڈی ڈاکٹر یا پھر معمولی سی رقم کے لیے سچ کو جھوٹ اور
جھوٹ کو سچ ثابت کرنیوالا وکیل…… ہم کس کس کا رونا روئیں گے ؟ کس سے
دادفریاد کریں سوچو ۔۔گھریلو سواد سلف لانے والا ملازم یا پھر پیسے انٹی
کرنے والا گھرکا کوئی فرد ۔ قومی خزانہ لوٹ لوٹ کر دولت کے پہاڑ اکھٹے کرنے
والے حکمران۔اپنے آفیسر کے لئے رشوت کے پیسے پکڑنے والا معمولی سا
چپڑاسی...یاکھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کر کے ملک کا نام بدنام
کرنیوالا کھلاڑی ۔۔ دشمن ملک میں شہرت اور دولت کی خاطر ملک کی عزت خاک میں
ملانے والا اداکار اور گلوکار۔۔۔یا کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی
سڑک بنانے والے ارکان ِ اسمبلی یالاکھوں غبن کرکے واٹر فلٹریشن پلاٹ لگانے
والی کمپنی.. لاکھوں رشوت لے کر ترقیاتی کام کرانے والا ضمیر فروش بلدیاتی
نمائندہ یا پھر فاحشہ کی کمائی میں رزق ِ حلال تلاش کرنے والا منحوس
دلال... زمینوں کے حساب کتاب و پیمائش میں کمی بیشی کرکے اولادکو کروڑ پتی
بنانے والا حرام خور پٹواری، جاہل مولوی یااپنے قلم کو بیچ کر پیسہ کمانے
والا ضمیرفروش صحافی…… کسی دوسرے کا چوری کا پانی لگانے والا زمیندار
ہویاپھر ملٹی نیشنل کمپنی کی دواء کے پیسے لے کر لوکل کمپنی کی دوا دینے
والے فارماسسٹ کس کس کی بات کریں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کوئی
اصلاح ِ احوال کی صورت نظرنہیں آتی ہر شخص دوسروں کو برا کہتاہے لیکن یہ
کتنی خوفناک بات ہے کہ وہ خوداچھا بننے کی کوشش نہیں کرتا یہی خودفریبی
اورمنافقت ہے جس کے سبب دعائیں قبول نہیں ہوتیں یادرکھو! درویش نے اپنے ارد
گرد بیٹھے لوگوں پر نظردوڑائی پھر بڑی متانت سے کہا تنقید انتہائی آسان ہے
ایک تاثرعام ہے رشوت صرف پولیسلیتی ہے، ڈاکٹروں کے دل میں رحم نہیں،عدالتوں
میں انصاف نہیں،ناجائز منافع خوروں نے لوٹ مار مچارکھی ہے۔۔درویش نے کہا سب
کا کہا بجا، آپ جو کہیں سر تسلیم ِ خم ہے،کسی کو جھوٹا کہنا بھی مناسب بات
نہیں لیکن کبھی ہم نے اپنے ضمیر میں جھانک کر بھی دیکھاہے ،کبھی سوچا ہے کہ
ہم خود کہاں کھڑے ہیں.. ؟؟ ہمارے قول وفعل میں تضادکتناہے ؟ دل چاہتاہے ہم
سب ایک دوسرے کو برا کہنا ،برا سمجھنا ترک کریں آج سب کے لئے مشورہ ہے کہ
ہرشخص خودکااحتساب کرے اچھا بننے کی ابتدا اپنے آپ سے کریں کسی کو وعظ و
تلقین کی بجائے اپنے عمل و کردار کا ایسا مظاہر ہ کیا جائے کہ دوسرے
متاثرہوں یہ تبدیلی کا نقطہ ٔ آغازہوگا اس پریہ درویش بھی عمل کرنے کا وعدہ
کرتاہے بس اگر ہم سب یہ چھوٹا سا پیغام عام کردیں تو معاشرہ میں اس کے حیرت
انگیز اثرات مرتب ہوں گے تاریکی دورکرنے کے لئے چراغ جلانا ہی پڑتاہے آپ
اپنے حصے کا چراغ جلاکر نتائج قادر ِ مطلق پر چھوڑ دیں تاریکیاں چھٹ جائیں
گی کیونکہ روشنی کی ایک کرن ہی تاریکی کا سینہ چیرکررکھ دیتی ہے۔
|