منجمد شدہ اثاثوں کی تقسیم ۔عوام کے ساتھ ناانصافی
افغانستان میں طالبان کی اگسٹ 2021میں دوسری مرتبہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے
بعدامریکہ نے اس کے تمام اثاثوں کو منجمد کردیا تھا جس کی وجہ سے افغانستان
میں معاشی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک
نے جس طرح بیس سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد راتوں رات افغانستان چھوڑ کرچلے
گئے اور افغان صدر اشرف غنی نے بھی ملک سے فرار ہوکر افغان عوام کو بے
یارومددگار چھوڑ دیا تھا جس کے بعد طالبان جو ملک کے تقریباً تمام حصوں میں
اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے کابل کی طرف بڑھ رہے تھے انہیں کابل میں
بغیر خون خرابے کے اقتدار حاصل ہوگیا۔طالبان کی جانب سے اقتدار پر دوبارہ
قبضہ امریکہ اور دیگر کئی عالمی طاقتوں کے لئے صدمے کا باعث بنا۔ کیونکہ
دشمنان ِاسلام نہیں چاہتے کہ افغانستان میں پھر سے اسلامی اقدارقائم ہوجائے
اور ملک میں شریعت کے مطابق قانون نافذ ہو۔ امریکہ نے طالبان کے قبضے کے
بعدعالمی امداد روک دی گئی تھی اور بیرون ملک اربوں ڈالر کے اثاثوں کو جو
امریکہ میں تھے اسے منجمد کردیا گیا تھا ۔ عالمی سطح پر افغانستان کی مدد
کے لئے اقوام متحدہ نے درخوست کی جس کے بعد کئی ممالک نے افغان عوام کیلئے
امداد کا دوبارہ آغاز کیا۔ امریکہ نے بھی افغانستان کے منجمد شدہ اثاثوں کو
دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کسی حد تک افغان عوام کیلئے راحت فراہم کی ہے۔
امریکہ کو چاہیے تھاکہ وہ تمام منجمد شدہ اثاثوں کو طالبان انتظامیہ کے
حوالے کرکے ملک کے حالات کو بہتر بنانے میں طالبان کا تعاون کرتا۰۰۰ذرائع
ابلاغ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک انتظامی حکم نامے (ایگزیکٹیو
آرڈر) پر دستخط کردیے ہیں جس کے تحت امریکہ میں منجمد شدہ افغانستان کے سات
ارب ڈالر کے اثاثوں سے افغان عوام کو انسانی امداد اور 11؍ ستمبر کے
متاثرین کو معاوضہ دینے کیلئے ایک ٹرسٹ بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر کے دستخط کردہ
حکم نامے میں امریکی مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان
کی امداد اور بنیادی ضروریات کیلئے ساڑھے تین ارب ڈالر تک رسائی فراہم
کریں۔وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈر افغانستان کے
عوام تک فنڈز پہنچانے کے لئے ایک راستہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے
تاکہ انہیں طالبان اور خراب افراد کے ہاتھوں سے دور رکھا جائے۔‘افغانستان
کی طویل عرصے سے مشکلات کا شکار معیشت طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے
دم توڑ رہی ہے۔گذشتہ افغان حکومت کا تقریباً 80 فیصد بجٹ عالمی برادری کی
طرف سے آتا تھا۔ وہ رقم جو اب کٹ گئی ہے، ہسپتالوں،ا سکولوں، فیکٹریوں اور
حکومتی وزارتوں کی مالی اعانت کیلئے استعمال ہوتی تھی۔بنیادی ضروریات کی
کمی کی وجہ سے پیدا کردہ مایوسی کو کورونا وائرس، طبی امداد میں کمی، خشک
سالی اور غذا کی کمی نے مزید بڑھا دیا ہے۔امریکی حکام کے مطابق امریکہ کی
عدالتوں میں جہاں 9/11 کے متاثرین نے طالبان کے خلاف دعوے دائر کیے ہیں
انہیں بھی متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کیلئے کارروائی کرنا ہوگی۔جوبائیڈن
انتظامیہ کے دو سینئر افسران کے مطابق یہ حتمی طور پر عدالتوں کا فیصلہ
ہوگا کہ کیا حکومت کی جانب سے ٹرسٹ کے ذریعے متاثرین کیلئے مخصوص کیے گئے
ساڑھے تین ارب ڈالر پر ان کا حق ہے کہ نہیں۔دوسری جانب طالبان کے سیاسی
ترجمان محمد نعیم نے افغانستان کو تمام فنڈز جاری نہ کرنے پر جوبائیڈن
انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ’ ’ریاست
ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے افغان قوم کے منجمد شدہ فنڈز کی چوری اور (ان
فنڈز) کو ضبط کرنا ایک ملک اور قوم کی جانب سے انسانیت کی پست ترین سطح کو
ظاہر کرتا ہے۔‘‘
پاکستان، طالبان کو اکیلے تسلیم کرکے عالمی تنہائی نہیں چاہتا۔ عمران خان
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے
سے پاکستان اگر تنہا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو پاکستان پر دباؤ آئے گا اور ہم
عالمی تنہائی نہیں چاہتے۔15؍ فبروری منگل کو فرانسیسی صحافی کو انٹرویو
دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے اردگرد تمام
ملکوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے اور ہم ان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ قدم
اٹھانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ہماری توجہ کا مرکز اس وقت معیشت ہے اور
معیشت کو اسی صورت اوپر لے جا سکتے ہیں جب ہمارے دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات
ہوں۔‘وزیراعظم کے مطابق ’آخری چیز جو ہم نہیں چاہیں گے وہ عالمی تنہائی
ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر ہم تقریبا چار کروڑ افغان عوام کی فلاح بہبود چاہتے
ہیں تو ہمیں حکومت کو جلد یا بدیر تسلیم کرنا ہوگا۔’طالبان کو تسلیم کرنے
کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ جامع حکومت ہونی چاہیے۔‘
’طالبان نے انسانی حقوق اور جامع حکومت کا وعدہ کیا ہے لیکن سوال یہ ہے
طالبان ایسا کیا کریں جس سے دنیا مطمئن ہو۔ طالبان دونوں شرائط پر راضی
ہیں۔‘
مسئلہ کشمیر اور ہندو پا ک تعلقات
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تعطل کا شکار
ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران نے دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان اصل مسئلہ کشمیر
کا ہے۔‘’اس وقت ہمارے درمیان کوئی رابطہ نہیں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ
ایک تعطل کی سی کیفیت ہے۔‘ ’5؍ اگست کو 2019 کو انڈیا نے یکطرفہ طور پر
کشمیر کی حیثیت تبدیلی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منقطع ہیں۔
‘عمران خان نے کہا کہ ’ہندوستان کو کشمیر کی حیثیت بحال کرنا
ہوگی۔‘ہندوستان کی موجودہ حکومت کے سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ ’انڈیا میں
ایک ایسی حکومت ہے جس کے نظریہ کی بنیاد نفرت پر مبنی ہے۔‘عمران خان نے کہا
کہ ’انڈیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے درمیان اصل مسئلہ کشمیر کا ہے۔‘اس
طرح وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہندوپاک تعلقات کومسئلہ کشمیر سے جوڑا
ہے اب دیکھنا ہیکہ ہندوستان اس سلسلہ میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا
مسئلہ کشمیر اور ہندو پاک تعلقات کے سلسلہ میں کیا جواب دیتا ہے۰۰۰
عمران خان کا دورہ روس۰۰ ۰
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس ماہ کے آخر میں دو روزہ دورے پر روس کے
شہر ماسکو روانہ ہونگے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایاجاتا ہیکہ یہ پاکستان کے
کسی بھی وزیر اعظم کا 23سال بعد روس کا پہلا دورہ ہوگا۔ عالمی سطح پر کئی
ممالک کے تعلقات سوپر پاور ممالک سے کہیں بہتر ہورہے ہیں تو کہیں سرد مہری
کی طرف جارہے ہیں۔ پاکستان کے تعلقات بھی روس کے ساتھ ماضی میں سرد مہری کا
شکار تھے ۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق ’’وزیر اعظم
عمران خان کا دورہ روس دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اہم سنگ میل ثابت
ہوگا۔ اس دورے کے دوران شمال جنوب گیس پائپ لائن سمیت دیگر معاہدوں میں
پیشرفت کے امکانات ہیں‘‘۔شاہ محمود قریشی نے مزید کہاکہ ’’خطے کے امن و
استحکام میں روس کا اہم کردار ہے، روس کی افغانستان کے معاملات میں دلچسپی
ہے یقینا وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس میں افغانستان کے معاملے پر بھی
بات ہوگی۔ اس کے علاوہ علاقائی روابط کو فروغ دینے کے حوالے سے تعاون
بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال ہوگا‘‘۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ پاکستان اور
روس کے درمیان تعلقات ماضی میں سردمہری کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان اور چین
کے درمیان تعلقات دوستانہ ہیں اور اس میں وزیر اعظم عمران خان مزید وسعت
دینے کی کوشش کررہے ہیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی روس کے ساتھ تعلقات بہتر
بنانا سمجھا جارہا ہے کیونکہ ایک طرف یوکرین کے مسئلہ پر روس اور امریکہ کے
درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں تو دوسری جانب چین اورروس امریکہ سے
سبقت لیجانے کی کوشش میں ہیں۔ روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے سلسلہ
میں سابق سیکریٹری خارجہ پاکستان شمشاد احمد کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کو کبھی
کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ایک دفعہ ہم نے ایک بلاک میں شامل ہوکر
بھگت لیا ہے، جب ہم نئے نئے آزاد ہوئے تھے اور اپنے وجود کو یقینی بنانے
کیلئے مغرب کا اتحادی بننا پڑگیا تھا اور اس کی پاکستان نے بھاری قیمیت
چکائی ہے‘‘۔ شمشاد احمد کے مطابق ’’یہ ایک غلط سوچ ہے کہ روس کے ساتھ
تعلقات بہتری سے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونگے اور اس بارے میں پاکستان
کو ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ کسی تیسرے ملک کی پالیسی کو دیکھ کر اپنی
خارجہ پالیسی نہیں بنانی ہوگی اور ہمیشہ پاکستان کی خارجہ پالیسی متوازن
رہی ہے‘‘۔ہر ملک اپنے مفادات کے لئے دوسرے ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی
سعی کرتا ہے اسی طرح پاکستان بھی روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش
کررہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ موجودہ حالات میں امریکہ
اور روس کے درمیان اگر یوکرین کے مسئلہ پر دشمنی بڑھ جاتی ہے اور امریکہ
روس پر خدانخواستہ حملہ کردیتا ہے تو اسکا خمیازہ عالمی سطح پر ہوگا اور
کوئی ملک یہ نہیں چاہتا کہ ان دونوں کی وجہ سے انکے مفادات کو نقصان پہنچے
اسی لئے موجودہ حالات میں ہر ملک عالمی طاقتوں سے بہتر تعلقات بنائے رکھنے
کی کوشش میں ہے اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھی مستقبل پر نظر رکھ کر
روس کے ساتھ بہتر تعلقات اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعہ دونوں ممالک کے
درمیان تعاون کو فروغ دینیکوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔اب دیکھنا ہیکہ امریکہ
پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کو کس نظر سے دیکھتا ہے ۰۰۰
رجب طیب اردغان کا دورہ یو اے ای۔ دونوں ممالک کے لئے بہتری کا سبب
ترک صدر رجب طیب اردغان کے متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے سے دونوں
ممالک کے تعلقات میں نئے دور کا آغاز ہونے کی توقع ہے اور حالات معمول پر
لانے کی کوششوں سے خطے میں مزید استحکام آئے گا۔عرب نیوز کے مطابق صدر طیب
اردغان کا یہ دورہ ترکی کی جانب سے2013 کے بعد پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔
اس عرصہ میں دونوں ممالک کئی بحرانوں سے گزرے ہیں جو کہ علاقائی تنازعات
اور مشرقی بحیرہ روم میں گیس کی تلاش سے منسلک تھے۔دونوں ممالک کے دوبارہ
تعلقات سے خلیجی تیل کا برآمد کنندہ ترکی کے ساتھ تجارتی حجم کو دوگنا یا
تین گنا بڑھانے اور لاجسٹک سپورٹ سے باقی دنیا کی منڈیوں تک پہنچنے کا
ارادہ رکھتا ہے۔ترک صدر رجب اردوغان نے اپنے اس دورے سے ایک روز قبل امارات
کے اخبار خلیج ٹائمز کیلئے مضمون بھی لکھا ہے جس میں ترک صدر نے علاقائی
امن، استحکام اور خوشحالی کے حصول کیلئے دو طرفہ تعاون کو مضبوط کرنے کی
اہمیت پر زور دیا ہے۔صدر اردوغان نے مضمون میں کہا ہے کہ ترکی موسمیاتی
تبدیلی کے علاوہ پانی اور خوراک کی حفاظت جیسے مختلف پہلوؤں پر تعاون کو
فروغ دینا چاہتا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ سال نومبر کے آخر میں ابوظبی کے ولی
عہد شہزادہ محمد بن زاید نے انقرہ کا دورہ کیا تھا جو نو سال بعد امارات کی
جانب سے اعلی سطح کا دورہ تھا۔ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید کے اس دورہ کے
دوران متحدہ عرب امارات نے ترکی کے توانائی اور صحت کے شعبوں میں سٹریٹجک
سرمایہ کاری کیلئے 10 ارب ڈالر کا فنڈ مختص کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں
ممالک نے کئی سیکیورٹی، اقتصادی اور تکنیکی معاہدوں پر بھی دستخط بھی کئے
تھے۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق خطے میں متحدہ عرب امارات علاقائی طاقت کے
طور پر ابھرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل کے ساتھ
سفارتی تعلقات قائم ہوچکے ہیں تو دوسری جانب ترکی کے ساتھ تعلقات نے سعودی
عرب کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سلسلہ میں
برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ فیلو سیموئل رمانی
کا خیال ہے کہ ترکی اور متحدہ عرب امارات علاقائی رقابتوں کو کم کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں۔سیموئل رمانی کا کہنا ہے کہ یو اے ای کے ساتھ کشیدگی کم
کرنے کی ترکی کی کوششیں سعودی عرب اور اسرائیل کے حوالے سے اس کے نقطہ نظر
کی آئینہ دار ہیں۔سیموئل نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات خود کو علاقائی
طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے
فوجی طاقت کے بجائے سفارت کاری اور اقتصادی طاقت پر انحصار کرتا ہے۔ واضح
رہے کہ صدر رجب اردغا ن کی دبئی آمد سے قبل برج خلیفہ ترکی کے پرچم سے
جگمگا اٹھا اور اس کے پس منظر میں ترکی کا قومی ترانہ سنائی دے رہا تھا۔
***********
|