اہل اسلام کے لیے دین اسلام اللہ تبارک و تعالیٰ کی سب سے
بڑی نعمت کے ساتھ ساتھ اہم ترین امانت بھی ہے ۔ امانتداری کی بابت ارشادِ
ربانی ہے :’’ اورجو اپنی امانتوں اورعہد و پیمان کا لحاظ رکھتے ہیں‘‘۔ دین
اسلام کے اندر امانت و عہد کی اہمیت کا اندازہ حضرت انس ؓ کی اس روایت سے
لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ہر تقریر میں یہ بات ضرور ارشاد
فرماتے کہ:’’خبر دار رہو، جس میں امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جو
عہد کا پابند نہیں اس کا کوئی دین ہیں‘‘۔ یعنی ان صفات سے بےپروائی دین و
ایمان سے محرومی ہے۔ اس جہانِ فانی میں جہاں چہار جانب دھوکہ اور فریب کے
بادل منڈلاتے ہیں انسان کچھ ہی لوگوں پر اعتماد کرکےحفظ و امان کی خاطر
اپنی امانت ان کے پاس رکھتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کی امانتداری کا یہ عالم تھا
کہ دشمنانِ اسلام بھی آپ ﷺ کے پاس امانت لاکر رکھتے تھے ۔ انسانی معاشرے
میں عاشقانِ رسول ﷺ کی بھی یہی شبیہ ہونی چاہیے ۔
امانت کا دائرہ صرف ان امانتوں تک محدود نہیں ہے جو انسان ایک دوسرے کے پاس
رکھتے ہیں بلکہ اس سے مراد وہ امانت بھی ہیں جو اللہ تعالی نے بندوں کے
سپرد کی ہے۔ارشادِ قرآنی ہے:’’اے رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب
سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا)
نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں‘‘۔نبی کریم ﷺ کو اس
امانت کا کس قدر پاس و لحاظ تھا اس کا اندازہ خطبۂ حجتہ الوداع کے اس حصے
سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا
ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے
اور وہ ہے اللہ کی کتاب‘‘۔ اس امانت کی جوابدہی کی بابت ارشادِ رسول ؐ
ہے:’’ اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے‘‘؟اس
سوال کے جواب میں وہاں موجود صحابہ نے بیک آوازکہا: ’’ہم شہادت دیتے ہیں
کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا‘‘۔اس
گواہی کو سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھاکرتین بار فرمایا:
اے اللہ گواہ رہ۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ آپؐ کے رب کی طرف آپ ﷺکی وصیت
تھی کہ :’’ دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے۔ دیکھو میرے
فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تم نے حق رسالت ادا نہیں کیا، پھر اس کی
جو سزا ہے وہ ظاہر ہے، اگر ایک آیت بھی چھپالی تو حق رسالت ادا نہ ہوا‘‘۔
اس طرح امانتداری کا دائرہ وسیع ہوکر امت تک پھیل جاتا ہے ۔ قرآن حکیم میں
بندۂ مومن اس حق کی ادائیگی کے لیے دعا سکھائی گئی ہے کہ : ’’اے ہمارے
ربّ! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لائے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی)
گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے‘‘۔حضرت عبد اﷲ ابن عباس ؓ کی تفسیر کے
مطابق اِس سے مراد محمد مصطفی ﷺ اور اُن کی اُمت کے ساتھ لکھ دے ۔ بے شک وہ
آپ کے لیے اور اُس شخص کے لئے بھی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے
احکام پہنچا دیئے۔
شہادت علی الناس تو امت کی ایک اجتماعی امانت ہے کیونکہ ارشادِ حق
ہے:’’تاکہ تم لوگوں پر اللہ کے دین کی گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر
گواہی دینے والا بنے ‘‘ لیکن دعوتِ دین کے علاوہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ
کی عطا کردہ تمام قوتیں ، صلاحیتیں اور اسباب و وسائل بھی ہیں ۔ ارشادِ
قرآنی ہے: ’’یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (تم سے) بازپرس کی
جائے گی‘‘۔ ہر فردِ بشر اللہ تعالیٰ کی جن نعمتوں سے بہرہ مند ہے ان سب کی
حیثیت بھی امانت کی سی ہے کیونکہ بروزِ قیامت اس بات کا بھی احتساب ہوگا کہ
ان کے استعمال میں کوئی خیانت تو نہیں سرزد ہوئی ہے؟ اور اگرخدا نخواستہ
کوتاہی پائی گئی تو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی ۔ ارشادِ ربانی ہے:’’ پھر اس
دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا‘‘۔ یعنی ہر انسان کو یہ
بتانا ہوگا کہ اس نے ان نعمتوں کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے خرچ کیا تھا؟
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو یوم الحساب کی رسوائی سے محفوظ فرمائے۔
|