حنا ربّانی کھر کی ہندوپاک کے
درمیان خلیج کو پاٹنے کی خاطر بھارت میں آمد یقینا امن کی ایک نئی آرزو ہے۔
یہ اس خطہ کے عوام کے خواہشات کے عین مطابق ہے۔ وہ پاکستانی عوام کی محبت
اپنے ساتھ لائی ہیں ۔ یا پھر ان کو کسی نئی سیاسی حکمت کے تحت یہاں بھیجا
گیا ہے؟یہ راز تو بعد میں فاش ہوگا۔ فی الوقت ہندوپاک کے درمیان نفرت سے
بھری دیوار کو گرانا دونوں ملکوں کے حکمرانوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ مگر بڑی
طاقتیں دونوں ملکوں میں پُر امن ماحول کی خفیہ دشمن ہیں۔ ملکوں میں نفرتیں
پیدا نہیں ہوتی ہیں بلکہ کی جاتی ہیں۔اور کرائی جاتی ہیںمشاہدہ کیا جائے تو
بڑی طاقتیںبظاہرترقی پذیرو کمزورملکوں کی دوست نظر آتی ہیں۔مگر وہ درحقیقت
ہوتی ہیں ان کی خفیہ دشمن۔ وہ پُر امن ماحول کو بگاڑ نے کا حصہ ہوتی ہیں۔
وہ امن کو پُرتشد د ماحول میں تبدیل کرنے کاخوبصورت ہنر رکھتی ہیں۔وہ دو
ملکوں کی باہمی دوستی کی آرزو کو کچلنا اچھی طرح جانتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتی
کہ اس خطہ یا کسی بھی ملک کی فضا ءخوشگوار ہو۔اور وہاں کے ماحول میں خوش
نمائی آئے۔حالانکہ ہندوپاک میں حنا و کرشنا کی ملاقات سے امن لانے کی کوشش
کی جارہی ہے۔ مگر دوسری طرف اس خطہ میں امن دشمن ۔بدامنی کے فروغ کا حصہ
بنتے ہیں۔کشمیرمیں ابوجہل کے خاندان کے لوگ جن کو اب حریت کانفرنس کے نام
سے جاناجاتا ہے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ اس خطہ میں امن ہونے کی بات سامنے
آرہی ہے۔۔ تو انہوں نے حنا ربانی کھر سے ملاقات کیلئے پاکستان کے سفارتی
دفتر میں تشریف لاکر امن پر خنجر زنی کا پروگرام بنایا۔ انہوں نے اس خطہ
میں امریکہ کے مفاد کی خاطر کشمیری عوام کے فریق اول ہونے کی دلیل دے کر
”حنا۔کرشنا“ ملاقات پر عملاً حملہ کردیا۔ کیونکہ امریکی انتظامیہ نے حریت
کانفرنس کو رائے شماری کا امریکی خنجر پکڑا رکھا ہے۔کسی بھی ملک کی مجموعی
طاقت کو کچلنے کیلئے رائے شماری کے امریکی خنجر سے وار کیا جاتا ہے۔ ملکوں
کے حصوں کو آزادی کے جھانسے میں پھانسہ جاتا ہے۔ یا اس پر زبردستی آزادی
تھوپی جاتی ہے۔ ابھی سوڈان کی مجموعی طاقت کو کچل کر اس کو شمال اور جنوب
میں تقسیم کرکے ایک نئے ملک کو وجود میں لاکر اس پر اس کے مجموعی عوام پر
حملہ کیا گیا۔ان پر ظلم ستم ڈھایا گیا۔ اقوام متحدہ نے اس کے ایک حصہ کو
ملک بناکر اس کا نیا جھنڈا۔ اپنے دفتر پر آزادی کے نام پر لٹکا کر ان کی
جان نکال دی۔ ملکوں کے حصوں کو آزادی کے نام پر کمزور کرنے کی تحریک ابھی
بھی جاری ہے۔ رائے شماری کا امریکی خنجر پکڑنے والے اپنے ملک میں رائے
شماری کے جمہوری پرچم کو تھامنے سے گریز کرتے ہیں۔ جیسے کشمیر میں ہر پانچ
سال بعد انتخاب ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے ۔ مگر دعویٰ کرتے
ہیں۔ کہ ان کو پورے کشمیر ی عوام کی حمایت حاصل ہے۔کشمیری عوام کی دشمن
جماعت حریت کانفرنس کو ان کے بیرونی محسنوں نے ایک یہودی مشن اس ملک کو اور
یہاں کے عوام کو کمزورکرنے کیلئے دے رکھا ہے۔” کہ کشمیر کو آزادی کا پنجرہ
بناﺅ ، اس میںتمام کشمیریوں کو قید کرو، اور پھر اس آزادی کے پنجرے کو
اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکادو“ اس کیلئے کشمیری عوام کی خون ندیاں بہائی
جاتی ہیں۔ جس میں حریت کانفرنس کے لیڈر غسل کرتے ہیں۔ جہاں جہاں رائے شماری
کے امریکی خنجر سے ملکوں کو آزادی دلائی گئی ہے۔ وہاں کے لوگ ملکوں میں سے
بنائے گئے چھوٹے چھوٹے نئے ملکوں میں قیدی کی مانند زندگی گذار رہے ہیں۔
تازہ سوڈان کے حالات کا مشاہد ہ کیا جائے۔ کہ ایک سوڈانی پہلے شمال و جنوب
مشرق و مغرب میں آزادی سے گھوم سکتا تھا۔ مگر رائے شماری کے امریکی خنجر سے
ایک ایسا جادو چلایا گیا۔ کہ آدھے سوڈانیوں کو ایک جنوبی حصہ میں قید کردیا
گیا۔جو کہ بڑا تکلیف دہ عمل تھا۔بڑنے ممالک کی ہر ایک مجموعی و متحد ملک کی
طاقت کو توڑنا اس کی گھناﺅنی فطرت ہے۔ اوراس کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اس کی دیرینہ کوشیش ترقی پذیر ملکوں کے لوگوں کو آزادی میں الجھا کر ان کے
اپنے ہی ملک کو توڑنے کی حکمت عملی میں لائی جاتی ہے۔ ان کی اس حکمت عملی
کوبچشم سوڈان میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔کشمیرمیں ابو جہل کے قافلہ کی مہم
رائے شماری کے امریکی خنجر سے چلائی جارہی ہے۔وہ مہم کشمیرمیں اگر کامیا ب
ہوئی تو کشمیری ۔کشمیر کی چار دیواریوں میں قید ہوکے رہ جائیں۔ جبکہ وہ
کشمیری آج ہندوستان کی 26 ریاستوں میں آزادی سے گھومتے ہیں۔ اوراپنی مرضی
کہیں بھی آجا سکتے ہیں۔ مگر بیرونی ملکوں کیلئے کام کرنے والوں کو کشمیر ی
عوام کی یہ کشادہ آزادی پسند نہیں۔کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بنانے کی خاطر
ابوجہل قافلہ کے قدیم سپہ سالار میر واعظ عمر فاروق نے پاکستان کی نئی وزیر
خارجہ حنا ربّانی سے ان کی ہند آمد پر ملاقات کرکے ان کی امن پسند تحریک پر
حملہ کردیا۔ حریت کانفرنس کی اس خطہ میں چالائی جارہی تحریک نہ صرف کشمیری
عوام سے غداری بلکہ ملک سے اور مذہب سے بھی غداری ہے۔ ان غداروں نے اپنی
مہم کو کامیاب بنانے کیلئے ایک لاکھ سے زائد مذہبی مسلمانوں کا قتل اپنی بد
عمل تحریک و حکمت ِعملی سے کرا یا کشمیریوں کا قتل عام کرانے کیلئے سیکورٹی
فورس کو مذکورہ مقصد کے مد نظر مشتعل کیا اتنی تعداد کی ہلاکت کے بعد بھی
ان لوگوں کی خونی پیاس ابھی تک نہیں بھُجی یہ لوگ بیرونی مفاد کیلئے کچھ
بھی کرسکتے ہیں کشمیر میں جاری تشدد آمیز ی سے لاکھوں کشمیری۔ کشمیر سے
ہجرت کرگئے۔ وہ ہندوپاک کے تمام صوبوں میں جاکر پناہ گزیں ہوگئے۔ ان
کشمیریوں کی حالت یہ ہے۔ ابوجہل کے لوگوں نے تقیسم ہند کے ساٹھ سال کے عرصہ
میںتمام کمزور کشمیریوں کو جاہل بناکر رکھ دیا ہے وہ آج ان صوبوں میں ہاتھ
ٹھیلہ ، رکشا ، سروں اور کندھوں پر سامان کو بوجھ ڈھوکر اپنے زندگی کے
ایّام پورے کررہے ہیں اگر حریت پسند لوگ کشمیرکو آزادی کا پنجرہ بنانے میں
کامیاب ہوگئے۔ تو پھرکشمیر کے اس آزادی کے پنجرے میں ہاتھ ٹھیلے، رکشے ،
سروں و کندھوں پرسامان اٹھائے لوگوں کی بھیڑ ہی بھیڑنظر آئے گی۔ غداران وطن
کا یہ خواب کب پورا ہوگا ۔اس کی پے شن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ابوجہل قافلہ
کے قدیم سپہ سالار میر واعظ عمر فاروق کشمیر کے تئیں یہودیوں سے زیادہ
خطرناک ہیں۔ میر واعظ یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ کہ وہ کشمیر ی عوام کے تنہا
نمائندے ہیں۔اور ان کو عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ مگروہ انتخاب کے جمہوری عمل
میں شرکت سے گزیر کرتے ہیں۔ اب اس میں ملک ایک اور خطرناک شخص نمودار ہوا
ہے۔ وہ بھارتءعوام کیلئے خطرناک وغدار وطن ۔ انّا ہزارے ہے۔ یہ شخص بھی اور
ان کی ٹیم قومی پرچم اٹھا کر اس پرچم کی توہین کررہی ہے۔ اور بھولے بھالے
عوام کو گمراہ کررہی ہے۔ کہ کرپشن اور کالے دھن کا شور مچاکر باشندگان ہند
کو بدنام کررہی ہے۔ دنیا کے تمام ملک اور وہاں کے عوام اس تماشہ کو دیکھ
رہے جیسے پورے بھارت کا عوام ہی کرپشن اور کالے دھن کا شکار ہے۔ اس ملک
کاسب سے خطرنا ک یہ شخص دعویٰ کرتا ہے۔ کہ اس کے ساتھ ملک ایک ارب بیس کروڑ
لوگ ہیں۔ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ہے۔ تو ان کو ایک سیاسی جماعت تشکیل دے
دینی چاہئے۔ ان کو اپنے بینر پر انتخاب لڑکر اقتدار میں ہونا چاہئے۔ اور
پھر تمام کرپشن و وکالے دھن میں ملوث لوگوں از خود بے نقاب کرنا چاہئے مگر
وہ ایسا نہیں کریں۔ وہ تو صرف فری فنڈ میں بھارت کے نئے مہاتما گاندھی بننے
کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ بغیر جہدو جہد کئے ان کا کام پورا ہورہا ہے۔ تو
دوسرے لوگوں کے فائدے کیلئے کام کیوں کریں گے۔ ہندوستان کا مکار ، غدارِ
ہند انّا ہزارے کو ان کی ٹیم ایک مکھوٹے کے طور پر استعمال کرکے خوامخواہ
اپنی پہنچان بنارہی ہے ۔ ایسے نااہل لوگوں سے اہل وطن کو ہوشیار رہنا چاہئے۔
اب تو وہ بھی اپنے ہاتھ میں رائے شماری کا امریکی خنجر لہرانے لگے ہیں۔ جو
کام حریت والے کررہے تھے۔ وہی کام اب انا کی ٹیم کررہی ہے۔ دونو ں میں کوئی
فرق نہیں دونوں ہندوستانی عوام کے بدترین دشمن ہیں۔ جن سے ہوشیار رہنے کی
ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ بات چیت گریز کیا جائے ان کا عوامی سطح اور حکومتی
سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔تو زیادہ بہتر ہوگا۔ محب وطن ہر اس شخص کاخیر مقدم
کریںگے۔جو ان کابائیکاٹ کرے گا۔کیونکہ جس طرح سرزمین ہند میں حریت کانفرنس
بدامنی پھیلاتی ہے۔ انّا کی ٹیم اسی راہ پر گامزن ہے۔تقیم ہند میں پانچ
لاکھ لوگوں کی ہلاکت کے بعد اب پھر اس کی طاقت کو کمزور کرنے کی نئی کوشیش
ہورہی ہے۔ ان کے منصوبے مجموعی ملکوں کی طاقت کو توڑنا ان کی گھناﺅنی فطرت
ہے۔ اوراس کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس کی تازہ ترقی پذیر ملکوں آزادی
میں الجھا کر توڑنے کی حکمت ابھی بھی جاری ہے۔ بڑے ملکوں نے آزادی کے عنوان
سے سوڈان کو دو متوازی حصوں میں تقسم کرکے اپنی گھناﺅنی تحریک عیاں کردی۔
ایک طرف ملکوں کو آزادی کے نام پرکمزورکرنے کی کوشیش کی جارہی ہے۔ تودوسری
طرف دو پڑوسی اگر باہم گفت و شنید کرتے ہیں ۔تو اسمیں رکاوٹ ڈالنے کا کام
بیرونی لوگ کرتے ہیں۔ بدامنی کیلئے کچھ علاقائی لوگ حریت جیسے ان کو مل
جاتے ہیں۔ اب جب کہ کشمیر کے حوالہ سے کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بنانے کی
کوشیش ہورہی ہے۔ اور کشمیری عوام کو نئی غلامی میں دھکیلنے کی مذموم سازش
رچی جارہی ہے۔ان کی اس حرکت سے ملک کے ساتھ ، مذہب کے ساتھ فریب کاری ہورہی
ہے۔ جبکہ کشمیر ی عوام کے مسئلہ کا حل صرف ایک ہے۔ کہ کشمیری عوام کی
آبرومندانہ زندگی، اور ہندوپاک میں ان کو آزادانہ تجارت کرنے کی آزادی ملے،
یہ ہی صرف کشمیر مسئلہ کا پائیدار حل ہے۔ کشمیر میں رائے شماری امریکی خنجر
چلا کر، اس کو ایک آزادی کا پنجرہ بنا کر ، اس میں تمام کشمیریوں کو قید اس
کو اقوام متحدہ پر لٹکانے کیلئے کام کرنا نہ صرف بے وقوفی ہے۔ بلکہ حماقت
ہے۔ہندوپاک دونوں طرف کے وزیر خارجہ حنا۔کرشنا کے درمیاں ملاقات کے موقعہ
پر کشمیر ی عوام کو فریق کہہ کر کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بنانے کی بات کرنے
بجائے حریت کانفرنس کے لوگوں کو اس بات پراپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہئے تھی۔
کہ کشمیر ی کو بہتر روزگار ، بہتر تعلیم ملے اس کو اس پراولین ترجہح دینی
چاہئے تھی۔ مگر چونکہ ابوجہل کے خاندان کے لوگ اس سمت کام نہیں کریں گے۔
کیونکہ ان کو تعمیر کاکا م توکرنا نہیں ۔ بلکہ گمراہیت ہی پھیلانا ہے۔ جس
پر وہ بیرونی اشاروں پر عمل پیرا ہیں۔
بہرحال امن کی سمت میں ہندوپاک لیجانے کوشیش جو حنا۔کرشنا ملاقات کے ذریعہ
کی جارہی ہے۔اور با ہمی اخوت کی راہوں کو دراز کیا جارہا ہے۔ یہ اس خطہ
کیلئے ایک مثبت پہل ہے ۔ جس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔اور یہ خطہ ایک امن کا
گہوارہ بنے ایسی کوشیش ہرطرف سے ہونی چاہئے۔ ہماری خدا سے یہ دعا رہنی
چاہئے کہ خداوند ہندوپاک کو غدار وطن اور ابوجہل کے قافلہ والوں سے محفوظ
رکھے۔۔ آمین ۔ثمہ آمین۔ |