وطن عزیز میں نیلی سے دہلی تک ، بھاگلپورسے مظفرپور تک
اور گجرات سے ممبئی تک کئی بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے جن میں
ہزاروں بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا مگر شاید ہی کسی فسادی
کوموت کی سزا ہوئی ۔ ملک میں بم دھماکوں کی بھی طویل تاریخ رہی ہے۔ سن 2000
سے قبل جملہ 19 دہشت گرادانہ حملے ہوئے جن میں سیکڑوں لوگ مارے گئے اور ان
میں ملک کا سابق وزیر اعظم بھی تھا۔2000 سے 2007 تک کل 46 حملے ہوئے اور
اکیلے 2008 میں 11 بم دھماکے ہوئے۔ ان میں سے ایک احمدآباد بم دھماکہ تھا
۔ اس کے لیے ایک فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کی گئی تھی۔ وہ عدالت 14 برسوں تک
کمبھ کرن کی نیند سوتی رہی اور اچانک انتخابی مہم کے دوران بیدار ہوئی اور
ایک حیرت انگیز فیصلہ سنادیا۔ اس میں پہلی بار 38 لوگوں کو موت کی سزا اور
11 کو عمر قید کی سزا سنادی ۔ اس تعجب خیز فیصلے پر ہرکوئی حیران تھا لیکن
اس کا راز اگلے دن وزیر اعظم کی ہردوئی کے اندر تقریر نے کھول دیا جس میں
انہوں نے اس کا نہایت بھونڈے انداز میں استعمال کرکے دہشت گردوں کو بھی
شرمندہ کردیا۔
وزیر اعظم مودی نے پہلے تو نہایت جذباتی انداز میں ان واقعات کو بیان کیا
اور پھر اپنے عہد کا اظہار کیا کہ وہ اس کے مجرمین کو سزا دلا کر رہیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ رہتے یہ سانحہ کیوں وقوع پذیر ہوا؟ اس کے
بعد ۶ سال وہ وزیر اعلیٰ اور ۸ سال وزیر اعظم رہےاس کے باوجود اتنی تاخیر
کیوں ہوئی؟ یہ فیصلہ عین انتخابی مہم کے دوران ایسے وقت میں کیونکر آگیا
جب ان کی پارٹی اترپردیش میں پریشان تھی؟ اس کے علاوہ جو دس سانحات اسی سال
ہوئے تھے ان کے فیصلے کیوں نہیں آئے؟ اتنے سارے لوگوں کو اس سے قبل سزا
کیوں نہیں ہوئی جبکہ کہیں زیادہ لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے تھے ؟ یہ سارے
سوالات اس حقیقت کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ انتخابی مہم کو سنبھالنے کی
خاطر ایک نام نہاد فاسٹ ٹریک عدالت کو چودہ سال بعد جگا کر ایسا فیصلہ
کروایا گیا جو سپریم کورٹ تو دور ہائی کورٹ میں ٹھہر نہیں سکے گا لیکن اس
وقت تک اس کا سیاسی استعمال ہوچکا ہوگا ۔
وزیر اعظم نے ان دھماکوں کو سماجوادی پارٹی کے انتخابی نشان سے جو ڑکر جس
اوچھےپن کا ثبوت دیا اس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ وزیر
اعظم نے یہ انکشاف کیا کہ ان دھماکوں میں سائیکل کااستعمال کیا گیاجو
سماجوادی پارٹی کا نشان ہے ۔ اور پھر علی الاعلان اپنے سیاسی مخالف کو دہشت
گردوں کا ہمنوا قرار دے دیا جو کسی بھی وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا لیکن یہ
بھی حقیقت ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مودی جی پردھان منتری سے گر کر پرچار
منتری بن جاتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے اپنی بات اس طرح رکھی گویا سائیکل کا
استعمال پہلی اور آخری بار احمد آباد دھماکوں میں ہوا ہے حالانکہ وہ نہیں
جانتے کہ 1939 میں پہلی بار آئرش ریپبلکن آرمی نےبرطانیہ میں یہ کام کیا
تھا ۔ اس وقت سماجوادی پارٹی تو دور ملائم سنگھ یادو بھی پیدا نہیں ہوئے
تھے ۔ اس کے بعد یوروپ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک ہر جگہ اس کا وقتاً
فوقتاً استعمال ہوتا رہا ہے۔
وطن عزیز میں اس کے استعمال کا شرف سب سے پہلے سنگھ کے پرچارک سنیل جوشی کو
حاصل ہوا ہے۔ مالیگاوں کے 2006 میں دو سائیکلوں پر بم باندھے گئے تھے۔ اس
معاملے بی جے پی کی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر کئی سال جیل کی چکی پیس چکی
ہیں اور ہنوز ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ دوسروں پر
الزام لگانے سے قبل خود اپنے گریبان میں جھانک دیکھ لیتے ۔ اس کے بعد احمد
آباد دھماکوں سے قبل لکھنو ، فیض آباد، وارانسی اور گورکھپور میں سائیکل
کی مدد سے دھماکے ہوئے اور صرف ایک فرد کو عمر قید کی سزا ہوئی جبکہ یہاں
گیارہ کو عمر قید اور 38کو سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ اسی گجرات میں ہوگیا
جہاں گجرات فساد میں ملوث سارے فسادیوں کو مودی جی نے بچا لیا۔ جہاں تک
ملائم سنگھ کا تعلق انہیں یہ نشان 1992 میں ملا اور اس پر پہلی مرتبہ انہوں
نے1993 میں الیکشن لڑا ۔ اس سے قبل 1989 سے 1991 تک وہ جنتا دل کے نشان
پہیہ پر انتخاب لڑتے رہے۔ ملائم سنگھ نے اپنا پہلا انتخاب برگد کے نشان پر
1967 میں جیتا ۔ 1991 میں ملائم سنگھ یادو نے جنتا پارٹی کے نشان ہل والے
کسان پر الیکشن لڑا جو واجپائی اور اڈوانی وغیرہ کا بھی نشان تھا ۔ دوسروں
پر دہشت گردی کاالزام لگانے سےقبل مودی جی کو اپنے دامن پر لگے گجرات فساد
کے نشانات کی جانب دیکھ لینا چاہیے۔
مودی جی جس وقت ہردوئی میں خطاب فرمارہے تھے اس کے دو دن قبل قومی تحقیقاتی
ایجنسی (این آئی اے) نے اپنے ہی ایک سابق افسر کو پاکستانی دہشت گرد تنظیم
لشکر طیبہ کو خفیہ معلومات اِفشاکرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ وزیر اعظم
کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس آئی پی ایس افسرکا نام اروند دگ وجے نیگی تھا ۔
اس پر ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے اوور گراؤنڈ ورکر کو خفیہ
دستاویزات لیک کرنے کے الزام ہے۔ماضی میں نیگی این آئی اے کے اندر
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کے طور پر بھی کام کر چکاہے۔ اس پولیس افسر
کو 2011 میں ترقی بھی دی گئی تھی۔ این آئی اے نے پچھلے سال لشکر طیبہ کے
اوور گراؤنڈ کارکنوں کے ایک نیٹ ورک کاپتہ لگایا جوہندوستان میں دہشت
گردانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور انجا م کارمیں تعاون کرتا تھا۔ اس
معاملہ میں این آئی اے پہلے ہی 6 لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے۔
اروند نیگی اگر مسلمان ہوتا تو مودی جی اس کا نام اچھال کر خوب ہندو مسلم
کھیل کھیلتے اور اپنی پیٹھ تھپتھپاتے لیکن اب اس کا ذکر کرنے سے ہندو ووٹرس
کی ناراضی کا خطرہ ہے ۔ پچھلے سال مارچ میں راجستھان پولیس نے ایک فوجی
جوان کو پاکستانی فوج کے لیے خفیہ اسٹریٹجک اہمیت کی معلومات بھیجنے کے
الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس کا نام اس لیے روشن نہیں ہوسکا کہ وہ آکاش
مہریا تھا اور وہ لکشمن گڑھ کا رہنے والا تھا ۔ملزم ستمبر 2018 سے فوج میں
تھا۔اس کیس میں آکاش مہریہ پر آفیشیل سیکریٹ فورس ایکٹ 1923 کے تحت مقدمہ
درج کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ ماہِ اکتوبر میں ہریانہ کے مندیپ سنگھ اور
گجرات کے کرنال کمار بائراکو پاکستان کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے گرفتار کیا
گیا تھا لیکن مودی جی کبھی بھی ان کارناموں کا کریڈٹ نہیں لیتے کیونکہ یہ
سیاسی طور پر مفید نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کو چودہ سال پرانا دھماکہ تو یاد
آجاتا ہے لیکن مستقبل کے منڈلاتے خطرات دکھائی نہیں دیتے۔
یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ملک میں ۸ سال حکومت کرنے اور اترپردیش میں
گزشتہ پانچ سالوں تک ڈبل انجن کی سرکار چلانے کے باوجود مودی جی کے پاس
کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کو دکھا کر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں ۔ اس لیے وہ
اپنے مخالفین پر گھٹیا قسم کے حملے کررہے ہیں اور اس کو بنیاد بنانے کی
خاطر عدلیہ کا بیجا استعمال ہورہا ہے۔ بعید نہیں کہ جس طرح سابق چیف جسٹس
رنجن گوگوئی کو رام مندر کے ناعاقبت اندیش فیصلے کے سبب خاتون ملازمہ پر
دست درازی کے الزام سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ ایوان بالہ کی رکنیت مل گئی
اسی طرح فاسٹ ٹریک کورٹ کے خصوصی جج اے آر پٹیل کو بھی کسی صوبے کی گورنر
شپ یا کوئی سرکاری کمیشن کا سربراہ بنادیا جائے۔ خصوصی جج نے اپنے فیصلے
میں اس وقت وزیر اعلیٰ نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور مقامی رکن
اسمبلی پرتاپ سنگھ کو بھی ان دھماکوں کا نشانہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ نریندر
مودی کی قسمت تھی جو وہ بچ گئے۔
جج اے آر پٹیل نے اس حملے کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا کہ وہ عام لوگوں کے
ساتھ ساتھ صوبائی رہنماوں کو قتل کرنا بھی تھا ۔ دہشت گرد انارکی پھیلا کر
اسلامی راج قائم کرنا چاہتے۔ کسی فیصلے میں اس طرح کی مکھن بازی اور افتراء
پردازی جج صاحب کی نیت کا پتہ دیتی ہے اور مودی نے جس طرح دوسرے ہی دن اس
کو استعمال کیا اس سے سازش کا بھی سراغ ملتا ہے۔ مغربی اترپردیش میں امیت
شاہ نے ۹ سال پرانے مظفر نگر فساد کو خوب مرچ مسالہ لگا کر یاد دلایا اور
ایک خیالی نقل مکانی کی کہانی سناتے رہے ۔ اس سے بات نہیں بنی تو پھر سے
فساد بھڑکانے بلا واسطہ دھمکی دے ڈالی لیکن پھر بھی دال نہیں گلی۔ بندیل
کھنڈ میں بی جے پی کسی قدر پرامید تھی اس لیے خود مودی جی نے یہ داوں کھیل
دیا۔
وزیر اعظم اپنے زور بیان میں یہ بھول گئے کہ اس میں دلتوں کی بہت بڑی
آبادی ہے۔ ہاتھرس کا حلقۂ انتخاب اسی حصے میں ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہیے
تھا کہ ہاتھرس کے معاملے میں اپنی زبان کھولتے لیکن وہ ہندو مسلم کھیل میں
لگے رہے اور کوئی مرہم نہیں رکھا ۔ ایسے بڑے ظلم کے بعد بھی اگر دلت رہنما
بی جے پی کے لیے ووٹ مانگتے ہیں تو یہ بڑے شرم کی بات ہے اور اگر عوام
آنکھ موند کر ووٹ دیتے ہیں تب تو بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔ یہ داوں چونکہ
مسلمانوں میں نہیں چلتا اس لیے بی جے پی امت سے مایوس ہے اور ہندو رائے
دہندگان کو پرانے دھماکے یاد دلاکر اول تو مسلمانوں سے خوفزدہ کررہی ہے اور
دوسرے یہ کہہ کر بہلا رہی ہے کہ اس نے اتنے سارے مسلمانوں کے خلاف اتنا بڑا
فیصلہ کروا دیا حالانکہ جیسا اوپر کہا گیا ہے یہ اونچی عدالتوں میں شاید ہی
ٹھہر سکے ۔ بی جے پی کو عدالت کے علاوہ انتخاب میں بھی اس طرح کے تماشوں کا
کوئی فائدہ نہیں ملے گا ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار سائیکل کی ہوا
کمل کو اڑا کر لے جائے۔
|