2022.کا دوسرا ماہ مظفر گڑھ کے سیاسی خاندانوں کے لیے اندوہ ناک نکلا۔یکے
بعد دیگرے گشکوری خاندان پھر کھر خاندان اور قریشی خاندان کے گھروں میں صفِ
ماتم بچھی۔ابھی ملک نور محمد ربانی کھر کے صدمے سے حلقہ کے عوام نکلے ہی
نہیں تھے کہ شرافت کی سیاست کے علمبردار میاں غلام عباس قریشی کے سانحہ
ارتحال نے ہر آنکھ کو اشک بار کر دیا ۔قریشی خاندان میں سیاست کو رواج دینے
والے میاں غلام عباس قریشی ایوان بالا اور ایوان زیریں کے ممبر رہنے کے
ساتھ ساتھ صوباٸ اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔لیکن انکی فقید المثال خدمات
بطور چٸیرمین ضلع کونسل رہیں۔زرعی اصلاحات لانے میں انکا اظہارِ دلچسپی
راقم الحروف کے ساتھ ایک نشست میں جب انہوں کیا تو ان کا کہنا یہ تھا کہ
ضلع مظفر گڑھ میں ٹیوب ویل نصب کرانے والے وہ پہلے زمیندار ہونگے جس کو
دیکھنے کے لیے قرب وجوار لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔معیشت میں اضافے
کے گر وہ خوب جانتے تھے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آمدن کو
تعشیات پر خرچ کرنے کی بجاۓ سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو کہ ہمارے مقامی
کاشتکار کو نہیں آتی جسکی وجہ سے خوشحالی کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ضلع
مظفرگڑھ میں صف اول کے زمینداروں میں شمار ہونے والے میاں صاحب نے شاید ہی
اپنی زرعی اراضی ٹھیکے پر کسی کو دی ہو یہی انکی زراعت سے گہری دلچسپی اور
وابستگی کا ثبوت ہے۔فطرت سے لگاو انکے شوقِ باغبانی سے لگایا جاسکتا ہے
انواع اقسام کے پودے اور پھول انکے آنگن میں ہر موسم میں ہرے بھرے نظر آتے
تھے۔ ساتھ ہی پرندوں اور جانوروں کی نایاب اقسام بھی ان کے ہاں دیکھنے کو
ملتی تھیں ۔علم دوست ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ انکے آباٸ علاقے شیخ عمر میں
گرلز و بواٸز ہاٸ سکولز کے لیے وسیع و عریض رقبہ اور جانوروں کے ہسپتال کے
لیے بھی اراضی وقف کر کے علاقے کی فلاح و بہبود کا سہرا اپنے نام کر
گٸے۔شیخ عمر جو کہ ایک پسماندہ ترین قصبہ ہے وہاں پر شہر کی جیسی سہولیات
بہم پہنچانے میں انکی کاوشیں قابل ستاٸش رہی ہیں ۔شرافت کی سیاست کی جس طرح
انہوں نے بنیاد رکھی قریشی خاندان میں مرحوم میاں محسن علی قریشی نے بھی اس
پر عمل کیا اور موجودہ وزیر مملکت میاں شبیر علی قریشی بھی اس پر عمل پیرا
دکھاٸ دیتے ہیں ۔میاں غلام عباس قریشی نےسیاسی میدان میں باقاعدہ انتخابات
میں حصہ لیا تو سابق گورنر ملک غلام مصطفی کھر جیسے سیاسی کھلاڑی کو بھی
پیچھے چھوڑ دیا تھا اور اسکے بعد مصطفی کھر اپنی مقامی سیاست کو کامیاب نا
کر پاۓ۔ میاں غلام عباس قریشی کے فرزندان میاں ارشد عباس قریشی اور میاں
امجد عباس قریشی بھی سیاست میں پیش پیش رہتے ہیں۔چھوٹے بیٹے بڑے ایوان کے
رکن رہ چکے ہیں جبکہ بڑے بیٹے ضلع کونسل کے ممبر۔سیاست بڑی ظالم ہوتی ہے
کبھی حلقہ بندیاں دشمن ثابت ہوتی ہیں تو کبھی اپنے مدمقابل آجاتے ہیں۔پیپلز
پارٹی کے ٹکٹ سے جنرل انتخابات میں دونوں بھاٸیوں کو شکست کا سامنا کرنا
پڑا تھا تب میاں صاحب کی دعاٸیں تو تھیں مگر عملی طور پر سیاسی میدان میں
نہیں نظر آۓ تھے اور قریشی برادری کا منقسم ہونےکے ساتھ ساتھ حلقہ کے عوام
سے دور رہنے کے بھی اثرات تھے۔سیاسی مبصرین کا کہنا یہ تھا کہ اگر میاں
غلام عباس بذات خود اپنے سیاسی جانشینوں کے لیے میدان میں ایک بار خود اتر
آتے تو شاید ان کے دونوں بیٹے آج ایوانوں میں ہوتے مگر ایسا نا ہوسکا
۔انتخابات کے فوراََ بعد میاں ارشد عباس قریشی بھی منظر عام سے غاٸب ہوگٸے
اور سیاست کی بجاۓ زراعت میں اپنی سرگرمیاں تیز رکھیں جبکہ سابق سینیٹر
میاں امجد عباس قریشی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ نا صرف سیاسی وابستگی
رکھی بلکہ مقامی سطح پر بھی سیاست میں فعال نظر آۓ۔میاں غلام عباس قریشی کی
وفات مظفر گڑھ کی سیاست میں بہت بڑا خلا ہے جو شاید ہی کبھی پر ہوسکے۔شرافت
کی سیاست کرنا کٹھن مرحلہ ہے۔لیکن انہوں نے اس طرزِ سیاست کا ڈول ڈال کر
ایک مثال قاٸم کی تھی جو ان کے سیاسی جانشینوں کے لیے ایک کڑی آزماٸش ہوگی
کیونکہ انکا متبادل رہنما شاید انکو ڈھونڈنے سے بھی نا ملے لیکن انکے نقشِ
قدم پر چل کر شرافت کی سیاست کو زندہ رکھا جاسکتا ہے ۔میاں غلام عباس قریشی
کی آخری رسومات میں جس قدر عقیدت مندوں کا جمِ غفیر تھا وہ انکی محبت کا
شاہد ہے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم جاوید ہاشمی کا
پسماندگان کے ساتھ غمگسار ہونا میاں صاحب کے فرزندان کی سیاست میں کامیابی
کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے اور راۓ دہندگان کی راۓ بھی قاٸم کی جاسکتی
ہے۔ لیکن اس کے لیے قریشی خاندان کو بٹنے کی بجاۓ متحد ہونا لازم ہوگا ۔نا
اتفاقی ناکامی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ عوام اگر انتقام لیتے
ہیں تو ہمدرد بھی بن جاتے ہیں ۔حقیقت پسند سیاست دان جو اپنی خامیوں کو
تسلیم کرتے اور انکو سدھارنے کے خواہاں ہوتے ہیں ایسی خوبی ان میں پاٸ جاتی
تھی۔بددیانتی اور کرپشن کے الزامات سے دامن بچا کر شرافت کی مثال قاٸم کر
گٸے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شرافت کی سیاست کی کی جو بیل میاں صاحب نے لگاٸ تھی
ان کے جانشینوں سے منڈھے چڑھتی ہے جا ہمیشہ کے لیے ان کے ساتھ ہی دفن ہوجاۓ
گی۔
|