نظریاتی سیاست کے امین، حرمتِ قلم کے پاسبان، دبنگ
صحافی اور درویش منش انسان روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹربھائی عطاء
الرحمٰن بھی بچھڑ گئے، یقین مگر نہیں آتا۔ ابھی تین چار روز پہلے ہی تو اُن
سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں اُن کے کالم بڑے شوق سے پڑھا کرتی تھی۔ جب اُن کے
دو کالم روزنامہ نئی بات کی زینت نہیں بنے تو کچھ بے چینی سی ہوئی ۔ تب میں
نے نئی بات کے آفس میں زاہد رفیق صاحب کو فون کیا۔ اُنہوں نے بتایاکہ عطاء
صاحب اتفاق ہسپتال میں داخل ہیں۔ پروفیسر مظہر صاحب نے اُسی وقت عطاء بھائی
کو فون کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ ہسپتال کے کمرہ نمبر 145 میں داخل
ہیں۔ میں اور مظہر صاحب اُسی وقت عطاء بھائی کی عیادت کے لیے نکل کھڑے
ہوئے۔ جب کمرے میں پہنچے تو اُنہیں غنودگی میں پایا۔ تھوڑی ہی دیر بعد
اُنہوں نے آنکھیں کھولیں، ہمیں دیکھا اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کر ہاتھ آگے
بڑھا دیا۔ مظہر صاحب نے اُن کا ہاتھ تھام کر کہا ’’آپ ان شاء اﷲ جلد ٹھیک
ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ’’نہیں پروفیسر
صاحب ! اب چل چلاؤ ہے‘‘۔ پھر اُنہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، میں نے سر
نیچے کیا، اُن کے شفقتوں بھرے ہاتھ کی حدت مجھے آج بھی اپنے سَر پر محسوس
ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اُن پر پھر غنودگی طاری ہو گئی۔ ہم جتنی دیر
وہاں بیٹھے رہے، وہ وقفے وقفے سے آنکھیں کھول کر ہمارا حال پوچھتے رہے۔
مجھے کہنے لگے ’’آپ کے کالم بہت تیکھے ہوتے ہیں‘‘۔ اُس کے بعد پھر غنودگی
کا مختصر لمحہ آیا۔ عطاء بھائی کی بیٹی نے اِس دوران ہمیں جوس دیا لیکن جب
ہم نے پینے سے انکار کیا تو بیٹی نے کہا ’’جب آپ لوگوں کا فون آیا تھا تو
ابو نے اُسی وقت کہا تھا کہ فرج میں جوس رکھ دو۔ اب اگر آپ نے نہ پیا تو وہ
مجھ سے ناراض ہوں گے‘‘۔ہسپتال سے واپسی کا قصد کرتے ہوئے جب ہم اُٹھ کر آنے
لگے تو اچانک عطاء بھائی نے آنکھیں کھول دیں ۔ ہم نے جانے کی اجازت چاہی تو
اُنہوں نے کھنکتی آواز میں فرمایا ’’بیٹھو! ابھی تو آئے ہو‘‘۔ اِس کے بعد
پھر غنودگی کا وقفہ جس کے دوران ہم چلے آئے۔ سوچتی ہوں کہ اگر پتہ ہوتا کہ
یہ عطاء بھائی سے آخری ملاقات ہے تو پھر بھلا ہم اُٹھ کر کیوں آتے۔ یہ سب
کچھ لکھتے ہوئے آنکھیں پتہ نہیں کیوں نَم ہو رہی ہیں۔
عطاء بھائی سے عقیدت کا رشتہ تو پرانا مگریہ رشتہ اُس وقت اور بھی گہرا
ہوگیا جب نوید چودھری، عطاء بھائی اور مظہر صاحب نے غالباََ 2009ء میں رائل
ٹی وی پر ٹاک شو شروع کیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عطاء بھائی کے ساتھ
گھریلو مراسم کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال قائم ہے۔ جب چودھری عبدالرحمٰن
صاحب نے سپیرئر یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی تو عطاء
بھائی اُس سے منسلک ہو گئے۔ عطاء بھائی عرصۂ دراز تک روزنامہ نوائے وقت سے
منسلک رہے لیکن جب چودھری عبدالرحمٰن نے روزنامہ نئی بات کی داغ بیل ڈالی
تو وہ اِس اخبار کے گروپ ایڈیٹر بنے اور یہ سلسلہ اُس لمحے تک جاری رہا جب
تک وہ بچھڑ نہیں گئے۔جب عطاء بھائی روزنامہ نئی بات سے منسلک ہوئے تو
مظہرصاحب اور میں صحافت کے اُس گھنے پیڑ کی چھاؤں میں چلے آئے۔ جب بھی اُن
سے ملاقات ہوتی، وہ یہی کہا کرتے کہ صحافت عبادت ہے جس میں کثافت کے چھینٹے
نہیں پڑنے چاہییں۔ اُنہوں نے نہ کبھی خود صحافت کو گدلا ہونے دیا اور نہ ہی
کسی دوسرے کو ایساکرنے کی اجازت دی۔ میاں شہبازشریف نے اپنے تعزیتی پیغام
میں بالکل درست کہا ’’وہ پُختہ نظریات کے ساتھ پاکستان کے قومی مفادات،
عوامی حقوق کے تحفظ، اسلامی مشرقی اور جمہوری اقدار کے لیے قلمی مورچے پر
ڈٹے رہے۔ اُن کی وفات نظریاتی صحافت کا ایک بڑا نقصان ہے‘‘۔
سادگی، دیانت داری اور علم سے محبت عطاء بھائی کی نَس نَس میں سمائی ہوئی
تھی۔ اُن کی اسلام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اُنہوں نے اپنی ہمشیرہ زُہرہ
حمید اور اُن کے شوہر عبد الحمید کے ایک کنال سے زائد کمرشل پلاٹ پر ایک
مسجد تعمیر کروائی۔ اُن کی بہن اور بہنوئی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اُنہوں
نے اپنی وفات سے قبل اُس پلاٹ کی رجسٹری بھائی عطاء کے حوالے کرتے ہوئے ایک
مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا جسے اُن کی وفات کے بعد عطاء بھائی نے
پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ایک ایسا صحافی جسے قلم فروشی سے نفرت ہو، جس کی
صحافتی زندگی پر کوئی داغ نہ ہو اور جو کھنکتے سکّوں کا پجاری نہ ہو، اُس
کا مسجد تعمیر کرنا بہرحال ایک معرکہ ہے۔ زُہرہ مسجد آج بھی شاہ دین سکیم
اچھرہ میں پوری آب وتاب کے ساتھ ایستادہ ہے جو نہ صرف عطاء بھائی کی بہن
اور بہنوئی کے لیے بلکہ خود اُن کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔دبنگ صحافت اور
آمرانہ حکومتوں کے خلاف عزم واستقامت کے ساتھ کھڑے رہنا عطاء بھائی کا
وتیرہ تھا۔ پرویزمشرف کے آمرانہ دَورِ حکومت میں بھی اُن کے قلم کی بے باکی
برقرار رہی۔ وہ اسلام اور تاریخِ پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا
تھے۔ اُن کے کالم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مکمل احاطہ کرتے ہیں جو
یقیناََ نسلِ نَو کے لیے مستند تاریخی حوالہ ثابت ہوں گے۔ وہ اختلافِ رائے
کا احترام تو کرتے تھے لیکن دلائل کے زور پر اپنے مؤقف پر ڈَٹ کر بھی کھڑے
رہتے تھے۔ ہم نے یہ ہنر اُنہی سے سیکھا ہے۔ جب کبھی اُن سے گفتگو کا موقع
ملتا تو میں حیران رہ جاتی کہ اُنہیں ارضِ وطن کی سیاسی تاریخ کا نہ صرف
ایک ایک لمحہ اَزبَر ہوتا بلکہ وہ تاریخ اور دِن تک بھی بتا دیتے۔
عطاء بھائی جیسی بے باک اور دبنگ آواز عین اُس وقت خاموش ہوگئی جب پوری
صحافی برادری پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ اِس آرڈیننس کے
خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جناب
اطہرمن اﷲ نے ریمارکس دیئے ’’قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا
گیا ہے۔ ایسی پارٹی (تحریکِ انصاف) جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھی، اُس
نے ایسا کیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے والوں
کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب
کچھ ہو رہا ہے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جو بھی حکومت میں ہو وہ
آزادیٔ رائے کو پسند نہیں کرتا۔ نظر آرہا ہے کہ گھُٹن کا ماحول ہے۔ اگر
اظہارِرائے کی آزادی پر قدغن نہ ہوتی تو یہ ملک نہ ٹوٹتا۔ اِس آرڈیننس کو
پڑھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس
صاحب کا یہ فرمان بالکل بجا لیکن جہاں فاشسٹ حکومت ہو، وہاں یہ سب کچھ تو
ہوتا ہی تھا۔ یہ حکومت تو چل ہی آرڈیننسز کے سہارے رہی ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین
سالوں کے دوران 63 آرڈیننسز جاری ہو چکے۔ ایوانِ صدر میں براجمان جناب صدر
عارف علوی تو شاید پڑھے بغیر ہی اِن آرڈیننسز پر دستخط کر دیتے ہوں گے
کیونکہ ایک جمہوریت پسند شخص تو ایسے غیرجمہوری آرڈیننسز پر کبھی دستخط
نہیں کر سکتا۔ موجودہ حکومت نے زباں بندی کا ہر حربہ آزما کے دیکھ لیالیکن
سختیاں جھیلنے کے باوجود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آج بھی توانا آوازیں
موجود ہیں۔جو صحافی بھی تنقید کرتا ہے اُسے میڈیا سے آؤٹ کروا دیا جاتا ہے۔
اِسی سونامی سرکار نے حامدمیر، نجم سیٹھی، طلعت حسین، نصرت جاوید اور
مرتضیٰ سولنگی جیسی توانا آوازوں کو ٹی وی سکرینوں سے آؤٹ کروایا۔ اِسی نئے
پاکستان میں ثنابُچہ، نسیم زہرہ، عاسمہ شیرازی اور غریدہ فاروقی جیسی
اینکرز کو سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی بپا کرتے ہوئے ننگی گالیوں سے
نوازا گیا، وہ سب کے سامنے۔ ظاہر ہے کہ جب شہبازگِل جیسے معاونین سوشل
میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہوں تو پھر ایسا تو ہونا ہی تھا۔ میں جب بھی سوشل
میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی بپا ہوتا دیکھ کر پریشان ہوتی تو عطابھائی کو فون
کر دیتی۔ وہ نہ صرف مجھے تسلی دیتے بلکہ ڈَٹ کر کھڑے رہنے کی تلقین بھی
کرتے۔ آج وہ مشفق آواز منوں مٹی تلے جا سوئی۔ سوچتی ہوں کہ
تھکن نہیں ہے کٹھن راستوں پہ چلنے کی
بچھڑنے والوں کے دُکھ نے بہت نڈھال کیا
|