سود کو عربی زبان میں ’’ربا‘‘کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی
زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے۔ اور شرعی اصطلاح
میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ’’ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار
دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا ‘‘۔سودخواہ کسی غریب ونادار
سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ
صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد
پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور
اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی
صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے
بلکہ اسے اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔اﷲ تعالی فرماتے ہیں۔"
جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر
مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر
سود کی طرح ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو
حرام۔ایک وقت تھا جب دنیا میں سود کے بغیر بینکاری نظام لازمی بنیاد قرار
دیا جاتا تھا،لیکن اسے جھوٹاثابت کرنے کیلئے اس کے متبادل نظام کا کامیاب
تجربہ ہورہا ہے،جس میں سود اور اِس کی قبیل کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے،اِس
نظام کو بلا سود یا اسلامی بینکاری نظام کہا جاتا ہے، یہ نظام مسلسل ترقی
کررہا ہے اور اِس کی مقبولیت کسی ایک علاقے یا مذہب تک محدود نہیں اور نہ
ہی اسے صرف مسلم ممالک اختیار کررہے ہیں،بلکہ اب غیر مسلم ممالک میں بھی
اسلامی بینکاری اداروں کا قیام عمل میں لارہے ہیں اور اِس نظام کے حوالے سے
متعلقہ قوانین بھی بنائے جارہے ہیں۔نوخیز اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے کسی
بھی نظام کی طرح ’’اسلامی بینکاری نظام ‘‘کے بھی کچھ مخصوص تقاضے ہیں،جس
میں سب سے بنیادی بات اِس نئے نظام کی منفرد اصلاحات اور عملی معاملات میں
اِس کے اصولوں کیباریکیوں کو سمجھنا ہے،دنیا بھر میں جہاں اسلامی بینک تیزی
سے قائم ہورہے ہیں،وہاں اِس حوالے سے نظریاتی اور عملی تربیت کا بھی اہتمام
کیا جارہا ہے جیسے کے ہرذی شعورجانتاہے کہ ہمارے بینکاری نظام کی اساس اور
بنیاد سود پر مبنی ہے اور سود کی قباحت اور اﷲ تعالیٰ سے اعلان جنگ ہے
اگرسودی نظام ختم کیاجائے تومتبادل کیاہوگایہ ہرعام وخاص کاسوال ہوتاہے
توچلیے اس پربھی تھوڑی سی نظردوڑائی جائے۔ سودی بینکاری کے متبادل طریقہ
کارکو سب سے پہلے اس بات کومدنظررکھاجائے کہ بینک جتنے کام جس انداز میں
کررہے ہیں ، وہ سارے کم و بیش اسی طور طریقوں سے سرانجام دئیے جاتے رہیں ،
اور ان کے اغراض و مقاصد میں کوئی فرق واقع نہ ہو ،یعنی سب کچھ وہی کرنا ہے
جو ابھی تک ہو رہا ہے تو "متبادل طریقہ کار"کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں
کیونکہ صرف پبلیسٹی سے اسلامی نظام نہیں آسکتااس کیلئے طریقہ
کاربدلناہوگایعنیبینک کے جو کام موجودہ تجارتی حالات میں ضروری یا مفید ہیں
، ان کو سرانجام دینے کیلئے ایسا طریقہ اپنایاجائے جو شریعت کے باہرنہ ہو،
اور شریعت کے معاشی مقاصد پورے ہوں۔اگرسودی نظام سے بچناہے تو جو کام شرعی
اصولوں کے مطابق ضروری یا مفید نہیں ، اوان کاموں کو شرعی اصولوں کے مطابق
ڈھالا نہیں جاسکتا ایسے کاموں سے بچا جائے۔ چونکہ سود کی ممانعت کا اثر
تقسیم دولت کے پورے نظام پر پڑتا اس لئے یہ توقع کرنا بھی غلط ہوگا ۔بلکہ
حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی احکام کو ٹھیک ٹھیک بروئے کار لایا جائے تو اس
کی وجہ سے نفع کے اس تناسب میں بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں ، بلکہ یہ تبدیلیاں
ایک مثالی اسلامی معیشت کیلئے ناگزیر طور پر مطلوب ہیں محترم قارائین اگر
لوگوں کی بچت کو یکجا کرکے انہیں صنعت و تجارت میں استعمال کرنے کا
ذریعہبنایاجائے توملک وقوم کیلئے بہت مفیدثابت ہوگابجائے اس کے کہ یہ بچتیں
ہر شخص اپنی تجوری میں بندرکھے اور ظاہر ہے اخراجات سے اضافی آمدنی کا فضول
پڑا رہنا نہ شرعی اعتبار سے مطلوب ہے ، نہ عقلی ، نہ معاشی اعتبار سے
اسیفائدہ مند کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ان بچتوں کو صنعت و تجارت میں لگاکرجو
طریقہ مروجہ بینکوں نے اختیار کیا ہے وہ قرض کا راستہ ہے ، چنانچہ یہ ادارے
سرمایہ داروں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ دوسروں کے مالی وسائل کو
اپنے منافع کیلئے اس طرح استعمال کریں کہ ان وسائل سے پیدا ہونے والی دولت
کا زیادہ حصہ خود ان کے پاس رہے اور سرمایہ کے اصل مالکوں کو ترقی کا موقع
نہ ملے۔چنانچہ مروجہ بینکاری نظام میں بینک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی
ہے جو روپے کا لین دین کرتا ہے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس روپے سے
جو کاروبار ہورہا ہے اس منافع کتنا ہے ؟ اور اس سے کس کو کتنا فائدہ اور کس
کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے ؟ اسلامی احکام کی رو سے بینک ایسے ادارے کی
حیثیت میں باقی نہیں رہ سکتا جس کا کام صرف پیسوں کا کاروبار ہو ، اس کے
برعکس اسے ایک ایسا ٹریڈ انسٹیٹیوٹ بنانا پڑے گا جو بہت سے لوگوں کی بچتوں
کو اکٹھا کرکے ان کو براہ راست انویسٹمنٹ میں لگائے ، اور وہ سارے لوگ جن
کی بچتیں اس نے جمع کی ہیں براہ راست اس کاروبار میں حصہ دار بنیں اور ان
کا نفع و نقصان اس کاروبار کے نفع ونقصان سے وابستہ ہو جس کاروبار میں ان
کا سرمایہ لگا ہے ۔ہذا سودی بینکاری کے متبادل جو نظام تجویز کیا جائے اس
پر یہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ بینک نے اپنی سابقہ حیثیت ختم کردی ہے اور
وہ بذات خود ایک تجارتی ادارہ بن چکا ہے ، کیونکہ اس کے بغیر وہ ضرورت پوری
نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے متبادل نظام کی تلاش کی جارہی ہے۔ چوتھی بات
یہ کہ صدیوں سے مروجہ کسی نظام یا سسٹم کو بدل کر اس کی جگہ ایک نیا نظام
متعارف کروانے اور اسے لاگو کرنے ہمیشہ پریشانیاں اور مشکلات ہوتی ہیں ،
لیکن اگر نظام کی تبدیلی ضروری ہوتو صرف ان مشکلات کی بناء پر نئے نظام کو
ناقابلِ عمل قرار دینا بلکل درست نہیں ، ایسے حالات میں مشکلات کا حل تلاش
کیا جاتا ہے ، ان مشکلات کے خوف سے پیش قدمی نہیں روکی جاتی۔اگر ہم ایک عام
آدمی کی حیثیت زیر بعث معاملہ پر ذرا سا بھی غور کریں تو یہ امر روز روشن
کی طرح ہمارے سامنے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی کاروبار شروع کرنے کے لیے
بنک سے سود پرقرض لیتا ہے اور اگر شرع سود ۸۱ فی صد ہو توجب وہ کوئی مال
تیار کرتا اور اْس مال کی قیمت فروخت کا تعین کرتا ہے اور بازار میں فروخت
کرنے لیے پیش کرتا ہے ۔
|