وطن عزیز میں انتخاب سے بڑا کوئی اور جنون نہیں ہے۔ یہ
اس قدر خطرناک ہے کہ کورونا کا کوئی ویرینٹ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔
الیکشن کے آتے ہی پرانا وائرس بے اثر ہوجاتا ہے اور نیا انتخابی مہم کے
خاتمے کا انتظار کرتا ہے۔ بہار انتخاب کے وقت اس کا پہلا مظاہرہ ہوا تو
لوگوں نے سوچا کہ یہ بی جے پی کی بدمعاشی ہے ۔ وہ جان بوجھ کر حقائق کو
چھپا رہی ہے اور اپنے مفاد میں عوام کو موت کے منہ میں جھونک رہی ہے لیکن
اس معاملے سبھی پیش پیش تھے بلکہ تیجسوی کے جلسوں میں شرکاء کی تعداد کہیں
زیادہ ہوتی تھی اور وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر بھی ابھرے ۔ آر جے ڈی نے ایک
رن سے سہی بی جے پی کو ہرا دیا مگر جے ڈی یو کو کانگریس نہیں ہراسکی ۔ اس
کے نتیجے میں بادلِ ناخواستہ بی جے پی کوپھر سے نتیش کے سر پر تاج رکھنا
پڑا۔بہار کے بعد مغربی بنگال انتخاب سے قبل پھر سے کورونا غائب ہوگیا ۔ ۲؍
مئی کو دیدی آگئی تو ان کے پیچھے کورونا مائکرون کا روپ دھار کر وارد
ہوگیا۔ اترپردیش میں کانگریس کے لیے مہم چلانا مشکل ہورہا تھا اس نے کورونا
کا بہانہ بناکر مہم معطل کردی۔ بی جے پی کے جلسوں میں عوام کی تعداد کم
ہوئی تو اس نے الیکشن کمیشن سے پابندی لگوادی مگر پھر دیکھا اس کے بغیر کام
نہیں چل رہا ہے تو اسے اٹھوادیا ۔ اس طرح گویا کورونا پر بھی انتخاب کاجنون
چڑھ گیا۔
اترپردیش کے مقابلے پنجاب کا الیکشن بہت پھیکا تھا مگر اس میں کمار وشواس
کےاروند کیجریوال پر الزام نے تڑکا لگادیا۔ کسی کو خالصتان کا حامی کہہ
دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کیجریوال پر
دوسری بار یہ الزام لگا۔ 2017 میں پہلی بار عام آدمی پارٹی نے پنجاب کا
انتخاب لڑ رہی تھی ۔ 10 سال تک اکالی دل اور بی جے پی کا اتحادحکومت کرچکا
تھا اور اس کا کانگریس سے مقابلہ تھا کہ اچانک عآپ داخل ہوئی اور لوگ یہ
توقع کرنے لگے کہ وہ بی جے پی کو دہلی کی مانند شکست فاش سے دوچار کردے گی
۔ پارٹی کی ایک مرکزی رہنما الکا لامبا نے کہا تھا : 'اگر ہم پنجاب میں جیت
گئے تو ہمیں قومی پارٹی کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ ہم گوا کا بھی الیکشن لڑ
رہے ہیں۔ 2017 کا گجرات انتخاب بھی ہمارے نشانے پر ہے۔ پنجاب کی جیت کے بعد
ہماری نظر سیدھے 2019 کے پارلیمانی انتخابات پر مرکوز ہوگی۔'اس میں شک نہیں
کہ عآپ نےاکالی بی جے پی اتحاد کو تیسرے مقام پر ڈھکیل کر دوسرے نمبر پر
آگئی مگر کانگریس کو ہرا نہیں سکی۔پنجاب کی جملہ 117 نشستوں میں سے
کانگریس نے 77 نشستیں جیت لیں جبکہ اکالی دل اور بی جے پی کے اتحاد کو 18
نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا اورعام آدمی پارٹی نے 20 نشستوں پر کامیابی حاصل
کی ۔
پچھلے انتخاب میں اکالی دل کے صدر اور نائب وزیر اعلی سکھبیر سنگھ بادل نے
رائے دہندگان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کیجریوال ایک خطرناک آدمی ہے۔
اس نے دلی میں کچھ نہیں کیا ہے۔ اسے انتہا پسندوں اور دہشتگردوں سے حمایت
مل رہی ہے۔' اروند کیجریوال پر یہ نہایت سنگین الزام بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے
ممکن نہیں تھا ۔ ہوا یہ تھا کہ اپنے پنجاب دورے کے دوران اروند کیجریوال نے
موگا میں گردیپ سنگھ کے گھر پرقیام کیا تھا ۔ وہ ایک زمانےمیں خالصتان
لبریشن فرنٹ کا چیف تھا۔پنجاب میں دہشت گردی کے دور میں اس پر ہندو- سکھ
فسادات بھڑکانے کے الزامات لگے تھے۔ ایک شخص کے قتل اور بم دھماکےکےمعاملات
میں وہ گرفتار بھی ہوا تھا۔ آگے چل کر ان مقدمات سے بری ہو کر وہ انگلینڈ
چلا گیا مگر اب بھی انگلینڈ میں بیٹھ کر وہ مبینہ طور پر خالصتان لبریشن
فرنٹ کے لیے کام کر رہا ہے۔
اروند کیجریوال کے گردیپ سنگھ کے گھر ٹھہرنے کو لے کر پنجاب کی سیاست میں
ہنگامہ مچ گیا ۔ کانگریس اور اکالی دل نے اروند کیجریوال پر پنجاب مخالف
اور خالصتان حامی شدت پسند گروپ کے ساتھ سازباز اور ان سے مدد اور فنڈلینے
کا الزام لگادیا۔ پنجاب کی ہندو تنظیم جونااکھاڑہ کے پنچانند گری مہاراج نے
بھی اروند کیجریوال پر خالصتان حامی شدت پسند گروپ سےسانٹھ گانٹھ کا الزام
لگا کر پوچھا کہ پروٹوکول کے تحت اروند کیجریوال دہلی کے وزیر اعلی کی
حیثیت سے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں رک سکتے تھے، کسی عام آدمی پارٹی کے لیڈر کے
گھر ٹھہر سکتے تھے ،لیکن پھر بھی شب گزاری کے لیے اس گردیپ سنگھ کے گھر کو
منتخب کیا، جو پنجاب میں خالصتان کے لیے مسلسل کام کرتا رہا ہے۔اتنا ہی
نہیں وہ اب انگلینڈ میں بیٹھ کر سب کچھ کر رہا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے پنجاب
انچارج سنجے سنگھ نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اروند کیجریوال کے موگا
میں گردیپ سنگھ کے گھر رکنے کی پنجاب پولیس کو معلومات دے دی گئی تھی پھر
بھی اگر وہ دہشت گرد تھا پولیس نے کیوں نہیں روکا؟
سنجے سنگھ بولے اروند کیجریوال تو گردیپ سنگھ کو جانتے ہی نہیں۔ سنجے سنگھ
نےاس کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت گردیپ سنگھ کو تمام الزامات سے بری
کر چکی ہے ،تو ایسے میں اسے دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی
بتایا کہ جس گھر میں اروند کیجریوال ٹھہرے تھے وہ گروندر کی اہلیہ كرمجيت
کور کے نام پر ہے۔وہی پرانی کہانی اس بارعام آدمی پارٹی کے سابق رہنما کمار
وشواس نے دوہرائی۔ انہوں نے وزیر اعلی اروند کیجریوال ہلہ بولتے ہوئے ان پر
ملک دشمن عناصر سے رابطہ کرنے کے سنسنی خیز الزامات عائد کردیئے ۔ کمار
وشواس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اروند کیجریوال پنجاب میں علیحدگی پسندوں کے
حامی تھے۔ وشواس نے کہا، ’’ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ یا تو
وزیراعلیٰ (پنجاب) بنیں گے یا ایک آزاد ملک (خالصتان) کے پہلے وزیراعظم ہوں
گے۔‘‘کمار وشواس نے اپنے پرانے ساتھی کو یہ نصیحت دی کہ، ’’اروند کیجریوال
کو سمجھنا چاہیے کہ پنجاب صرف ایک ریاست نہیں ہے۔میں نے پہلے ان سے کہا تھا
کہ وہ علیحدگی پسند اور خالصتانی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کو پارٹی میں
شامل نہ کریں۔ تو کیجریوال نے مجھ سے کہا کہ نہیں نہیں ہو جائے گا تم فکر
نہ کرو۔‘‘ پنجاب اسمبلی انتخابات کی پولنگ سے چار دن قبل یہ دھماکہ ہوگیا ۔
کمار وشواس کے مطابق کیجریوال کی سوچ میں تخریب کاری ہے، وہ کسی بھی طرح
اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ راہل گاندھی کو اس سے اچھا موقع مل گیا انہوں
نے پنجاب میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہ، "پنجاب کو ایک مستحکم حکومت
کی ضرورت ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ یاد رکھیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، آپ
کو کسی دہشت گرد کے گھر میں کانگریس کا لیڈر نہیں ملے گا، بلکہ جھاڑو والا
سب سے بڑا لیڈر وہاں ملتا ہے۔کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے الیکشن
کمیشن پر بھی تنقید کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کمار وشواس کی
ویڈیو اور ان کے جاری کردہ مواد کی اشاعت اور نشریات پر پابندی لگا دی تھی۔
جب کمار وشواس نے اس پر اعتراض کیا تو کمیشن نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیجریوال اس پورے معاملے میں ملوث ہیں۔ اگر کیجریوال
ملوث نہیں ہیں تو وہ سامنے آکر جواب دینے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟ کمار
وشواس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟ یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ
ہے۔
سرجے وال نے مرکزی حکومت سے مداخلت کرتے ہوئے کیجریوال کے خلاف کارروائی
کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت چاہے تو این آئی اے
کے ذریعے کیجریوال کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی کر سکتی ہے۔ پنجاب
پہلے ہی تاریک دور کا سامنا کر چکا ہے۔ اب اگر اسی طرح پنجاب کو تباہ اور
الگ کرنے کی سازشیں جاری رہیں تو اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے
گا۔اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئےمہیلا کانگریس کی نیشنل کوآرڈینیٹر اور
پنجاب کانگریس کی ترجمان ڈاکٹر جسلین سیٹھی جالندھر پولس کمشنر کو کمار
وشواس کے انٹرویو کا حوالہ دے کرشکایت درج کرائی ۔ڈاکٹر جسلین سیٹھی نے کہا
کہ اروند کیجریوال نے اعتراف کیا کہ وہ پنجاب اسمبلی انتخابات کے لیے
علیحدگی پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ ان
کے مطابق کیجریوال کے خلاف بغاوت یا ملک سے غداری کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج
کیا جانا چاہئے۔
اس طرح مرکزی حکومت پر دباو بھی آیا اور اسے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند
کیجریوال اور عام آدمی پارٹی (عآپ) کے خلاف کا رروائی کا موقع مل گیا۔ اس
نے الیکشن کمیشن کے ذریعہ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ۔ فی الحال
وزیر اعلیٰ کیجریوال اور عآپ پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا
الزام ہے لیکن اس میں آگے چل کر اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں نجاب کے
چیف الیکٹورل افسر نے معاملہ درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اکالی دل کے نائب
صدر کے ذریعہ انتخابی کمیشن کو سونپی گئی ایک ویڈیو کی بنیاد پر یہ ہدایت
دی گئی ہے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ کیجریوال نے اپوزیشن لیڈروں کو غدار
کہا ہے اس لیےانتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ بنتا ہے۔عام
آدمی پارٹی کوکانگریس اور بی جے پی دونوں اپنے مخالف کی بی ٹیم کہتے ہیں
حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن انتخابی نتائج اس بابت بہت کچھ بتا
دیں گے۔ ویسے اس معاملے نے پنجاب کی انتخابی مہم کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
|