شہر قائد کی سیاست کے رنگ جبر کے سنگ
(Syed Mehboob Ahmed Chishty, )
شہرقائدکی احساس محرومی کس جانب جارہی ہے یہ زمینی حقائق
کومدنظررکھ کر بتائی اور محسوس کی جاسکتی ہے احساس محرومی محسوس کرنے
کیلیئے دوچیزوں کاہونابہت ضروری ہے ذی شعوراور دوسرا بلارنگ ونسل تعصب سے
پاک طرزفکرلیکن ایسا محسوس ہورہاہے کہ نفرت کی اس طرز فکرکامسلسل پرچارکرنے
کے باوجود یہاں ایک بات تسلیم کرنی پڑی گی کہ شہرقائدکی سیاست میں محبت کے
احساس کومرنے نہیں دیا گیا اور یہ وہی احساس تھاجس نے اس نفرت انگیزی
کوپروان نہیں چڑھنے نہیں دیا، زبانی افسانوی الزامات پر مشتمل ان سوچوں
کوشکست دینے کے لیئے ثابت قدمی اور خاموش محبت نے اہم کردار ادا کیا جبرکی
سوچوں کواستقامت پسندی نے اس طرح زائل کیا کہ مستقبل میں اس کے اثرات
شہرکراچی کی سیاست میں ضرور نظرآئیں گے شہرقائد کی سیاست میں جبر کے پہلو
کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے چاہے وہ کسی بھی جانب سے ہو باتیں کروڑوں کی
اور دکان پکوڑوں کے مصداق سیاسی بازیگروں کے پاس ویژن اور سیاسی تربیت کے
فقدان نے انکوسیاست کے میدان میں جتنا ذلیل ورسواکیا ایسے عناصر سیاسی
کوپاکستان میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور المیہ یہ بھی ہے ایوانوں کے چاروں
طرف ؟کے بجائے اب صرف ایک ہی جانب دیکھناپڑھتاہے پاکستانی سیاست میں تبدیلی
کے نام پرہمیشہ اس قوم کوسوائے دکھوں کے کچھ نہیں ملا جبرکی سیاست نے پورے
ملک کیساتھ ساتھ شہرقائدکی سیاست کا بھی حلیہ بگاڑ دیاہے تنقید کو نفرت
انگیزی کے سانچے میں ڈال کرانتقامی سیاست کوفروغ دیتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل
کیئے جارہے ہیں قابلیت کامعیار زمانہ جہاہلیت کی تصویرپیش کررہاہے اور اس
پر المیہ یہ ہے کہ اپنے اس عمل کوجائز قرار دیتے ہوئے منفی سوچیں توجیہات
پیش کرتے نظر آتی ہیں نام نہادسیاسی محب وطنوں نے اس ملک کوایف ٹی ایف
کاغلام بنوادیاہے اصولوں کی سیاست کرنیوالوں پرمفاداتی اور جبرکی سیاست
حاوی کرنے کیلیئے دن رات شیطانی طرزفکرکاپرچار کیاجارہاہے لیکن پھراس موقعے
پرقدرت کیاکہتی ہے قران کی سورہ آل عمران آیت 26میں اللہ تبارک تعالیٰ
فرماتا ہے(تو کہہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے
اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور
جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے، سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر
قادر ہے) اور یہ بات بھی اس صورتحال میں کہی جاسکتی ہے کہ "طاقت کوخدا
کاعطیہ سمجھو ،اس کو حاصل کرکے خود کو خدا نہ سمجھو"شہری قائدکی سیاست کے
ان پہلوئوں کا جائزہ لیاجائے تو اس حقیقت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں ہے
کہ نفرت انگیزی اور مفادپرستی کے قلب میں نظریات پرسمجھوتہ نہیں کرنیوالوں
نے بہت خوبصورتی سے اپنی داستان رقم کردی ہے شہرکراچی کی سیاست الف سے شروع
ہوکرنہ جانے کہاں جاکررکے گی یہ وہی سمجھ پائینگے جنکی سیاسی تربیت میں
تعطل نہیں آیاہوگایہاں سیاسی تربیت کا ان خاموش پہلوئوں کوبھی نظرانداز
نہیں کیاجاسکتاہے جوکسی نہ کسی انداز میں اپنااثرقائم رکھنے میں کامیاب رہے
شہرکراچی کوتختہ مشق بنانے کے اس عمل سے پورے پاکستان پراثر پڑرہا ہے
شہرقائدکی سیاست میں تبدیلی ناگریز ہے اور یہ تبدیلی گوکہ وہ تبدیلی نہیں
جو مفاداتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ وہ تبدیلی ہے جوجبرکے ردعمل بعد
ابھرنے والی تبدیلیوں Emerging Changesہیں اور یہ طے ہے کہ اسوقت یہ ابھرتی
تبدیلی ایسے موقعے ابھررہی ہے جب جبر کے رنگوں میں اپنے وغیردونوں کے ہی
نمایاں ہیں اور مشترکہ کیاہے صرف سیاہ ہے مسلط کردہ جبرکی تاریخ وقتی طاقت
رکھتی ہے اس میں قدرت کی جانب سے ڈھیل دی جاتی ہے اب بھی سنبھل جالیکن
زمینی طاقت کے نشے میں مست سوچوں کویہ بات اس وقت سمجھ میں آتی جب قدرت
اپنے فیصلے صادر فرماتی ہے شہرقائدکی سیاست کے رنگ اب مستقل ہونے چاہیئے
جوعوامی خدمت کاجذبہ لیکر پورے پاکستان کوترقی کی راہ پرگامزن کرسکیں بس
نفرت انگیز طرز فکرکوبدلنے کیلیئے قلبی خواہشات کااحترام بے حدضروری ہے
|
|