پاکستان کے اداکار اور دیریلس ارطغرل

پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری اس بات کی شاہد ہے کہ اس کا تفریحی مواد ایک سطح پر عوام کی اصلاح کیا کرتا تھا مگر پھر مغربیت کے طے کردہ معیارات نے پاکستانی ڈرامے کو بتدریج فحش گوئی اور عریانیت کے سمندر میں دھکیل دیا۔ اس کا اندازہ ان موضوعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو آج ہماری ٹی وی اسکرین پر چل رہے ہیں۔ ایسے میں ترک انڈسٹری سے کچھ تازہ ہوا کے جھونکے آئے ہیں۔ وہاں سے دین کی محبت میں گرفتار ایک جماعت نے اپنے اصل کی طرف پلٹنا اور اس اصل کی دعوت دنیا کو دی ہے۔ تاہم، مغرب سے مرعوب زدہ مقامی طبقہ آج پھر لعن طعن میں مصروف ہے۔ شاید اس کی وجہ اس اصل کو جھٹلانا ہے کہ جس کی دعوت ان ڈراموں میں دی گئی ہے۔

قارئین! کہاوت ہے چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ہم اسکو اس طرح بیان کرتے ہیں اداکار اداکاری سے جائے مگر دروغ گوئ سے نہ جائے۔ یہ اسلئے کہا ہم نے کہ فنکاروں کی زندگی جھوٹ اور سچ کے گرد گھومتی ہے۔ نہ مکمل سچ کہتے ہیں نہ جھوٹ موقع کی مناسبت سے رویہ تیار رکھتے ہیں !

موجودہ حالات میں قوم جس برق رفتاری سے اپنا تابناک ماضی کو بھولتی جارہی اس میں بہت بڑا کردار میڈیا بھی ادا کررہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں ادکاروں فنکاروں کو سر آنکھوں پر انکے کامیاب ہوتے ہی بٹھایا جاتا ہے۔ قوم ان سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ انکے نبھائے ہوئے کردار افراد کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔ ایسے میں اداکار زندگی کے حوالے جو پیمانے ترتیب دیتے ہیں قوم من و عن انکو قبول کرتی ہے اور ان پر عمل پیرا ہوتی ہے۔

آج اس صنعت سے وابستہ افراد اپنے ماحول کے باعث بری طرح "مغرب زدہ" ہیں۔ "دیریلیس ارتغرل" نامی سیریز جو کہ بنیادی دینی اقدار و روایات سے مزین ہے اسکو لے کر پاکستانی اداکاروں و اداکاراوں نے طبل جنگ بجایا ہوا ہے۔ حال ہی میں رمضان ٹرانسمیشن کے دوران اداکارہ ریما(موصوفہ امریکا میں رہائش پزیر ہیں رمضان میں پاکستان کا رخ کر کے یہاں اس ڈرامے اور اس کے نشر ہونے کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں) نے کہا :

"اپنے ملک میں بےشمار ٹیلنٹ ہونے کے باوجود کسی دوسرے ممالک کا مواد اپنی اسکرینز پر چلانا پاکستان کے ان فنکاروں کے ساتھ ناانصافی ہے جو پہلے سے ہی مشکل کا شکار ہیں۔

ریما خان نے مزید کہا کہ ’پاکستان کے فنکار اس ملک کے ٹیکسز ادا کرتے ہیں، وہ نہیں جن کا کام اسکرینز پر چلایا جارہا ہے، یہ فرق غلط ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے"

اداکار شان شاہد نے بھی ’ارطغرل غازی‘ کے پی ٹی وی چینل پر نشر ہونے کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کیا تھا۔

شان کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ انہیں علم ہے کہ جب حالیہ معاشی بحران میں ہم بیرون ممالک کی چیزیں امپورٹ نہیں کر پا رہے تو پھر ہمارا ریاستی ٹی وی پی ٹی وی کیوں بیرون ممالک کے ڈرامے دکھا رہا ہے؟
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید لکھا تھا کہ ہمیں اپنے ٹیلنٹ پر یقین رکھنا چاہیے اور انہیں آگے بڑھانے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔

شان شاہد نے اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعظم عمران خان کو مینشن کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کو بھی ان کی مدد کی ضرورت ہے۔

شان شاہد کی جانب سے اپنی ٹوئٹ میں دیریلیش ارطغرل کا ذکر نہیں کیا گیا تھا مگر ان کا اشارہ اسی ڈرامے کی جانب تھا، جسے یکم رمضان المبارک سے وزیر اعظم کی فرمائش پر پاکستان ٹیلی وژن پر نشر کیا جا رہا ہے۔

اس بیان کی بات کی جائے تو اس لہجے اور ان جملوں سے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کی تباہ حالی کا رونا رویا جارہا ہے مگر یہاں اس "غم" کے پیچھے چھپا وہ مکروہ چہرہ بھی عیاں ہے کہ جو اسلامی تعلیمات کے ابلاغ کے باعث سرخ ہوچکا ہے۔ اداکارہ ریما انہی نجی چینلز پر بیٹھ کر یہ بات کررہی ہیں کہ جنہوں نے ریاستی ابلاغ کے اداروں کا بیڑا غرق کردیا۔ جن چینلز کی بہتات سے پی ٹی وی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور جن چینلز کے باعث یہ ادارہ صرف وزرائے اعظم کی تقاریر نشر کرنے کیلئے رہ گیا ہے گو کہ فنکار یہاں ٹیکس بھر رہے ہیں مگر انکے ڈرامے جن چینلز پر نشر ہورہے ہیں وہاں سے عرصہ قبل "دیریلس ارطغرل" اردو ڈبنگ میں نشر ہوچکا تھا (اشارہ 2014 میں اس ڈرامے کے پہلے سیزن کی طرف ہے جو ہم ستارے نامی چینل سے نشر ہوا تھا) تب موصوفہ خاموش تھیں۔ تب وہاں چینل مالکان کا مفاد تھا۔انہی اسکرینز پر چند سال قبل تک ہندوستان کے ڈرامے چل رہے تھے موصوفہ تب بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں مگر جیسے ہی یہ ڈرامہ نشر ہوا انھوں نے "مغرب" سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے فورا بیان داغ دیا جو کہ اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ اس صنعت میں سینئر اداکار اگر ایسی دین بےزاری کا شکار ہیں تو نئے آنے والوں کو تو اللہ ہی حافط ہے !

اداکار شان کا جواز بھی ناقابل فہم ہے۔ موصوف نوے کی دہائ سے فلم انڈسٹری سے وابستہ ہیں مگر انکا کام نئ نسل شاید ہی جانتی ہو۔ فلم انڈسٹری کے حیات نو کا سبب بننے والی فلم "وار" جس میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا مگر حیرت کی بات تو یہ تھی کہ مکمل فلم پاکستانی فلم بینوں کیلئے انگریزی ڈائیلاگ کیساتھ بنائ گئ۔شاید قومی زبان اردو ہے یاد نہیں رہا۔

تھیٹرز میں بھی جب نشر کی گئ تب بھی انگریزی زبان میں ہی تھی۔ یہ کیسا مذاق قومی زبان کیساتھ کیا گیا اس پر آج تک کوئ پوچھ گچھ نہ ہوسکی۔ موصوف کی ایک اور فلم بھی ریلیز کیلئے تیار ہے جسکے ٹریلر سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ وہ فلم بھی مکمل انگریزی میں تیار کی گئ ہے۔ بھاری بجٹ سے تیار کی گئ فلم کہ جو پاکستانی فلم بینوں کیلئے ہے اگر اسکو انگریزی میں تیار کیا جارہا ہے تو میرا نہیں خیال کہ انکو قوم کی تفریح سے کوئ غرض ہے۔ اس ڈرامے پر انکا یہ جواز کہ یہ "قومی ادارہ برائے ابلاغ" سے نشر ہورہا ہے نہایت مضحکہ خیز ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ جس ٹی وی چینل کی نشریات ملک میں نہ کہیں سنیں نہ دیکھی جاتی تھیں اور اس ڈیجیٹل دورمیں بھی جس چینل کے یوٹیوب سبسکرائبرز دیریلس کے نشر ہونے سے قبل چند ہزار ہی تھے۔ اس ڈرامے نشر ہونے کے بعد تعداد لاکھوں میں ہے۔اس سے قبل جیو گروپ نے "کوسیم سلطان ، میرا سلطان" جیسے ڈرامے اردو میں ترجمہ کرکے پیش کیے ہیں اور ناظرین نے اسکو دیکھا بھی اور پسند بھی کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو "دیریلس" قومی ٹیلیویژن پر نشر ہورہا ہے جس کا فائدہ کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ ریاست کو ہورہا ہے۔

اگر مادی فائدے کی آنکھ سے دیکھا جائے تو جو کام پچھلے بیس سالوں میں "شان اور ریما" نہ کرسکے وہ کام چند دن میں ترک اداکار و اداکارہ بالترتیب"اینگن آلتن دوزیاتن اور ایسرا بلجک" نے کر دکھایا ہے۔
اس ڈرامے کی کامیابی ان تمام چینل مالکان کے منہ پر طمانچہ ہے جو قوم کی ذہنی تربیت میں بگاڑ اور اسکے رجحانات کو اسکی فطرت کے خلاف اپنے ڈراموں کے ذریعے صرف چند دن کے دنیاوی اغراض کے باعث موڑ رہے ہیں۔ ابلاغ ریاستی ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے اگر اس میں بگاڑ پیدا ہو تو یہ بگاڑ چند افراد تک ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں تک جاتا ہے۔

اسی ضمن میں اداکار یاسر حسین کا بیان بھی ملاحظہ فرمائین موصوف کے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک ایوارڈ شو کے دوران نہایت بے ہودہ مذاق بچوں سے بدفعلی کے حوالے سے کیا۔ اسکے علاوہ ساتھی اداکارہ کو بھری دنیا کے سامنے شادی کیلئے پروپوز کیا اور ایوارڈ شو میں "لبرل" ہونے کا ثبوت "بوسہ" دے کر کیا اور واضح رہے کے "قومی ٹی وی" پر نشر ہونے والے ایوارڈ شو میں یہ سب وقوع پزیر ہوا۔ موصوف فرماتے ہیں:

پی ٹی وی کو چاہیئے کہ ایک تاریخی ڈرامہ بنائے اور اپنے فنکاروں اور تکنیک کاروں کو استعمال کرے ۔ وہ فنکار جو ٹیکس دیتے ہیں اور قابلیت رکھتے ہیں۔ لنڈے کے کپڑے اور ترکش ڈرامے دونوں ہی مقامی صنعت کو تباہ کردیں گے۔ جب آپکے بھائ کو بینک سے بہن کو اسکول سے اور ابو کو انکی ملازمت سے نکال کر ترک نژاد باشندوں کو ملازمتیں دی جائینگی تو شاید آپکو اندازہ ہوگا کہ میں کیا کہے رہا ہوں۔ پی ٹی وی قومی ابلاغ کو ادارہ ہے یاد رہے۔

اس بیان کے چار حصے ہیں : پاکستانی تاریخی ڈرامے، پاکستان میں آنے والا نشریاتی مواد، ملازمت کے مواقع،قومی ابلاغ کا ادارہ پی ٹی وی۔

شاید یاسر صاحب کو آخری چٹان جیسا شہرت یافتہ ڈرامہ یاد نہیں شاید انکو اس میں کام کرنے والے مایہ ناز اداکار بھی یاد نہیں جبھی موصوف پی ٹی وی کو ہدایت دے رہے ہیں انکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہ ڈرامے ہمارے بڑوں نے عرصہ قبل دیکھے ہیں مگر بدقسمتی سے نجی اداروں نے ان کاوشوں پر پانی پھیر دیا اور آج ویسے ڈرامے کی توقع نجی چینلز سے رکھنا لا یعنی ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل بھارتی فلمز سنہ دو ہزار آٹھ سے دکھائ جارہی ہیں آپکا تعلق بھی عرصے سے اس صنعت سے وابستہ ہے اس دوران تو آپ نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔۔ لے دے کر آپ کی ٹانگ اس ڈرامے پر ہی ٹوٹی ہے کہ جس کی ابھی پچیس اقساط ہی نشر ہوئ ہیں اور پی ٹی وی کے یوٹیوب چینل نے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ سمجھ سے بالاتر تو جواز یہ ہے کہ پی ٹی وی کو نقصان ہورہا ہے۔۔ ریٹنگ کے اعداد و شمار آپکے سامنے ہیں۔ رہی بات ملازمت کی تو یہ ڈرامہ اسی ممالک میں دیکھا گیا ہے اور کچھ ممالک میں سرکاری سطح پر نشر بھی ہوا ہے مگر تاحال مقامی ملازمین کا اپنی "ملازمتوں" سے ہاتھ دھوبیٹھنے کی اطلاع کہیں سے بھی موصول نہیں ہوئ ہے۔ دنیا بھر میں ڈبنگ کرنے والی صنعت ترقی کررہی ہے جبکہ یہاں ہمارے اداکاروں کو یہ فکر لاحق ہے کہ روزگار "برباد" ہورہا ہے ۔ترک قوم نے "اسلامی ڈرامے" موجودہ دور میں نہ صرف تخلیق کئے ہیں بلکہ انکو کامیابی سے نشر بھی کروایا ہے اور دین کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا ہے۔دنیا میں باطل کے اس ہتھیار کے سامنے اپنا ہتھیار پیش کیا ہے اور باطل اس سے خوفزدہ بھی ہے جو کہ ترک بیانیہ کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس تناظر میں ان کے اپنے ملک میں ادکاروں کیلئے کام بے تحاشہ ہے۔ اس سیریز کے ایک اداکار جنہوں نے تورگت الپ کا کردار بنھایا ہے دو پزار اٹھارہ میں ڈرامے کے دوران شوٹنگ چھوڑ گئے تھے اسکی وجہ ایک دوسری فلم کہ جو اسلامی تاریخ کے حوالے سے تھی۔ بعد ازاں شوٹنگ مکمل ہوتے ہی انھوں نے دیریلس کی ٹیم کو جوائن کرلیا تھا۔
یہاں یہ بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا چرچا ان نام نہاد "مغربیت کے ماروں" کو کسی صورت پسند نہیں۔
یہ بات صنعت سے وابستہ لوگوں کو سمجھنا ناگزیر ہے کہ حالات و واقعات اب پہلے سے بدرجہا مختلف ہیں۔ قوم کے سامنے مختلف اقسام کی ویب سیریز اور فلمز موجود ہے۔یہاں "پاکستانیت" کا نعرہ لگا کر آپ انکی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرواسکتے آپکو اپنے مواد میں جدت پیدا کرنے کیساتھ ساتھ قوم کے اجتماعی ذہن سے مطابقت رکھنے والا مواد بنانا ہوگا۔ چونکہ قوم کا اجتماعی شعور دین سے مطابقت رکھتا ہے (اسکا ثبوت خود ڈرامے کا ترکی سے زیادہ پاکستان میں پسند کیا جانا ہے) اس لئے آپ انکو تہذیب وثقافت کے نام پر جو "ڈرامے" پیش کررہے ہیں انکو بند کر کے اصلی معنوں میں دین کے اجتماعی شعور کو اجاگر کرنے کیلئے کام کریں۔ دنیا میں بسنے والی دیگر اقوام آج یہی کام کررہی ہیں ان میں امریکا بھارت سر فہرست ہیں کہ جو اپنے نظریات کا پرچار بھرپور طریقے سے کررہی ہیں۔ اگر آج آپ نے یہ بیڑا نہیں اٹھایا تو قوم اپنے عظیم ماضی کو کہیں اور تلاش کریگی چونکہ ڈرامے اور فلمز کا میڈیم نہایت موثر ہے اور قوم اسکو پسند بھی کرتی ہے۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھے گی کہ یہ کس زبان میں نشر ہورہا ہے اگر وہ اس کے تابناک ماضی اور اس کے دین سے قریب ہے تو ہر حال میں اسکو دیکھے گی چاہے وہ دنیا کی مشکل ترین زبان میں ہی کیوں نہ ہو۔ فرق یہی ہوگا کہ اس وقت آپ دیکھ بھی رہے ہونگے سن بھی رہے ہونگے مگر کچھ کرنے کے قابل نہ ہونگے کیونکہ قوم پھر ان لوگوں کو موقع دیگی کہ جو دین سے بیزار نہیں بلکہ اس پر فخر کرنے والے ہونگے۔

خدا آپکو دین کی سمجھ عطا کرے اور اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

انسان اپنے ہر عمل کا مکلف ہے اور اسکے ہر فعل کی متعلق قیامت کے دن رب العالمین خود سوال کریں گے۔

 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 26890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.