|
|
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اگر رشوت کو قرار دیا جائے
توغلط نہ ہوگا۔ رشوت کے ناپسندیدہ عمل کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دینے
میں سب سے اہم کردار ہمارے سرکاری اداروں کا ہے جو ہر جائز کام کے لیے بھی
دھڑلے سے نہ صرف رشوت طلب کرتے ہیں بلکہ رشوت لیے بغیر کوئی بھی فائل آگے
نہیں جاتی ہے- |
|
ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ حکومت میں بھی رشوت ستانی
کی شرح بہت بلند ہے یہاں تک کہ اس حکومت کے حوالے سے تو یہ بھی کہا جاتا ہے
کہ یہاں پر انسداد رشوت ستانی کے ادارے میں بھی رشوت لے کر کام کیا جاتا ہے- |
|
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر شہزاد حسین صدیقی نامی ایک
شخص کی درخواست نظر کے سامنے سے گزری جو ایک آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کمپنی کے
مالک ہیں جن کا کام مختلف جگہوں پر کمپنیوں کے بل بورڈز آویزان کرنا ہوتا
ہے- |
|
|
|
ان کا یہ کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں بل بورڈز کو
آویزاں کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ڈائیریکٹر ایڈورٹائزمنٹ کی
اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اور نجی عمارتوں پر اس اجازت کے بعد بل بورڈ لگائے
جا سکتے ہیں- |
|
ان بل بورڈز کو لگانے کے لیے سول انجنئیرنگ سرٹیفیکیٹ
اور این او سی حاصل کرنا ضروری ہوتی ہے جس کے بعد ڈائیریکٹر ایڈورٹائزمنٹ
حکم نامہ جاری کر دیتا ہے- مگر جس طرح ہر جائز کام کے لیے رشوت کی ضرورت
ہوتی ہے تو ڈائيریکٹر ایڈورٹائزمنٹ بھی یہ اجازت رشوت لے کر ہی دیتا ہے- |
|
مگر اس کے بعد ڈی سی ساؤتھ اور ایم سی ساؤتھ ان بل بورڈز
کو اتارنے کے درپے ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کو بھی رشوت چاہیے ہوتی ہے تو اس
حوالے سے شہزاد احمد صدیقی نے ناصر حسین شاہ صاحب سے اس درخواست کے ذریعے
یہ استفسار کیا ہے کہ وہ ان کو بتا دیں کہ اصل میں ان کو رشوت کس کو دینی
ہوگی تاکہ اس کے بعد وہ سکون سے اپنا کاروبار کر سکیں- |
|
اس کے حوالے سے انہوں نے اپنے ایک دوست کی بھی مثال دی
کہ ان کے لگائے ہوئے بل بورڈ جو انہوں نے باقاعدہ طورپر ڈائیریکٹر
ایڈورٹائزمنٹ کی اجازت سے لگائے تھے ان کو نہ صرف ڈی سی ساؤتھ اور ایم سی
ساؤتھ نے اتروا دیا بلکہ ان کے اوپر لگے پینا فلیکس بھی پھاڑ دیے گئے- |
|
|
|
یہاں پر شہزاد احمد صدیقی نے ناصر حسین شاہ صاحب کو
مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان کی اس درخواست کا قطعی طور پر یہ مقصد
نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ رشوت نہ لی جائے بلکہ ان کا صرف یہ کہنا
ہے کہ اگر رشوت لینی ہی ہے تو یہ بتا دیا جائے کہ کس ادارے کو دینی ہے اور
ساتھ میں یہ بھی ممکن بنایا جائے کہ یہ رشوت اجازت نامہ دیتے ہوئے سال میں
ایک ہی بار لی جائے اور ہر تین مہینے بعد رشوت کا تقاضا نہ کیا جائے- |
|
اس درخواست میں انہوں نے دارالعلوم کورنگی کے مفتی تقی
عثمانی صاحب کے ایک فتویٰ کا بھی ذکر کیا جس کے مطابق جائز کام کے لیے
مجبوراً رشوت کا دینا جائز ہے مگر اس کو دیتے ہوئے ایک خاص نیت ہونی چاہیے- |
|
اس درخواست کے اوپر باقاعدہ اس کی وصولی کی مہریں بھی
موجود ہیں جس کے مطابق یہ سندھ کے مختلف اداروں سے وصول کروائی جا چکی ہے
جس کا مطلب ہے کہ اب اس درخواست کا جواب باقاعدہ طور پر سندھ حکومت کو دینا
لازم ہو گیا ہے- |
|
تاہم اب تک اس کا ناصر حسین شاہ کی جانب سے کوئی جواب
سامنے نہیں آسکا ہے ۔ اس درخواست کے جواب کے سامنے آنے کی صورت میں امید کی
جا سکتی ہے کہ سندھ کی عوام کو آگاہی ہو سکے کہ ان کو اپنے جائز کام کروانے
کے لیے بھی کہاں اور کتنی رشوت دینی ہوگی- یہ صورتحال شرمناک ہونے کے ساتھ
ساتھ افسوس ناک بھی ہے- |