|
|
سیاست کے متعلق کچھ شریف افراد کا یہ کہنا ہے کہ دھندہ
ہے پر گندہ ہے اور جس انسان کو اپنی عزت اڑوانے کا شوق ہو اس کو سیاست میں
اجانا چاہیے- حالیہ دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جس بدزبانی اور
غیر شائستہ طرز گفتگو رہا اس نے سینئير سیاست دان چوہدری شجاعت کو قرآن میں
سورہ حجرات کی آیات کا حوالہ دینے پر مجبور کر دیا جس کی بنیاد پر ایک
دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے کی سزا اللہ کی بارگاہ میں کتنی بڑی ہے - |
|
سیاست دانوں کو ایک
دوسرے سے بد زبانی کا پس منظر |
پاکستانی عوام کی حافظے کے حوالے سے سیاست دانوں کا یہ
ماننا ہے کہ وہ بہت معصوم اور کمزور حافظے کے مالک ہیں ایک جانب توچیزوں کو
بھول جاتے ہیں اور دوسری جانب حقیقت کو جانے بغیر اپنے لیڈران کے پیچھے
چلنا شروع ہو جاتے ہیں- |
|
عام طور پر سیاست دان جو ایک دوسرے کو مختلف ناموں اور
برے القابات سے پکارتے ہیں اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہوتی ہے مگر عوام
اپنی معصومیت کے سبب اس سے ناواقف ہوتے ہیں ایسے ہی ایک راز کی مثال کے
ذریعے آپ کو سمجھاتے ہیں- |
|
|
|
مولانا فضل الرحمن کو
ڈیزل کیوں کہتے ہیں |
مولانا صاحب کو ڈیزل کا خطاب مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی
کے رکن خواجہ آصف نے 1996 میں دیا ذرائع کے مطابق اس خطاب کو دینے کا مقصد
یہ تھا کہ افغانستان کی روس کے ساتھ جنگ کے دنوں میں جب کہ وہاں ڈیزل کی
کمی جنگ کے سبب ہو گئی تھی- تو اس وقت میں پاکستان سے افغانستان ڈيزل فروخت
کرنےکے لیس پرمٹ جاری کیس گئے تھے تاکہ لوگ افغانستان ڈیزل بیچ سکیں- اس
وقت میں مولانا فضل الرحمن نے بڑی تعداد میں یہ پرمٹ حکومت سے حاصل کر کے
فائدے حاصل کیے تھے مگر اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے ان کو مولانا ڈيزل کا
خطاب مل گیا تھا- |
|
اس کے علاوہ بھی ایسی بہت ساری کہانیاں موجود ہیں جو
سیاست دان ایک دوسرے کے حوالے سے جانتے ہیں- جیسے کہ ریحام خان کی کتاب میں
درج الزامات یا پھر مراد سعید کے مختلف جھگڑے کا ذکر اپنے مقاصد کے لیے
کرنا- |
|
|
|
تاہم اس طرز عمل نے سیاست جیسے مقدس پیشے کو بدزبانی اور
بدتمیزی کی ایک مثال بنا دیا ہے- |