قومی الیکشن کمیشن کا "مون برت" افسوسناک

مجھے 1991 کے عام انتخابات کے دوران کی وہ رات آج بھی یاد ہے جب جنوبی ممبئی کے علاقے ناگپاڑہ کا ایک انتخابی جلسہ میں سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے انتظار میں کانگریسی ورکروں کے ساتھ ساتھ ہم صحافیوں ،حاضرین اور پولیس اہلکاروں کو صبح 4بجے تک جلسہ گاہ میں رکنا پڑاتھااور راجیو گاندھی صبح سویرے پہنچے اورصرف 25 منٹ خطاب کے بعد اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگئے،پھر چند روز بعد ہی تمل ناڈو میں انہیں خوکش بمبارنے بم دھماکہ میں قتل کردیاتھا۔البتہ مذکورہ عام انتخاب کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔کیونکہ ٹی این سیشن نے چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا ڈنڈاگھوما دیا تھا۔حالانکہ سیشن 1990ء میں ہی چیف الیکشن کمشنر بن گئے تھے،لیکن اس عام انتخابات کے بعد وہ سرگرم ہوئے اور 1996ء تک عہدے پر فائز رہے،انہوں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ، ان کادبدبہ بلکہ الیکشن کمیشن کے قوانین، اصول وضوابط پر عمل آوری حال تک ہوتی رہی ۔

آج کے حالات کا جائزہ لینے سے قبل میں انتخابی بد عنوانیوں کے خلاف ٹی این سیشن کی سرگرمیوں اور صاف ستھرے انتخابات کے لیے ان کے ذریعہ قوانین اور ضوابط کے نفاذ کے بارے میں ذکرکرنا چاہتا ہوں۔ان کی کاردگی کے سبب سیاست داں پریشان ہو گئے۔انہوں نے پانچ چھ برس میں جو رخ اختیار کیاتھاکہ آج بھی لوگ اسے ’’انتخابی جمہوریت کا دوسرا سنہری دور‘‘ کہتے ہیں۔ ٹی این سیشن 1955 ء کے بیچ کے آئی اے ایس عہدیدار تھے۔ انھوں نے ریاست میں تملناڈومیں کلکٹر کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی خدمات انجام دیں۔ انھیں 1989ء میں کابینی سکریٹری بنایا گیا اور منصوبہ بندی کمیشن کے رکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے خدمات انجام دیں اور1990 میں چیف الیکشن کمشنر بنائے گئے ۔بعد میں 1997 میں صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لیے انتخابی مقابلہ کیا تاہم ناکام رہے۔صدر جمہوریہ کے لیے ان کی نامزدگی کو صرف مہاراشٹر کی شیو سینا نے حمایت کی تھی۔ وہ کانگریس کی طرف سے ایک موقع پر لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی لیڈرایل کے اڈوانی کے مد مقابل بھی ہوئے تھے، مگر کامیابی نہیں ملی تھی۔

لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ انتخابی بد عنوانیوں کے خلاف ٹی این سیشن کی کار گزاریوں سے سیاست دانوں کے درمیان کھلبلی مچ گئی تھی اور افراتفری کا ماحول بن گیا تھا، کیونکہ انہوں نے غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کے لیے بھر پور منصوبہ بندی کی تھی،اور ان کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی غیر جانبدارانہ طور سے الیکشن کو پائے تکمیل تک پہنچایاجاتا رہا۔بس چند سال پہلے ماحول کا رنگ بدلابدلا لگ رہا ہے۔

سیشن نے انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ کرکے لیڈروں اور لوگوں یہ احساس دلایا کہ الیکشن کمیشن کا کردار کیا ہوتا یے۔اس سچائی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمشن کے اصولوں اور ضابطوں کی دھجیاں اڑانے والوں کوکمیشن کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ ہوگیا ۔ ٹی این سیشن نے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے صاف شفاف الیکشن کو پائے تکمیل تک پہنچایا بلکہ حال کے چند سال پہلے تک ہونے والے انتخابات میں یہی اندازپایا گیا،لیکن یہ افسوس ناک امر ہے کہ ٹی این سیشن نے الیکشن کمیشن کے وقار کوجس مقام تک پہنچایاتھا، اسے آج ارباب اقتدار نے اقتدار کے نشے میں خاک میں ملادیاہے۔سیشن کے دور میں انتخابی کاخاتمہ رات 10بجے ہونے لگا تھا،جلسہ وجلوس پر دس بجے کے بعد مکمل پابندی لگا دی گئی تھی۔ لاوڈاسپیکروغیرہ پر رات 10بجے سے صبح 6بجے تک پابندی کاعمل تب ہی شروع ہوااور اس ہر عمل کیا جارہا ہے۔البتہ دوسرے معاملات بمیں الیکشن کمیشن کے وقار کو پیروں تلے روند ڈالا گیا ہے اورعام آدمی کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کمیشن ایک مخصوص پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ابھی پچھلے سال مغربی بنگال ریاستی انتخابات میں الیکشن کمیشن پر جانبداری کاالزام عائدکیا گیا۔ ترنمول کانگریس پارٹی نے مسلسل الزام لگای کہ کمیشن نے آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑائی ہیں،اس کے باوجود ٹی ایم سی نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔حال میں اتر پردیش کے سات مراحل کے پولنگ کے چھ مرحلوں میں کمیشن نے جو رخ اختیار کر رکھا ہے۔وہ افسوس ناک ہے،یاد دلادیں کہ الیکشن کمیشن کو رام کرنے کے لیے یوپی الیکشن کے اعلان سے قبل کمیشن کے افسر کو پی ایم او میں طلب کیا گیا تھا جوکہ قانون وآئین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ایجنسی ہے ،اس طرح کمیشن کے کسی افسر کی طلبی کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا یے، اس معاملہ میں کئی سطحوں پر احتجاج بھی سامنے آیا لیکن ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی اور کمیشن نے بھی خانوش رہنے میں ہی خیر سمجھی اور اس خاموشی کا برسراقتدار پارٹی نے پورا فائدہ اٹھایاہے،بلکہ یہ کہنے میں کو ئی عار نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت نے کھلے عام فرقہ وارانہ منافرت پھیلا نے اور کیچڑ اچھالنے کی گندی سیاست کا کھیل کھیلا ہے۔اس کھیل میں بڑے بڑے قدآور سیاسی لیڈر شامل رہے۔ذاتی ریمارکس اور رکیک جملے ادا کیے گئے ہیں۔

ملک کی برسر اقتدار جماعت نے سرکاری مشینری،سرکاری ذرائع ابلاغ اور غیر سرکاری قومی میڈیا، خصوصی طور پر الیکٹرونک میڈیا کا بے دریغ غلط استعمال کیا ہے، برقی ذرائع ابلاغ نے یوکرین پر روس کے حملے اور وہاں پھنسے ہندوستانی طلباء کو واپس لانے کی "گنگا مہم" کو بڑے پیمانے پر کوریج دیا،اس درمیان پارلیمنٹ کے اجلاس میں صدر کے خطبہ پر شکریہ کی رسم ادا کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کے خطاب اور ماہانہ "من کی بات" ریڈیو پروگرام کو عین انتخابات کے موقع پرپیش کیے گئے کمیشن سے کسی میڈیا نے یہ نہیں پوچھا کہ ان پروگراموں کو پیش کرنے کی اجازت کس بنیادپر دی گئی۔مذکورہ معاملات کا جو ذکر کیاگیا ہے،اس کے دوران مودی جی اپنی حکومت کی کامیابی کے گن گاتے نظرآئے۔اور ہاں کرناٹک میں دانستہ طور پر حجاب کے ایک معمولی مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے ساتھ ہی یہی کوشش کی گئی کہ اس مسئلہ کو طول دیاجائے،تاکہ اتر پردیش انتخابی مہم کے دوران عام ذرائع ابلاغ پر یہ معاملہ موضوع بحث بنارہے۔ پتہ نہیں عدالت میں بھی اس پر طویل بحث جاری رہی ہے۔عجیب وغریب بات یہ ہے کہ اترپردیش میں عام پر جگہ جگہ کوویڈ اصولوں،سماجی دوری بنائے رکھنے کے معاملات میں اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی عام سی بات رہی ہے ،لیکن کمیشن کی بے رخی سے پتہ چلتاہے کہ قومی الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ طور سے کام نہیں کر رہاہے ، جب کہ الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار رہنا چاہئے، اسے کسی بھی پارٹی کی طرفداری نہیں کرنی چاہئے۔ ان تمام معاملات اور واقعات سے چیف الیکشن کمیشن کی چشم پوشی سے لگتا ہے کہ جیسے کمیشن نے "مون برت "رکھا ہواہے۔

 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 33579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.