مسلم لیگ (ن)کے قائدین کی طرف سے
بار بار زرداری حکومت پر کرپشن ،عدلیہ سے تصادم اورقانون شکنی کا الزام
عائدکیاجاتا ہے جواب میں پیپلزپارٹی والے بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی
حکومت کوکڑی تنقیدکانشانہ بناتے ہیں۔حقیقت میں سندھ سے پنجاب اورپختونخواہ
سے بلوچستان تک کسی صوبے میں گڈگوررننس نہیں ہے۔وفاقی حکومت
اپناوجودبرقراررکھنے کیلئے عدلیہ سے برسرپیکار ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں
کہ اس وقت پاکستان میں کرپشن کاسورج سوانیزے پرہے اورپنجاب بھی بجاطورپراس
کام میں پیش پیش ہے۔وفاق اور پنجاب میں ایک طرح کی جمہوریت رائج ہے اوراس
جمہوریت پرعام آدمی کاکوئی حق نہیں۔اٹھارہ سے بیس فیصد ووٹرز کے نمائندے
اٹھارہ کروڑپاکستانیوں کااستحصال کررہے ہیں ۔ہرسیاسی جماعت آزادی صحافت کے
حق میں بولتی ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں صحافیوں کی زندگی جس قدرآج
خطرے میں ہیں اس قدرتوفوجی آمر پرویزمشرف کے دورمیں بھی نہیں تھی۔
پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ن)اورمسلم لیگ (قائداعظمؒ) کے اراکان اسمبلی کی طرف
سے قانون شکنی کے واقعات ریکارڈ پرہیں مگران میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان
اسمبلی کی تعدادزیادہ ہے۔اگرقانون سازی کیلئے منتخب عوامی نمائندے دھڑلے سے
قانون شکنی کریں گے توعا م آدمی سے قانون کے احترام کی امید کرنابے سودہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کی قانون شکنی کے ایک واقعہ کی باز گشت ابھی
ختم نہیں ہوتی کہ دوسرا وقوع پزیر ہو جاتا ہے۔ سنا ہے قیادت کی طبیعت کا
اثر اس کے کارکنوں کی تربیت میں دکھائی دیتاہے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ ولید بن
عبدالمالک کو عمارتیں بنانے کا شوق تھا اس کے دور میں جب لوگ جمع ہوتے تو
زیادہ تران کی گفتگوکا کاموضوع عمارات کے بارے میں ہوتا۔ سلیمان بن
عبدالمالک کوبار بار نکاح کرنے کی عادت تھی لہٰذا ان کے دور حکومت میں
اگرکچھ جمع ہو تے تووہ خواتین کے بارے میں گفتگو کیا کرتے ۔ حضرت عمر بن
عبدالعزیز کے دور میں لوگ محفلوں میں قرآن کی آیات اور دینی امور کے متعلق
بات چیت کیا کرتے تھے ۔ سو یہی حال مسلم لیگ (ن) کا ہے در اصل میاں
نوازشریف کے دوراقتدارمیں عدالت عظمیٰ پرحملہ کیا گیا اورآج یہ جماعت عدلیہ
کی محافظ ہونے کی دعویدار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اورصوبائی کابینہ کے
ارکان بجلی چوری میں ملوث پائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی وصوبائی
اسمبلی کو اتنی جرات ہوتی ہے کہ وہ قانون شکنی کرکے باآسانی بچ جاتے ہیں۔
جس طرح اسلام آبادسے مسلم لیگ (ن) کے ممبرقومی اسمبلی انجم عقیل کو فائرنگ
کر کے مقامی پولیس کی حراست سے چھڑایا گیا۔ اس کی توقع کسی ذمہ دار جماعت
سے قطعاً نہیں کی جا سکتی۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات میں ایک اور خبر دیکھنے
کو ملی کہ لاہور کے ایک ایم این اے شیخ روحیل اصغر نے گراں فروشی کے جرم
میں مجسٹریٹ کے گرفتار کردہ دکانداروں کو جبراً پولیس کی حراست سے چھڑا لیا۔
ان تمام واقعات کے ساتھ ہی فیصل آباد کے ایک جلوس میں مسلم لیگ(ن) کے
کارکنوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک بچی کی ہلاکت کی خبر بھی آ گئی۔ ملک کی
کوئی بھی سیاسی جماعت اتنی قانون شکنی کی مرتکب نہیں ہوئی جتنی کہ یہ جماعت۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن لوگوں کا انتخابی ایجنڈا ہی امن انصاف اور
روزگار تھا انہوں نے ہی امن و انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں، رہی روز گار کی
بات تو اخبارات گواہ ہیں کہ سب سے زیادہ روزگار اسی جماعت کے دور اقتدار
میں چھینا گیا۔ چاہے وہ ریڑھی بان اور ٹھیلے والے ہوں یا سبزی منڈی کے
آڑھتی سب ان کے اس شوق کی زد میں آئے۔ ان حالات میں ان کا انتخابی پوسٹر جس
پرمیاں نواز شریف کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا تھا امن ، انصاف ، روزگار محض
ایک مذاق بن کررہ گیا ۔ مسلم لیگ(ن) کی قانون شکنی کی تاریخ پرانی ہے ان کے
ہر دور میں قانون کی دھجیاں بکھیریں گئیں۔ کسی حکومت کے کارکنوں کو عدلیہ
پر براہِ راست حملے کی جرات آج تک نہیں ہوئی یہ اعزاز بھی اسی جماعت کے حصے
میں آیا ہے ۔ ان کے ممبرقومی اسمبلی انجم عقیل نے اربوں روپے کا فراڈ کیا
اور جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس پر پنجاب کی حکمران جماعت کے کارکنوں نے
غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے اس
قومی ملزم کو چھڑا لیااوربعدازاں قیادت کے دباﺅپرگرفتاری پیش کردی یعنی یہ
لوگ آئین اور قانون سے زیادہ قیادت سے ڈرتے ہیں ۔
حال ہی میں لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے ممبر پنجاب اسمبلی سیّد زعیم حسین
قادری کے انتخابی حلقہ میں ان کے رابطہ عوام دفتر سے بجلی چوری پکڑی گئی
اورمقامی پولیس تھانہ میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی جس کی اطلاع قومی
اخبارات کی وساطت سے موصول ہوئی لیکن تاحال مسلم لیگ (ن) کی قیادت یاریاست
کی طرف سے سیّدزعیم حسین قادری کیخلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی ۔اگریہ
چوری کسی عام صارف کے گھر یادفتر سے پکڑی جاتی تواس وقت وہ سلاخوں کے پیچھے
ہوتا ۔لیکن عوام کے منتخب نمائندے قانون توڑنا اورعوام کے حقوق سلب
کرنااپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔
ماضی قریب میں اسی جماعت کی ایک خاتون ممبرپنجاب اسمبلی شمائلہ رانا نے ایک
کلب میں سے ایک خاتون کے پرس میںسے کریڈٹ کارڈ چوری کرکے جیولری خرید ی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے محض بدنامی سے بچاﺅ کیلئے طوہاً و کرہاً اس سے
استعفیٰ طلب کر لیا خاتون نے اسے اپنے خلاف ایک سازش قرار دے دیا ۔ ابھی یہ
واقعہ میڈیا سے غائب نہیں ہوا تھا کہ سیالکوٹ سے مسلم لیگ (ن)کے ایک
ممبرپنجاب اسمبلی منور گل نے ایک خاتون کی عصمت دری کر ڈالی۔ بعد میں دباﺅ
اور لالچ کے ذریعے اس خاتون کو کیس سے دستبردار کروا لیا گیا۔ انہی دنوں
مسلم لیگ(ن) کے وزیر قانون کا یہ فتویٰ نما بیان بھی علماءکے فتووں کی زد
میں آیا کہ منور گل نے زنا باالرضا کیا ہے اس لئے اس کےخلاف کاروائی نہیں
کر سکتے۔ واہ کیسے کیسے نابغے یہ جماعت اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ کہیں
بھی قانون نافذ ہو رہا ہو اس جماعت کے کارکن اپنی روایتی سیاسی تربیت کی
وجہ سے اسے اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ کوئی اندر سے جتنا بڑا ہوتا
ہے وہ قانون کا اتنا ہی بڑا پاسبان اور اس کی پاسداری کرنے والا ہوتا ہے ۔
حضرت علیؓ کےخلاف کسی یہودی نے اپنی زرہ کیلئے قاضی کی عدالت میں مقدمہ کر
دیا حالانکہ آپ اس وقت ریاست کے سربراہ تھے۔ آپ ؓ عدالت میں پیش ہوئے تو
قاضی نے احتراماً کھڑا ہونا چاہا اس پر آپ ؓنے اظہار ناراضگی فرمایا قاضی
نے گواہ طلب کئے تو آپؓ نے حسن ؑ اور حسین ؑ کوشہادت کیلئے پیش کیا جن کی
گواہی قاضی نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ باپ کے حق میں بیٹوں کی شہادت معتبر
نہیں ہے۔ جب شیرخدا قانون کی اتنی پاسداری کرتے تھے تو ہم اور آپ کس کھیت
کی مولی ہیں۔ لاہورسے مسلم لیگ (ن) کے ممبرقومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر نے
پولیس اور مجسٹریٹ کی حراست سے جن گراں فروشوں کو چھڑایا تھا انہیں تو
پولیس نے اگلے دن دوبارہ گرفتار کرلیا۔ لیکن بدنامی موصوف کے حصے میں باقی
رہ گئی۔ کوئی شخص جتنا مرضی با اثر یا معزز ہو قوانین میں اس کیلئے کوئی
رعایت نہیں ہوتی۔
تاجدارانبیاسرورکونین حضرت محمد نے ایک نہایت معزز قریشی عورت کا ہاتھ چوری
کے جرم میں کاٹنے کا حکم دے دیا۔ قبیلے والوں کو اس کام میں نہایت سبکی
محسوس ہوئی تو انہوں نے حضوراکرم کے نہایت محبوب صحابی غالباً حضرت زید بن
ثابت ؓ کو سفارشی بنا کر بارگاہِ رسالت میں بھیجا تاکہ اس کی سزا میں تخفیف
کی جا ئے یا معاف کر دی جائے۔ جب حضرت زید ؓنے سفارش کی تو اللہ تعالیٰ کے
محبوب حضرت محمد کا چہرہ انور فرطِ جلال سے سرخ ہو گیا ،آپ نے فرمایا خدا
کی قسم تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ و برباد کر دی گئیں کہ ان کے کمزور کو
سزا دی جاتی تھی اور طاقتور کو چھوڑ دیا جاتا تھا اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی
چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ قانون شکنی ایک وبا کی طرح
پھیلتی ہے پہلے ایک فرد کرتا ہے پھر دوسرا حتیٰ کہ اس قانون کو اتنا توڑ
دیا جاتا ہے کہ اس کی افادیت اور اس کاڈر ختم ہو جاتا ہے جب کبھی ایسا
ہوجاتا ہے تو معاشرے میں انارکی پھیل جاتی ہے طاقتور کمزور کا حق مارنے
لگتا ہے جس کے رد عمل کے طور پر کمزور ہتھیار اٹھا نے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ |