اپنی وزیر خارجہ حناربانی کھر
بھارت کیا گئیں کہ چارسو ’حنا ‘کی خوشبو نے ڈیرے ڈال دیئے،بھارتی میڈیا نے
اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے محترمہ کی شخصیت کو فوکس کئے رکھا۔بھارتی
چینلز نے ان کی کم عمری ، ان کے لباس ، بیگ، دوپٹہ اوڑھنے کے انداز ،
جیولری،اور انگوٹھیوں پر تبصرے کئے اور ان کی مناسبت سے گانوں کا انتخاب
کرکے انہیں بار بار ٹی وی چینلز پر دکھاتے رہے، بھارتی اخبارات میں نہ صرف
ان کی نمایاں تصاویر شائع ہوئیں ، بلکہ بعض اخبارات نے انہیں ٹائیٹل کی
زینت بھی بنایا۔ موصوفہ نے ایل کے ایڈوانی اور ان کی فیملی سے بھی ملاقات
کی ،اس موقع پر ایڈوانی نے کہا کہ ”ہمیں حنا کی خوشبو پسند ہے“۔بھارتی
میڈیا نے حنا ربانی کھر کو ”پاکستان کا بہترین چہرہ“ اور ایک ہندی اخبار نے
انہیں ”ماڈل نما وزیر“ بھی قرار دیا ۔
جس خبر نے پاکستانی اخباروں میں بھی الگ جگہ پائی وہ بھی اپنی جگہ اہم تھی،
جب پاک بھارت وزرائے خارجہ کے باضابطہ مذاکرات کے موقع پر دونوں وزرائے
خارجہ میڈیا کے سامنے آئے اور انہوں نے گرمجوش مصافحہ کیا،بھارتی وزیر
خارجہ پاکستانی وزیر خارجہ کا ہاتھ اتنی دیر تک اپنے ہاتھ میں لے کر ہلاتے
رہے کہ حناکھر نروس ہوگئیں، کہا جاتا ہے کہ کرشنا کا تجربہ حنا کھر کی عمر
سے بھی زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ ایس ایم کرشنا کی عمر 80سال اور حنا ربانی کھر
34برس کی ہیں،اگرچہ بعض اوقات تجربہ ذہانت کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے، لیکن
جہاں تجربہ بھی ہو اور عیاری بھی ، وہاں ذہانت بھی بے بس ہوسکتی ہے۔
حنا ربانی کھر کے مصافحہ پر سنی اتحاد کے چیئرمین اور ایم این اے صاحبزادہ
فضل کریم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ ہاتھ ملا
کر اسلامی اقدار کی توہین کی ہے۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کسی جوان عورت کی
کسی غیرمحرم مسلمان مرد سے ہاتھ ملانے کی گنجائش ہے، پابندی صرف ہندو کے
ساتھ ہاتھ ملانے پر ہے۔ دیگر علمائے کرام یا مذہبی رہنماؤں کا اس ضمن میں
کیا خیال ہے ؟ اس پر شاید انہوں نے تبصرہ نہیں فرمایا، اگر ایسا ہوا تو
ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ہوسکتا ہے کہ روشن خیالی کی چوٹیں سہ سہ کر
علماءحضرات خود بھی کسی حد تک روشن خیال ہوگئے ہوں، اور اس قسم کی مصافحہ
جاتی سرگرمیوں پر انہیں کوئی اعتراض نہ رہا ہو۔
ہم حیران ہیں کہ ایک ایم این اے مولانا کو ہندوؤں سے ہاتھ ملانے پر اس قدر
اعتراض ہے کہ اسلامی اقدار کی توہین ہوجاتی ہے، تو جناب انہوں نے تو یہی
توہین ابھی یہودیوں کے ساتھ ہاتھ ملاکر بھی کرنی ہے، ابھی عیسائیوں کے ساتھ
بھی ہاتھ ملائے جائیں گے اور کرشنا جیسی سرگرمی کے ساتھ ہی ملائے جائیں
گے۔تب ہماراایمان نہ جانے کس سطح پر ہوگا،ہوسکتا ہے کہ بات بڑھنے سے ہمارے
علماءبھی سرگرم ہوجائیں اور اس مصافحہ بازی کے خلاف نئی تحریک ہی جنم لے لے،
حکومت جو کہ پہلے ہی طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے ، باقی کام چھوڑ کر اس
تحریک کو ناکام کرنے میں جت جائے۔
ابھی تو بات صرف مصافحہ تک ہی محدود ہے، عربوں میں تو رخسار بھی رخسار کے
ساتھ ملانے کا رواج ہے، کئی ممالک میں اگر مزید گرمجوشی کامظاہر ہ کردیا
گیا تو بات معانقے تک بھی پہنچ سکتی ہے، لیکن کیا کریں ، رسم دنیا اور موقع
و دستو ر کو بھی دیکھنا پڑتا ہے،زمانے کی چال کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر
چلنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام مراحل سے ویسے ہی گزرا جائے جیسے رسم دنیا
ہے۔ اب بھی اگر مغرب پاکستان پر دہشت گردی اور بنیاد پرستی جیسے الزامات
لگائے تو یہ رویہ سراسر اس کی بدنیتی پر مبنی ہوگا،کیونکہ حناربانی کھر
جہاں بھی جائیں گی ، ہر سو خوشبوئیں پھیل جائیں گی، یہی ہماری روشن خیالی
کی دلیل ہے۔ |