ممبئی میں حالیہ بم دھماکوں کے
سلسلے میں پولیس کی زیر حراست فیض عثمانی کی موت (16جولائی )کے دو ہی ہفتہ
بعد اب وادی کشمیر سے ایک نوجوان کی حراستی موت کی خبر آئی ہے ،جس پر
انسانی حقوق کے کارکنوں نے احتجاج کیا ہے اور عوام کے ایک ایک بڑے طبقے میں
شدید غم و غصہ پھوٹ پڑاہے۔ یہ المناک واقعہ ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور
میںبروزہفتہ ، 30 جولائی کوپیش آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سوپور میں چند
روز قبل ایک مزدورمحمد اشرف ڈارکو نامعلوم افراد نے گولی مارکر ہلاک کردیا
تھا۔قتل کے اس واقعہ کے سلسلے میں ایک سابق پولیس انسپکٹر عبدالرشید شلا کے
28 سالہ نوجوان بیٹے ناظم رشیدشلاکو ایس او جی ، بغیر کسی کو کچھ بتائے،اس
کی دوکان سے اٹھا کر لے گئی اور اسی رات کو حراست میں اس کی موت
ہوگئی۔پولیس کو شک تھا کہ ڈار کے قتل میں کچھ جنگجو شریک تھے اورواردات کے
وقت ناظم بھی موجود تھا۔ ناظم کی جو تصویریں اخباروں میں شائع ہوئی ہیں ان
نے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خاصا ہٹا کٹا نوجوان تھا۔ اس کی موت معمولی زود و
کوب سے نہیں ہوسکتی۔یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ برصغیر میں پولیس شک کی
بنیاد پر گرفتار افراد سے تفتیش کےلئے کوئی نفسیاتی یا سائنسی طریقہ اختیار
نہیں کرتی بلکہ اقبال جرم کرانے شدید ترین جسمانی و ذہنی اذیت دیتی ہے
جوگاہے اس کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
ناظم کے چچا فاروق احمد شلا نے بتایا ہے کہ ناظم کے جسم پر ٹارچر کے نشان
صاف نظر آتے تھے اور ورم بھی تھا۔ اتوار کی رات میت کو غسل دیتے ہوئے یہ
نشان کئی لوگوں نے دیکھے۔ اتوار کی صبح ناظم کی حراستی موت کی خبرپورے
علاقے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور عوام سڑکوںپر نکل آئے۔ تشدد کے کچھ
واقعات ہوئے ، جس میںچھ افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ فوراً ہی شہر میں
بھاری تعداد میں فورس لگادی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کرفیو کا منظر نظر
آنے لگا۔ بغیر کسی کی کال کے سوپور اور بارہمولہ میں تمام دفاتر، دوکانیں
اور تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ پیر کو بھی یہی صورت رہی۔سرینگر ہائی کورٹ
میںبھی اس کی گونج سنائی دی۔ وکلا ءنے احتجاجی ریلی نکال کر اپنے غم و غصہ
کا اظہار کیا۔ پی ڈی پی کے ہزاروں کارکنوں نے بارہمولہ میں اپنا احتجاج درج
کرایا۔ سید علی شاہ گیلانی نے بدھ کے دن کشمیر بند کی کال دی۔اخباروں نے
مذمتی کالم لکھے۔
کشمیر میں پولیس کی حراست میں موت کے واقعات کاسلسلہ دودہائی پرانا ہے اور
انتہائی کربناک ہے ۔ فرضی مقابلوں اور جبری گمشدگی کے ہزار ہاواقعات پیش
آچکے ہیں ۔ کشمیر کی ایک خاتون صحافی افسانہ رشید نے اپنی تازہ کتاب”
وڈوزاینڈہاف وڈوز“ (ناشر فاروس میڈیا، نئی دہلی 25 ) میں وادی میں حراستی
اموات اور جبری گمشدگی کے واقعات کی تعداد آٹھ تا دس ہزار بتائی ہے ۔جبکہ
سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد تقریباً چار ہزار ہے۔ سب سے زیادہ تقریباً
3500واقعات ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دور میں پیش آئے۔ پی ڈ ی پی اور کانگریس
کے وزرائے اعلا مفتی سعید اور غلام نبی آزاد کے دور میں یہ تعداد گھٹ کر
164 اور44 رہ گئی۔ عمر عبداللہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد شہریوں کی
ناگہانی اموات کے واقعات میںجو اضافہ ہوااس پر جلد قابو پالیا گیا اور
گزشتہ چند ماہ سے صورت حال کنٹرول میں ہے۔ چنانچہ اس موسم گرما میں بڑی
تعداد میںسیاح ریاست پہنچے۔ امرناتھ یاتر ابھی سکون سے جاری ہے۔تاہم ابھی
ریاست میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ پوری طرح رکا نہیں ہے اورنہ
متاثرہ خاندانوں کو انصاف وامدادملنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق وادی میں تین لاکھ سے زیادہ افراد اس کرب سے گزر رہے
ہیں۔کیا ہندو کیا مسلمان، شاید ہی کوئی گھر ایسا بچا ہو جو کسی نہ کسی
سانحے سے دوچار نہ ہوا ہو۔ایک سازش کے تحت پنڈتوں کو وہاں سے نکالا گیا
تاکہ کشمیریت کی وہ روح جو صوفیانہ اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے رنگ میںرنگی
ہوئی ہے، مجروح ہوجائے۔ شکر ہے یہ سازش کامیاب نہیںہوئی جس کا اظہار حال ہی
میں ایک مسلم اکثریتی گاﺅں وسان میں برہمن خاتون آشا جی کے پردھان چنے جانے
سے ہوتا ہے۔
بڑا ظلم یہ ہے کہ حفاطتی دستے جن ہزاروں افراد کو اٹھا کر لے گئے ، ان کے
ورثا ءدر در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ
وہ زندہ ہیں یا ماردئے گئے؟چنانچہ ہزار ہا نوجوان خواتین نصف بیوگی کی
زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان مظلوموں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے شوہر
زندہ ہیں یا ماردئے گئے۔کتنی ہی ماﺅں کی آنکھیں اپنے بچوں کے انتظارکرتے
کرتے پتھرا گئی ہیں ۔ اپنے بھائیوں کے غم میں کتنی ہی انکھوں کے آنسو خشک
ہوگئے ہیں۔بے شمار بچے یتیمی کا غم جھیل رہے ہیں۔ ہزاروں خاندان معاشی
بدحالی کا شکار ہیں کہ گھرکاوہ فرد جو روٹی روزی کمانے والے تھا ،جبری
گمشدگی کا شکار ہوگیا۔
چنانچہ کشمیر میں حراستی موت کوئی ایسا واقعہ نہیں جس کا کرب دور دور تک
محسوس نہ کیا جاتا ہو۔ ناظم کی موت نے لاکھوں افراد کے دلوں کے زخموں کو
ہراکردیا اور وہ بغیر کسی کی کال کے از خود صورت احتجاج بن کر اس کے غم میں
شریک ہوگئے۔ اتوار سے ضلع بھر میں ماتم کا جو ماحول نظر آرہا ہے وہ اس کا
گواہ ہے۔تاہم کرب کے اس ماحول میں ایک موہوم سی کرن امید کی یہ نظر آئی ہے
کہ عوام کے ساتھ اس ماتم میں اس بار وزیر اعلا عمر عبداللہ اور ضلع حکام
بھی شریک نظر آتے ہیں۔اس بار اس بے حسی اور سنگدلی کا مظاہرہ نہیں ہوا ہے
جو اس طرح کے واقعات کے بعد احتجاج کو دبانے کے لئے ہوتا تھا۔
وزیرا علا عمر عبداللہ نے بغیرکسی اگر مگر کے اپنے ٹویٹر پریہ تسلیم کیا ہے
کہ” پولیس حراست میں عبد الرشید کی موت انسانی حقوق کی سنگین پامالی کا
معاملہ ہے اور ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسے واقعات دوبارہ ہونے کی اجازت
نہیںدی جاسکتی۔“ وزیر اعلا کی ہدایت پر ضلع مجسٹریٹ نے موت کے سبب کے تعین
کےلئے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تشکیل دیدیا ہے۔دفعہ 302کے تحت حراستی موت کا
مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ڈی ایس پی (آپریشن) ضلع سوپور عاشق حسین تاک کو
ہٹا دیا گیا ہے ۔ پولیس انجارچ ایس آئی دلباغ سنگھ اور ان کے ساتھ شریک دو
کانسٹبلز کو معطل کردیا گیا ہے۔ اتوار کی شام کو ہی ریاست کے وزیر مملکت
برائے داخلی امور ناصراسلم وانی سوپور پہنچے ۔ ان کے ساتھ ڈی جی پی کلدیپ
کھوڑا، پرنسپل سیکریٹری داخلہ بی آر شرما ، اے ڈی جی پی کے راجندرا، آئی جی
پی کشمیر ایس ایم سہائے، آئی جی پی ، سی آر پی ایف ، ڈپٹی کمشنر بارہمولہ
اور دیگر اعلا سول و پولیس افسران بھی تھے۔انہوں نے خطاکاروں کو سزا دئے
جانے کا بھروسہ دلایا۔
ریاستی حکومت نے بغیر وقت ضائع کئے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اس
تدبیر کاہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر یہ اسی وقت کارگر ہوگی جب حسب وعدہ
خطاکاروں کو سزا دی جائےگی۔ کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں میں ایسی کئی کمیشن
مقرر کئے گئے، کئی انکوائریوں کے وعد ے ہوئے ، لیکن سب بے سودو بے نتیجہ۔
اپوزیشن لیڈر محبوبہ مفتی نے ، جن کے والد مفتی سعید خود ریاست کے وزیر
اعلا رہ چکے ہیں،کہا ہے کہ” اس طرح کے معاملات میں تحقیقات کے حکم کا اجرا
سرکار کا معمول سا بن گیا ہے۔ انکواری اور متعلقہ افسران کی معطلی کے حکم
کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ “ ان کا یہ کہنابجا ہے۔ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ
پورے ملک یہی حال ہے۔ سچ یہ ہے کہ انکوائری کا حکم دینے والوں کی نیت صاف
نہیں ہوتی ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ فوری طور عوام کا غم وغصہ ٹھنڈا پڑ
جائے۔میرٹھ میں ہاشم پورہ اور ملیانہ کا واقعہ (1987) اس کی مثال ہے۔ جن
افسروں کومعطل کیا گیا وہ رفتہ رفتہ بحال ہوگئے اور ترقی کرکے اعلا عہدوں
تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ عدالتی کاروائی بھی تعطل کا شکار ہے۔ حفاظتی عملے
کو سزا دینے پر حکومت کبھی آمادہ نہیں ہوتی۔اسے فوراً پوری فورس کی حوصلہ
شکنی کا اندیشہ کھانے لگتا ہے۔ بسا اوقات یہی بہانا بناکر سنگین واقعات کی
جانچ تک نہیں کرائی جاتی جیسا کہ بٹلہ ہاﺅس میں قطعی غیر ضروری انکاﺅنٹر کے
معاملہ میں ہوا۔
اقلیتوں یہ شکایت عام ہے کہ سرکار کسی کی بھی کیوں نہ ہو، ا ن کے انسانی
حقوق کی پامالی کی صورت میں کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔الٹا ان کو ہی پھنسایا
جاتا ہے۔ یہ احساس کشمیری عوام میں شدید تر ہے اور اس میں انکا کوئی قصور
بھی نہیں۔کشمیر کے پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کےلئے اعتماد سازی کی جو حکمت
عملی مرکز نے اختیار کی ہے اور جس کے تحت پاکستان سے مذاکرات ہورہے ہیں ،
اس میں کشمیرکے عوام کے اعتماد کی بحالی کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے۔
حراستی اموات، فرضی انکاﺅنٹر اور جبری گمشدی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور
جو بدنصیب اب تک مارے گئے ان کے لواحقین کو اس کی اطلاع دیدی جانی چاہئے۔
جو جیلوں میں بند ہیں ان کی رہائی کی سبیل ہونی چاہئے اور ان کے بے سہارا
لواحقین کے گزارے کا معقول بندوبست ہونا چاہئے۔ پولیس اصلاحات پر بھی توجہ
مطلوب ہے۔ یہ کام اسی صورت ممکن ہونگے جب اس انسانی المیہ پر سیاست بند
کردی جائے اورتمام جماعتیںسرجوڑ کو مظلومین کی دادرسی پرآمادہ ہوں۔ (ختم)
(مضمون نگار سینرصحافی ،فورم فار سول رائٹس کے جنرل
سیکریٹری اور آل انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کے نائب صدر ہیں) |