پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر
ممالک کے اراکین پارلیمنٹ میں عوامی خدمت کے جذبہ کا فقدان پایا جاتا ہے
اور ایسے ممالک میں اراکین پارلیمنٹ اور عوام میں رابطہ صرف الیکشن کے دنوں
میں نظر آتا ہے ۔۔جبکہ بھارت اور پاکستان میں الیکشن کے نظام کو ہر ذی شعور
انسان نے نہ صرف رد کیا ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ آج کل جو الیکشن کا نظام
رائج ہے وہ صرف طاقتور اور بد معاشوں کی آسانی کیلئے ڈھالا گیا ہے اسی لیئے
اس مروجہ الیکشن کے نظام سے آج تک عوام کے منتخب نمائندگان نہیں آسکے ہیں
اور عوام ہر بار یہی سوچتی ہے کہ شائد اس بار ان کے ووٹ کار آمد ثابت
ہوسکیں گے لیکن اکثر ووٹر اس نظام کی حقیقت سے نا آشنا ہیں اسی لیئے وہ
سمجھ نہیں سکتے کہ ان کا ووٹ یا تو پہلے ہی سے ڈالا گیا ہوتا ہے یا پھر ان
کے ووٹ پر ایک سے زائد ووٹ ڈال دیئے جاتے ہیں اور خاص کر گاﺅں دیہات اور
قصبوں میںوڈیرے، چوہدری، خان اور رئیس اپنے اپنے حلقوں میں اپنے خرید
غلاموں کو استعمال کرتے ہوئے تمام ووٹ حاصل کرلیتے ہیں کچھ پیسہ دیکر تو
کچھ دھونس دھمکی کے ذریعے یوں ایک مستحق ،ایماندار اور لائق امیدوار جیت سے
محروم رہ جاتا ہے یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ ساٹھ سالوں سے چلتا چلاآرہا ہے
کسی بھی سیاستدان، حکمران نے ایوان میں اس نظام کے خلاف اور بہتر نظام
کیلئے کوئی بھی بل پیش نہیں کیا بلکہ ایوان میں پہنچ کر سوائے ہنسی مذاق،
دنگا مستی کے کوئی سنجیدہ قانون سازی نہیں کی ، کیونکہ یہ چاہتے ہی نہیں
ہیں کہ نظام میں تبدیلی واقع ہو اور ان کی اجارہ داری میں فرق آجائے بھلا
انہیں یہ کیونکر گوارہ کہ پاکستان یا دیگر ممالک جن میں بھارت، بنگلہ دیش،
بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ، عراق ، شام ، مصر ، بحرین ،کویت اور دیگر ممالک
میں ایسا ووٹنگ کا نظام مروج کیا جائے جس میں ووٹر کی تفصیلات شناختی کارڈ
سے ملوث ہو اور یہ ڈیٹا یکجا کیا گیا ہو، اس کے ساتھ ساتھ ہاتھ کے انگوٹھے،
آنکھ اور چہرے کا اسکینگ کا عمل لازم شامل ہو ، پیلٹ پیپر کی جگہ پیلٹ
کمپیوٹر شامل جس میں اس حلقہ کے امیدوار وں کے نام ، تصاویر اور انتخابی
نشان موجود ہو اس کمپیوٹر پر ووٹر کو صرف کرسر کے ذریعے کلک کرنے تک محدود
ہو ،تو یقینا پھر کمپیوٹرائز الیکشن سے سلیکشن کی موت واقع ہوسکتی ہے اور
وہی کامیاب ہوگا جسے عوام نے ووٹ ڈالے ہونگے اس طرح سیاسی مافیہ کا بھی
خاتمہ ممکن بن سکے گا یہ سلسلہ اس قدر مشکل ہے کہ اس کو رائج کون کریگا
دیکھتے ہیں کب اور کہاں سے یہ سلسلہ جڑتا ہے بحرحال آج کل کے الیکشن نظام
کی وجہ سے ان ممالک کے حالات خاص کر پاکستان کے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے
جارہے ہیں ۔۔۔۔ پاکستان اور قریبی ممالک بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ
اور بالخصوص پاکستان جمہوریت کے نام نہاد ممالک جمہوریت کی دھجیاں بکھیر
رہے ہیں اور عالمی دنیا اس ناقص الیکشن کے نظام کی بابت ظلم و تشدد، اقربہ
پروری، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، بم دھاکے،خود کش حملوں کے ساتھ پریشان حال
عوام بنیادی ضرورتوں کی ناپید ہونے کی بناءپر خاندان در خاندان خود سوزی
کررہے ہیں تو دوسری طرف حکومتی ناقص پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے
عوام کو جارائم کے ساتھ فحاشی و عریانیت کی طرف بھی دھکیل دیا ہے جس سے
معاشرہ بہت تیزی سے بگڑتا جارہا ہے اور عوام میں احساس کا مادہ بھی ختم
ہوتا جارہا ہے ۔ عالمی جمہوریت کا اگر ہم تقابلہ جائزہ لیں تو ہمیں معلوم
ہوگا کہ یہ سیاستدان اور حکمران اقدار میں کس طرح سے جمہوریت کا لبادہ
اوڑھے ہوئے ہیں اس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقیقاً کون
سے ایسے ممالک ہیں جو اپنی عوام کو جمہوری استحکام کے ساتھ بھرپور طریقے کی
خدمات پیش کررہے ہیں ، ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے
ممالک میں ہوتا ہے جہاں انتہائی کم سطح کی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ سی آئی اے
ورلڈ فیکٹ بک کے ڈیمو کریٹک انڈیکس کے مطابق دنیا کے جمہوری ممالک کی فہرست
میں پاکستان کا ایک سو آٹھ واں نمبر ہے جبکہ بھارت پینتس ویں، سری
لنکاستاون ویں، بنگلہ دیش اکیاون ویں، بھوٹان ایک سو نو ویں ،نیپال ایک سو
پندرہ ویں اور افغانستان ایک سو اڑتیس ویں نمبر پر ہے جبکہ چین کی پارلیمان
دو ہزار نو سو ستاسی اراکین کے ساتھ دنیاکی سب سے بڑی پارلیمنٹ ہے۔ دنیا کے
صرف تیس ممالک (اٹھارہ فیصد) میں مکمل جمہوریت موجود ہے۔ ان ممالک میں
سویڈن سرفہرست ہے جبکہ ناروے دوسرے اور آئس لینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ
اٹھارہ ویں اور برطانیہ کا اکیس واں نمبر ہے۔ دنیا کے پچاس ممالک (تیس فیصد)
میں ناقص جمہوری نظام جبکہ چھتیس (اکیس اعشاریہ چھ فیصد) ممالک میں ملی جلی
جمہوریت اور اکیاون ( تیس اعشاریہ پانچ فیصد) ممالک میں بادشاہت اور آمرانہ
نظام رائج ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، شمالی کوریا، چین،
افغانستان، ایران، قطر اور عمان قابل ذکر ہیں۔ انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین
کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے کل پارلیمان کے ممبران کی تعداد چوالیس
ہزار چھ سو اننچاس ہے اور ان میں آٹھ ہزار چار سو ساٹھ (انیس اعشاریہ دو
فیصد) خواتین ممبر ہیں۔ خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے دنیا میں
روانڈاچھپن اعشاریہ تین فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے اور وہاں کل اسسی نشستوں
میں سے پینتالیس خواتین کے پاس ہیں جبکہ سویڈن چھیالیس اعشاریہ چار فیصد کے
ساتھ دوسرے اور جنوبی افریقہ چوالیس اعشاریہ پانچ فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر
پر ہے۔ پاکستان بائیس اعشاریہ دو فیصد کے ساتھ خواتین کی نمائندگی والا
پچاس واں بڑا ملک ہے۔ چین میں خواتین کی نمائندگی اکیس اعشاریہ تین فیصد کے
ساتھ عالمی سطح پر چھپن ویں نمبر پر ہے جبکہ تعداد کے اعتبار سے چین کی
پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ چھ سو سینتیس خواتین ہیں۔ دنیا میں دو ہزار نو سو
ستاسی ممبران کے ساتھ چین کی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی پارلیمان ہے جبکہ
صرف گیارہ ممبران کے ساتھ جزیرہ سینٹ لوشیا کی پارلیمان سب سے چھوٹی ہے۔
ملک میں قومی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی بائیس اعشاریہ دو فیصد ہے اور
کل تین سو بیالیس نشستوں میں سے چھہتر خواتین کی ہیں جبکہ سینیٹ میں
نمائندگی سترہ فیصد ہے اور سو نشستوں میں سے سترہ خواتین کی ہیں۔ سعودی عرب،
قطر اور عمان سمیت دنیا کے نو ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کی نمائندگی سرے
سے نہیں ہے۔ |