چین ، دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے اور
معاشی حجم کے اعتبار سے بھی دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ایسے میں چین کی
جانب سے مختلف شعبہ جات میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات اور پالیسی
سازی کے اثرات عالمی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں تحفظ ماحول بھی اہم
ترین شعبہ ہے جسے آگے بڑھانے کے لیے چین شفاف توانائی کو بھرپور طور پر
فروغ دے رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے
مطابق چونکہ ملک نے کاربن نیوٹرل کے حصول کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں
لہذا رواں سال کے پہلے دو ماہ میں ہوا سے توانائی حاصل کرنے اور شمسی
توانائی کی پیداوار کے لیے چین کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا
ہے۔جنوری سے فروری تک کے عرصے میں، ہوا سے توانائی کے حصول کی صلاحیت سال
بہ سال 17.5 فیصد کے اضافے سے 330 ملین کلوواٹ تک پہنچ چکی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اسی عرصے کے دوران شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت
بھی 320 ملین کلوواٹ تک پہنچ گئی، جس میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 22.7
فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر تک، چین میں شفاف توانائی کی
تنصیبات کی کل پیداواری صلاحیت 2.39 بلین کلوواٹ رہی ہے ، جس میں سال بہ
سال اضافے کا تناسب 7.8 فیصد ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور
ملک نے 2030 تک کاربن پیک تک پہنچنے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے حصول کا
اعلان کر رکھا ہے۔ حکام کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے ، چین کا ہدف ہے
کہ غیر رکازی ایندھن یا نان فوسل فیول کی کھپت کا حصہ ، 2025 تک تقریباً 20
فیصد، 2030 تک تقریباً 25 فیصد، اور 2060 تک 80 فیصد سے زیادہ کیا جائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ دنیا میں شفاف توانائی کی اہمیت کہیں
زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔دنیا متفق ہے کہ انسانی بقا کے لیے لازم ہے کہ کم
کاربن ترقی کی جستجو کی جائے اور ایسی ترقیاتی راہیں اپنائی جائیں جو فطرت
سے ہم آہنگ ہوں ،مطلب بنی نوع انسان کا متفقہ نقطہ نظر ہے کہ ماحول کی
قیمت پر ترقی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تباہی لائے گی۔دنیا میں رکازی
ایندھن کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے کئی دہائیوں سے فعال معروف ادارے راکی
ماؤنٹین انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ روایتی ایندھن سے شفاف توانائی کی منتقلی
پر لاگت کم آئے گی اور حکومتوں، کاروباری اداروں اور بہت سے تجزیہ کاروں کی
توقع سے کہیں زیادہ ، تیزی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس
نقطہ نظر کو بھرپور انداز سے ثابت بھی کیا گیا ہے اور وقت کے ساتھ نئی
ٹیکنالوجی کے استعمال سے شفاف توانائی پر آنے والے اخراجات میں مزید کمی
آئی ہے یوں تیز رفتار صاف توانائی کی منتقلی سستا ترین انتخاب بن چکا ہے۔
پالیسی سازوں، کاروباری رہنماؤں اور مالیاتی اداروں کو فوری طور پر اس ترقی
کے امید افزا مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور صرف اسی صورت میں ہی پیرس
موسمیاتی معاہدے کے تحت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں کمی کے ہدف کو
حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس عمل میں لازم ہے کہ گفت و شنید کے عمل کو از سر نو
ترتیب دیا جائے اور باقاعدہ ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا جائے تاکہ کم کاربن
اور صاف ستھری، سستی توانائی کی ٹیکنالوجیز کو دنیا بھر میں متعارف کروایا
جا سکے۔ترقی یافتہ ممالک کی بھی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ مالیات سمیت
ٹیکنالوجی کی فراہمی سے ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کی مدد کریں کیونکہ
عالمگیر سطح پر فطرت اور ماحولیات کا یکساں تحفظ ہی نسل انسانی کی بقا کا
ضامن ہے۔
بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کی رپورٹ دی ری نیو ایبل اسپرنگ سے
پتہ چلتا ہے کہ قابل تجدید ذرائع ماضی کی ٹیکنالوجی کے انقلابات کی طرح
تیزی سے ترقیاتی خطوط کی پیروی کر رہے ہیں، جو ایک اچھی علامت ہے۔اسی طرح
ایک دوسرے ادارے آئی نیٹ کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر شمسی، ہوا ،
بیٹریوں، اور ہائیڈروجن الیکٹرولائزرز کا استعمال مزید ایک اور دہائی تک
تیزی سے ترقیاتی رجحانات پر عمل پیرا ہوا تو ، تو دنیا 25 سالوں کے اندر
خالص صفر کاربن اخراج والی توانائی پیدا کرنے کے راستے پر آجائے گی۔بلومبرگ
نیوز نے بھی ایک رپورٹ میں کہا کہ آج کے روایتی توانائی کے نظام کو جاری
رکھنے کے مقابلے میں تیزی سے شفاف توانائی کی منتقلی سے 26 ٹریلین ڈالر کی
بچت ہوگی۔ اس میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جس قدر زیادہ شمسی اور ہوا
سے بجلی کی پیداوار کے عمل کو آگے بڑھائیں گے، اسی قدر ان سے متعلقہ
ٹیکنالوجیز میں جدت اور قیمتوں میں تیزی سے کمی واقع ہو گی۔
|