ڈاکٹر محسن آرزوؔ کی نثری مزاحیہ تصنیف’ بچہ کیوں ضروری ہے‘

ڈاکٹر محسن آرزوؔ کی نثری مزاحیہ تصنیف’ بچہ کیوں ضروری ہے‘
دیباچہ
٭
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی، لاہور، پاکستان
محقق اور اقبال شناس پروفیسر عبد الجبار شاکر کے بقول”بنی نوعِ انسان کے جبلی شعور میں اظہار کے جتنے پیرائے موجود ہیں ان میں ایک مؤثر اسلوب ظرافت اور مزاح کا بھی ہے۔ جس کے بغیر کوئی شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی، یہی باعث ہے کہ دُنیا کی کسی زبان کا ادب بھی طنز و مزاح کے لوازم سے خالی دکھائی نہیں دیتا“۔اردوادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے کبھی خالی نہیں رہا۔ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا کوئی آسان کام نہیں۔خاص طور پر آج کے مشکل دور میں جب کہ ہمارے ارد گرد مختلف مسائل اور ٹینشن کا دور دورہ ہے۔اس صورت حال میں اگر کوئی قلم کار یا شاعر اپنی نگارشات سے قارئین کو وقتی طور پر ہی سہی مسکراہٹوں سے نوازتا ہے تو گویا اس نے بڑا کام سر انجام دیا۔ طنزاور مزاح دو مختلف نوعیت کی چیزیں ہیں، مزاح نگار کو اپنی تحریر یا شعر قرطاس پر منتقل کرتے وقت بہت احتیاط اور اپنے قاری کے حس مزاح کو مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ طنز میں دل آزاری، بیہودہ گوئی، پھکڑ پن، ستم گاری طنز کی بنیادی خوبصورتی کو تہس نہس کردیتی ہے اسی طرح مزاح میں شائستگی، سادگی، زبان و بیان میں لطافت، ادب و آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے، توہین کا پہلو کسی طور نہ نکلتا ہو۔ شگفتہ بیانی مزاح نگار کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ”چراغ تلے“ میں طنز و مزاح کے بارے میں لکھا ہے کہ ”مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھر نے کا نام ہے لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتی ہیرا بن جاتا ہے“۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کہنے اور لکھنے کا سلسلہ ابتدا ہی سے جاری ہے اور لکھاریوں کی کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے طنزو مزاح لکھا۔امیر خسرو کی تحریر میں بھی مزاح کا پہلو دکھائی دیتا ہے۔پھر جعفر زٹلی کو نثر نگاری میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ان کے علاوہ سوداؔ، انشاءؔ، مصحفیؔ، نظیرؔ اکبرؔ آبادی پھر مرزاغالبؔ سے پہلے اور پھر غالب ؔ کے بعد بے شمار شاعروں اور نثر نگاروں نے مزاح کو اپنایا اور خوب نام کمایا۔ اکبر الہٰ آبادی اردو کے ایسے شاعر ہیں کہ جنہوں نے شاعری میں طنز و مزاح کو بام ِعروج پر پہنچایا۔ ان کے مزاح کا انداز نرالہ اور اچھوتا ہے۔ مزاح نگاری کا جو انداز ان کے ہاں ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اکبر نے شاعری کی ابتدا تو سنجیدہ شاعری سے کی تھی بعد میں طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب اختیار کیا اور اس میں اتنے معروف ہوئے کہ انہیں مزاحیہ و طنزیہ شاعر کے طور پر ہی جانا پہچانا جانے لگا۔ اکبر کے بعد ظرافت نگاری کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک مزاحیہ شاعر و نثر نگار اپنی مزاحیہ شاعری اور مزاحیہ نثر سے اردو کا دامن وسیع سے وسیع تر کرتا چلا گیا۔ سید ضمیر جعفری، دلاور فگار،ابن انشاء، امیر الا سلام ہاشمی، انور مسعود، پروفیسر عنایت علی خان، حکیم ناصر، زاہد فخری، حیدر حسنین جلیسی، ڈاکٹر انعا م الحق جاوید، انور مسعود، ساغر خیامی، خالد مسعود خان، خالد عرفان، ظریف لکھنوی، مجید لاہوری، رضانقوی، خالد عزیز شامل ہیں۔اردو ادب کا دامن مزاحیہ نثرلکھنے والوں سے بھی مالا مال ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ جنہوں نے مرزا الم نشرح کے نام سے مزاح لکھنا شروع کیا بعد میں اپنے اصل نام کو ہی اپنا لیا۔ پطرس بخاری مزحیہ نثر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی طرح عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، شفیق الرحمن، رشید احمد صدیقی، جسٹس محمد رستم، کرنل محمد خان، ابن انشاء، مشتاق احمد یوسفی، محمد اسلام اور اب ڈاکٹر محمد محسن آرزوؔ جو شاعر ہونے کے ساتھ مزاحیہ نثر لکھنے والوں کی فہرست میں اپنی پہلی نثری تصنیف ”بچہ کیوں ضروری ہے“ کے ساتھ بڑی آن بان شان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ان کی مزاحیہ تحریر میں شائستگی، سادگی، زبان و بیان میں لطافت، ادب و آداب بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔دل کی گہرائیوں سے ڈاکٹر آرزو ؔ کو مبارک باد۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ڈاکٹر محسن علی آرزوؔ ہیں تو پاکستانی لیکن انہوں نے کافی عرصہ سے آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ کو آباد کیا ہوا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ شاعری کا خوب ذوق رکھتے ہیں، صاحب ِدیوان شاعر ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ”جانِ پرسوز“ کے عنوان سے ڈیڑھ سال قبل شائع ہوچکا ہے۔ شاعر موصوف کی مجھ سے محبت و قربت کی بنیاد علم و ادب ہے اسے پروان چڑھانے میں میرے بہت ہی مہر بان دوست افضل رضوی کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ انہوں نے ایک بھلے انسان سے ملوادیا، شاعر،نثر نگاراور محبت کرنے والے سے تعلق قائم کرادیا۔ ڈاکٹر آرزو ؔ نے اپنے پہلے مجموعہ کلام کا د یباچہ مجھ سے لکھوایا تھا۔ اپنے دیباچہ میں اس وقت میں نے ڈاکٹر آرزوؔ کی نثر نگاری کے بارے میں لکھا تھا کہ”ڈاکٹر آرزوؔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نثر نگاربھی ہیں۔ گویا شاعر ِ موصوف نثر میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں ان کا نثر کا مجموعہ بھی آسکتا ہے“۔ توجناب ہم نے تو بہت پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی۔وہی ہوا ڈاکٹر آرزوؔ کی ای میل جس سے منسلک ایک کتاب بھی تھی ہمارے نام آئی۔ ہم ان دنوں مختلف مصروفیات کا شکار ہیں۔ یعنی لکھنے پڑھنے میں مندی کا رجحان پایا جاتا ہے اور اپنے بیٹے کے قائم کردہ چھوٹے سے اسپتال کی انتظامی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف عمل ہیں۔ڈاکٹر محسن نے میل کی جب کئی دن تک ہماری جانب سے خاموشی رہی تو انہیں تشویش ہوئی اور ہونا بھی چاہیے تھی، یہ ان کی ہم سے محبت ہے۔ انہوں نے ہمارے دوست افضل رضوی صاحب جو ایڈیلیڈ میں ہی مقیم ہیں سے ذکر کیا۔افضل رضوی صاحب نے ہمیں ڈھونڈ نکالا، رابطہ ہوااور ڈاکٹر محسن کی ای میل کا علم ہوا۔ پہلی فرصت میں میل بکس دیکھا تو طنز و مزاح سے بھر پور مضامین کا مجموعہ جس کا عنوان انہوں نے ”بچہ کیوں ضروری ہے“منتخب کیا کا مسودہ ہمارے کمپیوٹر اسکرین پر اس فرمائش کے ساتھ کہ ہم ’بچہ کیوں ضروری ہے‘ پر بھی دیباچہ لکھیں۔ بچہ کیوں ضروری ہے، عنوان دیکھ کر ذہن میں کچھ اس قسم کی سوچ آئی کہ ڈاکٹر محسن میڈیکل ڈاکٹر ہیں ممکن ہے کہ بچہ کی ضرورت و اہمیت پر ادبی انداز سے کچھ لکھا ہوگا۔ جیسے جیسے سرسری نظر دوڑائی عقدہ کھلا کہ ’بچہ کیوں ضروری ہے‘ کے عنوان سے ان کا مزاح سے بھر پورپہلا مضمون ہے، دیگر کئی مضامین بھی ہیں انہوں نے اپنے پہلے مضمون کے عنوان کو ہی کتاب کا عنوان بنالیا ہے۔ایسا اکثر احباب کرتے ہیں۔ خاص طور پر افسانوں کے مجموعوں میں یہ عمل زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
مجموعہ کا پہلامضمون ’بچہ کیوں ضروری ہے‘ میں ہلکا پھلکا مزاح کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ”اللہ تعالی نے انسان کے دل کے چار خانے بنائے اور مرد وں کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ علم طب کے اعتبار سے مرد کے دل کا رقبہ، مادہ کے دل کی نسبت بڑا ہوتا ہے، لہذا ہر خانے میں ایک الگ بیوی سما سکتی ہے۔ چونکہ عورت کا دل، جسامت کے اعتبار سے نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے اور وہ جسے چاہتی ہے پورے دل سے چاہتی ہے لہذا عورت کے دل میں صرف ایک ہی مرد آ سکتا ہے“۔بچہ کی اہمیت اور ضرورت کو کچھ اس طرح مزاح میں بیان کیا ہے ؔؔ”سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پہلا بچہ نو بیاتے جوڑے کی عجلت سے زیادہ بزرگوں کی خواہشات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بچہ ہونے کی یہ وجہ کس قدر اہم ہے، اس کا فیصلہ شا یئد اعلی عدلیہ بھی نہی کر سکتی ۔ اگر اس تجزیے میں آ پ کو شک ہوتو کسی بھی ایسے جوڑے سے رائے لے لیجئے،جن کی شادی کو کچھ سال ہو گئے ہوں اور وہ ابھی اس فریضہ آدمیت کی تکمیل سے محروم ہوں۔ اُن کے اپنے والدین کے علاوہ گلی محلے کے تمام بزرگ، دوست احباب الغرض ہر جاننے والا شخص باتوں باتوں میں لہجے میں ایک ہلکی سی طنزیہ نمکاہٹ اور آنکھوں میں شرارت لیے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ بھیا! خوش خبری کب سنا رہے ہو۔ اگر جواباً آپ خاموش رہیں تو سننا پڑتا ہے کہ انسان تو صرف کوشش ہی کر سکتا ہے،کرم تو اللہ نے کرنا ہے“۔
ایک مضمون ’با ریک بیں‘ میں اردو کا لفظ باریک بیں کو مختلف انداز سے زیر بحث لایا گیا ہے۔باریک بیں میں ملک میں مہنگائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک مضمون ’جوتی‘ جس کے کئی نام انہوں نے بیان کیے ان میں سے ایک پاپوش بھی ہے اوریہ کراچی کے ایک معروف علاقے کا نام پاپوش نگری ہے جو عباسی شہید اسپتال کے عقب میں واقع ہے۔ اس کے بارے میں مصنف نے لکھا ”کراچی میں ایک علاقہ جسے پاپوش کہتے ہیں۔ وہاں کی چپلیں زیادہ تر مشہور ہیں یا نہیں، اِس سے ہم واقف نہیں۔لیکن پاپوش سے ہم تب سے واقف ہیں، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا۔ کیونکہ ہوش سنبھالتے ہی ہم پاپوش سے زیادہ دور نہیں رہتے تھے“۔اسی مضمون میں مصنف نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم پر جوٹ بھی کسی، دیکھئے کس طرح، لکھتے ہیں کہ ”اردو میں ایک کہاوت ہے کہ اونٹ برابر ڈیل بڑھایا، پوش برابرعقل نہ آئی۔ اِس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب ہمارے سابقہ، وزیر اعظم امریکہ کے صدر سے بات کرنے گئے تو اپنی جیب سے پرچی نکالنے کی کوشش میں اُس جیب میں ہاتھ ڈالا، جو اندر سے سِلی ہوئی تھی۔ چونکہ وہ سلی ہوئی تھی، اس لیے وہ جیب صرف دکھاوے کے لیے تھی۔اور وہ اس جیب میں پرچی ڈھونڈتے رہے، جہاں جیب ہی نہیں تھی، تو پرچی کہاں سے ملتی۔ خیر اُن کے علاوہ بھی ہمارے باقی حکمران، عوام کے لیے یکساں، غیر موئثر، ثابت ہوئے ہیں۔پاپوش بمعنی جوتی کو سمجھنے کے لیے، یہ شعر دیکھئے۔
کس کو مطلب ہے کہ اب اُن سے ملاقات کرے
ایسے خود غرضوں سے پاپوش میری ذات ہے
اپنے مضمون ”ناک“ میں لکھتے ہیں ”ناک انسانی چہرے کا وہ واحد ساختی عضو ہے جو چہرے کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ چہرے کی منصفانہ تقسیم اس قدر تفصیل ہے کہ ناک کا ایک نتھنہ چہرے کے دائیں اور دوسرا نتھنہ چہرے کے بائیں حصے کو رونق بخشتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آ پ جب بھی کسی کا سائیڈ پوز دیکھتے ہیں توآپ کو اس کی شخصیت کا صرف ایک ہی نتھنہ نظر آتا ہے“۔اپنے ایک مضمون’مطلع‘ میں مزاح کے ساتھ ساتھ ’ابن منیب کا یہ شعر پیش کیا ہے ؎
کہیں مطلع نہیں ہوتا ، کہیں مقطع نہیں ہوتا
غزل کے نام پر صاحب، یہاں کیا کیا نہیں ہوتا
اپنے مضمون ”مجازی خدا“ میں مجازی خدا کی وضاحت کچھ اس انداز سے کی ”اس مضمون کو لکھنے کی جرأت اس لیے ہوئی کیونکہ خدا کے بارے میں لکھنے کی جرأت نہ ہو سکی۔لہذا فیصلہ کیاکہ خدا کے بارے میں نہ سہی، تو مجازی خدا کے بارے میں اظہارِ خیال کیا جائے۔ خدا کے بارے میں نہ لکھنے کی وجہ خوفِ خدا نہیں تھا، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ بلکہ اُن برساتی مولویوں کا خوف تھا، جو اہلِ علم کم اور ماہرِ فتویٰ زیادہ ہیں۔بقول علامہ محمد اقبال ؎
کبھی اے حقیقت منتظر ، نظر آ ، لباس مجاز میں !
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیازمیں
اسی طرح اپنے ایک مضمون ’زبان“ میں ایک جگہ کراچی کے پر آشوب اور ہنگامہ خیز حالات پر طنز کر تے ہوئے لکھا ”ہم اپنی جوانی کے دور میں سول ا سپتال کراچی میں کام کیا کرتے تھے اور کراچی میں ہونے والے پر تشدد واقعات، اس دور میں،افسوس ناک حد تک عام تھے۔ اس دور میں، ہم نے کسی اخبار میں یہ طنزیہ جملہ پڑھا کہ ایک کتے نے دوسرے کتے سے سول ہسپتال کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہا کہ یہاں سے چلو، کہیں انسان کی موت نہ مرنا پڑے“۔ مزاح اور طنز اپنی جگہ لیکن دونوں باتیں ہی درست ہیں ایک یہ کہ آرزوؔ اُس وقت جب کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی یقینا جوان ہوں گے ویسے تو ماشا ء اللہ وہ اب بھی جوان ہی ہیں۔دوسرے کراچی کے حالات واقعی سچ اور حقیقت ہے۔اپنا مضمون ”پیش“ کا آغاز کس خوبصورتی سے کیا ہے۔لکھتے ہیں۔ اس مضمون کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے کچھ مشکل ضرور درپیش آئی مگر تخلیق کے مادے نے عزم و ہمت کو استقامت بخشی اور بالآخر ہم یہ مضمون اپنے چاہنے والوں اور نہ چاہنے والوں کے حضور پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے“۔اسی طرح مصنف کے دیگر مضامین ہیں جن میں ناف،ڈکار،مینڈک،
کان، خارش،نمک، موچ، چوسنی، پانی کی ٹینکی کی صفائی، اشرف المخلوقات شامل ہیں۔مصنف نے اپنے مضمون”پانی کی ٹینکی کی صفائی“میں کچھ واقعات بچپن کے واقعات سے مستعار لیے ہیں۔
مجموعہ کا آخری مضمون ”اشرف المخلوقات“ ہے جس میں مصنف کا موضوع حضرت انسان ہے۔ انسان کو مزاح کے انداز میں کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے لکھتے ہیں ”حیاتیاتی سائنس کے مطابق، انسان پہلے بندر یا بن مانس تھا۔ دینی کتب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ زمانہ ئ قدیم میں انسان کو، اس کے گناہوں کے باعث، بحکم الہی، جانوروں کی شکل میں تبدیل کر دیا جاتا تھا۔علامہ دمیری کی قدیم کتاب، حیات الحیوانات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ، انسان جو جانور کثرت سے کھاتا ہے، اس جانور کے خواص، اس انسان کی طبیعت میں سرائیت کرنے لگتے ہیں۔یہاں کسی انسان کو جانور، یا کسی جانور کو انسان ثابت کرنا مقصود نہیں بلکہ دینی، سائنسی ا ور علمی حوالوں سے، انسان اور جانور کے درمیان تعلق کا، اقرار کرواناہے۔فی زمانہ، کوئی جانور، انسان، کہلوانا پسند نہیں کرتا، مگر انسان، اکثر، بہ خوشی، اپنی نسبت، جانوروں سے کرتا ہے۔آپ نے سن رکھا ہو گاکہ فلاں شخص نے اپنے بچے کی ہمت بندھاتے ہو ئے کہا کہ تو شیر کی اولاد ہے، کبھی مت ڈرنا۔ بچے نے جواب دیا کہ اس کی اسکول ٹیچر بھی یہی کہتیں ہیں کہ وہ کسی جانور کی اولاد ہے۔ مصنف کی اس بات سے اتفاق کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں کہ شائید ہم میر تقی میر کا یہ شعر، فراموش کر چکے ہیں
میرے مالک نے میرے حق میں یہ احسان کیا
خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسا ن کیا
یکم فروری 2022ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1439668 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More