قلم گوید‘میری نظر میں /تصنیف سید محمد ناصر علی

قلم گوید‘میری نظر میں /تصنیف سید محمد ناصر علی
٭
پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
دیباچہ

قلم گوید‘ کے عنوان سے سید ناصر علی کے مضامین پر مشتمل نئی تصنیف منظر عام پر آیا چاہتی ہے۔ سید محمد ناصر علی صاحب کوقلم و قرطاس سے جڑے نصف صدی ہونے کو آئی۔ان کے رشحات قلم سے اب تک بے شمار نثری تخلیقات اور مضامین منشائے شہود پر آچکے ہیں۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے پیش نظر بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ناصر علی مستند نثر نگار ہیں۔مطالعہ اور لکھنا ایک ایسی عادت ہے کہ جس کسی کو اس کا چسکا لگ جاتی ہے بس وہ پھر اسی کا ہورہتا ہے۔ کسی بھی تخلیق کار کی سوچ و فکر لفظوں کے تانے بانوں کی صورت اختیار کر کے قرطاس پر منعکس ہوتے ہیں۔ تحریر بہ ظاہر خاموش، ساکت اور جامد ہوتی ہے لیکن پڑھنے والوں کے لیے امرت کا کام کرتی ہے مفید اور معلومات کا خزانہ قارئین کو دلوں کو باہم جوڑ دیتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ایسے متعارف ہوجاتے ہیں کہ جیسے وہ انہیں برسوں سے جانتے ہوں۔تحریر کی یہ خوبی اپنی مثال آپ ہے۔اب برقی کتاب کو مطبوعہ کتاب کا نعمل البدل کہا جارہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ برقی مواد نے مطبوعہ مواد کی جگہ لے لی ہے۔ چنانچہ اب کتاب اور کتب خانوں کی ضرورت نہیں۔ اب کمپیوٹر اور موبائل کی صورت میں علم کا خزانہ ہر وقت ہمارے لیے دستیاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹر نیٹ نے دنیا کو مٹھی میں بند کردیا ہے۔ اب کسی بھی موضوع پر مواد اور معلومات انٹر نیٹ پر، کتاب برقی کتب کی صورت میں ہمہ وقت دستیاب ہیں لیکن اس کے باوجود برقی کتب مطبوعہ کتب کا نعمل البدل ہرگز نہیں۔ انٹر نیٹ پر پڑھی جانے والی تحریر اور یوٹیوب پر سنی جانے والی گفتگو اپنی جگہ اہم ہے لیکن یہ سنے اور پڑھنے کے بعد چند لمحات میں ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے جب کہ کتاب طویل عرصہ تک ہماری ساتھی، دوست، غمخوار،راحت پہچانی والی، سکون فراہم کرنے والی، خاموش ساتھی کے طور پر ہمارے ہم رکاب رہتی ہے۔ اس لیے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی، شائع کرنے والوں کے عمل کو سراہانااز حد ضروری ہے۔اپنے دوست سید ناصر علی کے اس اقدام کو کہ وہ خرابی صحت کے باوجود مسلسل تصانیف و تالیفات کی تدوین و اشاعت میں مصروف کار ہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
پیش نظر تصنیف سید ناصر علی کے ان مضامین کامجموعہ ہے جو 70 ء کی دھائی میں لکھے گئے۔یہ مضامین مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئے۔علاوہ ازیں اس مجموعہ میں وہ مضامین بھی شامل ہیں جو2019 ء سے اگست2021ء کے دوران تحریر کئے گئے انگریزی سے ترجمہ شدہ مضامین بھی قلم گوید کا حصہ ہیں۔’فارسی کی کہاوت ہے کہ ”قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید“ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”قلندر جو بھی کہتا ہے دیکھ کر کہتا ہے“۔راحیل فاروقی نے اس کا مطلب کچھ اس طرح سے بیان کیا کہ صاحبِ علم آدمی بات محض اٹکل یا اپنی خواہش سے نہیں کہتا بلکہ بصیرت، تجربہ وار مشاہدے کی روشنی میں رائے دیتا ہے“۔اس کہاوت کی روشنی میں یہ کہنا قطناً غلط نہ ہوگا کہ سید محمد ناصر علی ایک صاحبِ علم ہیں، بصیرت، تجربہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں۔ان کی تصنیف ”قلم گوید“ میں انہوں نے ماضی کی طرح اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو خوبصورتی کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔سید صاحب نے قلم کے ساتھ گوید کا استعمال کر کے اپنے صاحبِ بصیرت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تصنیف کی تخلیق کے ساتھ سب سے اہم عمل اس کے عنوان کا انتخاب ہے۔ کسی بھی تصنیف کے عنوان کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے ہم انسانوں کے ناموں کی۔ دنیا میں آنے والے بچوں کے نام خوب سے خوب تر رکھنا والدین کا بنیادی عمل ہوتا ہے۔ وہ بچہ زندگی بھر اسی نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح کتاب بھی اپنے عنوان سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ بسا اوقات مصنف پسِ پردہ چلا جاتا ہے اور کتاب اپنے عنوان سے اتنی مقبول ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے عنوان سے طلب کی جاتی ہے۔مثلاً ”کالا پانی“ کا اصل عنوان ”تواریخِ عجیب“ ہے جو جعفر تھانیساری کی تصنیف ہے 1884ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ اس کتاب کو ’کالا پانی‘ کے عنوان سے ہی جانا جاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں متعدد تصانیف ایسی ہیں جو اپنے عنوان سے معروف ہیں جیسے امراؤجان ادا، فسانہ آزاد‘ر رتن ناتھ سرشار کی تصنیف ہے، خدا کی بستی، آگ کا دریا، اداس نسلیں وغیرہ۔ اسی طرح خودنوشت میں اعمال نامہ، خون بہا، مشاہدات، عمر رفتہ،درگزشت، یادوں کی مالا اور دیگرتصانیف اپنے عنوان سے طلب کی جاتی ہیں۔ ان کے مصنفین معروف ہونے کے باوجود پسِ پردہ چلے جاتے ہیں۔
’قلم گوید“ایک پر کشش عنوان ہے۔ اس میں شامل مضامین کتاب کی اہمیت کو اور بھی زیادہ اجا گر کرتے ہیں۔سید ناصر علی نے اپنی زندگی کے یادگار واقعات کو لفظوں کا خوبصورت جامہ کتاب کے ابتدائی مضامین ’سید محمد ناصر علی کا سفر زندگی ‘،’محورزندگی __ پیکر زندگی‘ اور ’چل میرے خامے بسم اللہ‘کے عنوان سے پہنایا ہے۔’وبا کے حوالہ سے ایک عمدہ مضمون ’وبا اور ہمارے سماجی رویے‘ ہے اسی حوالے سے ایک مضمون ’لیڈی۔کو۔رونا‘ اپنے موضوع پر عمدہ معلومات فراہم کرتا ہے۔مصنف نے 2020ء کو غم کا سال قراردیا ہے، یعنی ان کے ایک مضمون کا عنوان ہی غم کا سال ہے۔اپنے ایک مضمون’زندگی کے مسائل مثبت رویے‘ میں زندگی کے مسائل پر بحث کی ہے۔ دنیا کو ایک طرفہ تماشہ بھی قرار دیا ہے۔ناصر علی کا مضمون’ہے عدل کا جنازہ ذرا دھوم سے نکلے‘عدل وانصاف کے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ عورت کو مختلف زاویوں سے مصنف نے موضوع بنایا ہے اس حوالے سے صنف کئے مضامین اپنے موضوع پر عمدہ معلومات فراہم کرتئے ہیں جیسے ’عورت تو عورت ہے‘، ’عورت آبادی کی منصوبہ بندی کا جزو اعظم‘،ماں کا دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ایک مضمون ’سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘ واقعی موجودہ دور کی کچھ یہی صورت حال ہے۔ آخری مضمون ’نورمحل‘ عظمت رفتہ کی نشانی میں تاریخ کے جھروکوں سے اس موضوع کو خوبصورت انداز سے سمیٹا ہے۔
آخر میں سید ناصر علی کا ممنون ہوں کہ وہ اپنی تصانیف پر اشاعت سے قبل مجھ سے رائے لکھواتے ہیں۔ لیکن سچ اور حق یہ ہے اور مجھے اپنی کم علمی کا ادراک ہے سید ناصر علی کی تحریرویں جس پائے کی ہیں، وہ عصر جدید پر عمیق نظر رکھتے ہیں۔ وہ ترجمہ میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔”نور محل“ مصنف اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مضمون کا ترجمہ ”مغرب، مادیت اور مشرق مذہب پر کیوں قائم“ ترجمہ شدہ عمدہ مضامین ہیں۔ مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع پر عمدہ کاوش ہے۔ سالوں پہلے لکھے گئے مضامین کو پیش نظر کتاب میں شامل کر کے ان مضامین کو از سر نو زندہ کردیا ہے۔داغ دہلوی کے اس شعر پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔
خط ان کا بہت خوب عبارت بھی ہے اچھی
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ
10جنوری 2022ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279010 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More