ہم عصر شعری جہات:ایک جائزہ
(بدی محمدی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ)
ڈاکٹر بدرالزماں اپنے قلمی نام بدر محمدی سے معروف ہیں۔ ۲؍ نومبر ۱۹۶۳ء کو
چاند پور فتح، ویشالی ، بہار میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی سے ایم ۔اے
کرنے کے بعد پی ایچ۔ڈی اور بی۔ایڈ کی ڈگریوں سے سرفراز ہوئے۔ اردو کی کئی
مشہور اصناف شاعری، تنقید و تبصرہ اور ادبی صحافت سے ان کی وابستگی ہے۔ اس
کتاب سے قبل ان کے تین مجموعے ’’بنت فنون کا رشتہ‘‘(مجموعۂ غزل۔ ۲۰۱۵ء) ،
’’امعانِ نظر (تبصرے۔ ۲۰۱۵ء) ، ’’خوشبو کے حوالے‘‘ (مجموعۂ غزل۔ ۲۰۱۷ء)
منظر عام پر آکر قارئین سے داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بہار
اردو اکیڈمی،پٹنہ اور اتر پردیش اردو اکیڈمی سے انہیں ایوارڈ بھی دیا جاچکا
ہے۔
پیش نظر کتاب ’’ہم عصر شعری جہات ‘‘ بدر محمدی کی چوتھی کتاب ہے۔ اپنی کتاب
کے پیش لفظ میں موصوف نے تنقید اور کتاب کے حوالے سے بہت عمدہ تحریر رقم کی
ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میری اس کتاب کا اختصاص یہ ہے کہ یہ شعر اساس تنقید ہے اور ان شعریات کا
تعلق عصر حاضر سے ہے۔ جن پر مواد بھی کم کم حاصل ہے۔ اوروں کی تنقید سے ان
میں استفادہ نہیں کے برابر ہے۔ میری ساری تنقیدی تحریر اس صدی کی ہے۔ میری
تنقید ازم اور تحریک سے مبرا ہے میں جو کچھ پڑھا ہے اس پر غور کیا ہے۔
مطالعۂ کتب نے جو تاثرات میرے ذہن پر چھوڑے ہیں ان کا تجزیہ کیا ہے۔‘‘(ص:۸)
کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم حنیف (بدایوں) نے لکھا
ہے کہ بدر محمدی امتزاج پسند تخلیق کار بھی ہیں اور ناقد بھی ۔ ان کی زیر
بحث کتاب کا عنوان ’’ہم عصر شعری جہات‘‘ اس با ت کا مظہر ہے کہ انہوں نے
تنقید کے لئے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ ان کے عہد سے تعلق رکھتی ہیں
اور ان سب کا تعلق شاعری سے ہے۔
معروف نقاد ڈاکٹر حقانی القاسمی نے ’’نقدِ شعر اور بدر محمدی ‘‘ کے عنوان
سے اپنے خیالات کا اظہا ر تفصیل سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بدر محمدی نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شاعروں پر لکھا
ہے جن میں حمد، نعت ، دوہا، قطعہ، رباعی، نظمیں، غزلیں لکھنے والے وغیرہ
شامل ہیں۔ ان کی تنقید سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ان اصناف
سے بدر محمدی کی گہری شناسائی ہے اور ان شعری ہئیتوں سے مکمل واقفیت بھی
رکھتے ہیں۔ ‘‘(ص:۱۹)
’’مشکل راہوں کا مسافر․․․ بدر محمدی‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی
(کرناٹک) نے اپنے جامع تاثرات میں لکھا ہے کہ ’’بدر محمدی آج کے ادبی
منظرنامے کا بہت روشن اور فعال نام ہے۔ ان کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل
ہے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ جب وہ شاعری کرتے ہیں تو خالص شاعر نظر آتے
ہیں اور جب نثر لکھتے ہیں تو پورے کے پورے نثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ ہم ان پر تخلیقی ناقد، یا نثار شاعر کا لیبل نہیں لگاسکتے ہیں ، اپنے
شاعرانہ انفراد اور ناقدانہ امتیاز کو اس طرح برقرار رکھنا ہر کس و ناکس کے
بس کی بات نہیں ہے۔
بدر محمدی کی کتاب ’’ہم عصر شعری جہات‘‘میں ۲۴؍ شعرا پر مضامین رقم کئے گئے
ہیں۔ پہلا مضمون ’’سعید ؔرحمانی کی حمدیہ سحر کاری‘‘ کے عنوان سے ہے۔ سعید
رحمانی اردو زبان وادب کے بے لوث خادم ہیں ۔ وہ شعر وادب کو سیراب کرنے میں
لگے رہتے ہیں۔ بدر محمدی نے سعید رحمانی کی حمدیہ شاعری کی خصوصیات کو واضح
کر تے ہوئے حمدیہ شاعری کی صنفی خوبیوں پر بھی بہت عمدگی سے روشنی ڈالی ہے
۔
فرحت حسین خوشدل شاعر بھی ہیں اور ناقد بھی ۔ وہ حمد، نعت اور غزل میں طبع
آزمائی کرتے ہیں۔ ان کی دعائیہ نظموں پر بدر محمدی نے تحریر پیش کی ہے۔ وہ
لکھتے ہیں:’’فرحت حسین خوشدل ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ وحدانیت، دین و
اماں اور مرگ و آخرت کی اٹل سچائیوں سے وہ کبھی غافل نہیں ہوتے۔ اسلام کے
بنیادی اصولوں اور اس کی تعلیمات سے وہ روشناس ہیں۔ خوشدل جذبۂ اسلامی سے
معمور ہیں۔ وہ شعائر اسلا م کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری قرب الہٰی اور حب
رسول کا حسین و جمیل نمونہ ہے۔ ‘‘
علیم صبا نویدی اردو زبان وادب کا ایک نمایاں نام ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری پر
بدر محمدی نے خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علیم صبا نویدی کی جھولی
میں عاقبت سنوانے والی روشن دعائیں ہیں۔ ان دعاؤں کا رشتہ شہہ دوسرا ﷺ کے
دست مبارک کی خوشبوؤں سے ہے۔ شاعر نے حضور اکرم ﷺ کے روئے مبارک کو قرآنی
چہرہ، نورانی چہرہ سے موسوم کیا ہے۔ جو چراغ فکر و احسا س کو روشن کرتا ہے
اور جس سے ملاقات نیکیوں سے دامن بھرنے کے مترادف ہے۔
’’ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات‘‘ کے عنوان سے بدر محمدی نے ایک
معلوماتی مضمون تحریر کیا ہے۔ ان کی شاعرانہ خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بدر
محمدی لکھتے ہیں:
’’ناوک حمزہ پوری میدان ادب میں حمد و نعت، غزل ، نظم ، قطعات ، دوہے،
انشائیے، افسانے، ناول، کالم نگاری ، تخلیقی و تنقیدی مضامین سمیت متعدد
اصناف میں طبع آزمائی کی ہے مگر انہوں نے اصلاً اور عملاً رباعی کا شاعر
ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ وہ قادرالکلام اور باکما ل رباعی گو ہیں۔ ناوک حمزہ
پوری کی رباعیوں میں فکری پہلو بھی ہے اور ہنر مندانہ چابکدستی بھی۔ وہ
اپنے تاثرات و خیالات پر قوت اظہار کی مہر ثبت کرنے کی پوری اہلیت رکھتے
ہیں۔ ‘‘(ص:۶۱۔۶۰)
’’حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے بدر محمدی لکھتے ہیں
:’’ حافظ کرناٹکی نے اخلاقی قدروں اور ایمانی قوتوں سے شاعری کو مزین کیا
ہے۔ بزرگوں کے ادب اور بچوں سے شفقت پر زور دیا ہے۔ قوم وملت کا فائدہ سوچا
ہے۔ بزرگوں کی سیرتوں کا حوالہ دیا ہے۔ صبر و قناعت کی تلقین کی ہے۔
اخلاقیات ، انسان دوستی، پند و نصیحت کو مختلف طور سے اپنے قطعات میں پیش
کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے حافظ کرناٹکی کا ایک قطعہ ملاحظ ہو:
اچھے برے کا تھوڑا سا ادراک چاہئے
دامن میں خاکساری کی کچھ خاک چاہئے
اﷲ کی نگاہ میں باطن کی قدر ہے
میلا لباس ہو بھی تو دل پاک چاہئے
’’عطا عابدی کی ’زندگی زندگی اور زندگی‘‘ کے عنوان سے بدر محمدی نے پُر مغز
مضمون لکھا ہے۔ عطا عابدی نے غزل اور نظم ساتھ ساتھ لکھنا شروع کیا۔
شروعاتی دور میں ان کی نظمیں زیادہ شائع ہوئیں۔ ’زندگی زندگی اور زندگی‘‘
کی اکثر نظمیں فکر و فن دونوں اعتبار سے عطا عابدی کو معتبر کرنے والی ہیں۔
پابند اور آزاد دونوں طرح کی نظموں میں موضوعات کا تنوع ہے ، احسا س کا نیا
پن ہے، ان میں زاویۂ نظر کی انفرادیت ہے۔ عطا عابدی کی نظمیہ شاعری میں
گفتار کی نرمی ، اظہار کی بے باکی اور تیور کی جدت ہے۔
بدر محمدی ’’ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص‘‘کے عنوان سے اپنے مضمون میں
شاعر کی شاعرانہ انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ظہیر صدیقی غزل گو اچھے ہیں یا نظم نگار ، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اس لئے
کہ انہوں نے جب ان دونوں اصناف کے الگ الگ مجموعے لائے تو نظموں کے مجموعہ
کو اولیت دی۔ دونوں اصناف کا مشترکہ مجموعہ پیش کیا تو اس میں پہلے غزلوں
کو جگہ دی۔ دو اصناف کو ساتھ میں لے کر چلنے کا مطلب ہے کہ مشاعرے یا رسالے
میں ان کی دونوں چیزوں کو پسند کیا جارہا ہے اور پسند کی وجہ یہ ہے کہ ظہیر
صدیقی کی شاعری میں کچھ بات ہے۔ جہاں تک ان کی غزلوں کا سوال ہے وہ کلاسکیت
اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘(ص:۱۲۴۔۱۲۳)
’’صباؔ نقوی کی شعری جمالیات‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بدر
محمدی لکھتے ہیں : ’’صبا نقوی غزل کو جذبات و احساسات کے اظہار کا لطیف
پیرایہ مانتے ہیں۔ ان کی بیشتر غزلیں ذاتی کرب و اضطراب کا رد عمل ہیں لیکن
ان میں آفاقی اپیل کی صفات بھی موجود ہیں گویا ان کی آپ بیتی ، جگ بیتی کا
درجہ رکھتی ہے۔ ان کی غزلوں میں فکر ی سطح پر جدت نہیں مگر فن میں پائیداری
ہے اور اس میں نرمی جدیدیت کا کھردراپن نہیں۔ ان کے کلام میں الفاظ کی بندش
، تراکیب کی دلکشی اور معنویت کی جلوہ گری دیدنی ہے۔ ان کے اشعار میں
برجستگی ، متانت اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے چند غزلیہ اشعار ملاحظہ
کریں اور محظوظ ہوں:
اختلافات کی منزل میں ہیں گلہائے چمن
کسی مخلوط حکومت کے وزیروں کی طرح
یہ کرائے کا مکاں ہو تو اسے چھوڑ بھی دوں
مرا دشمن ہے مرے گھر کے مقابل میں بسا
راہ چلتا ہوں تو آتی ہے بشاشت رخ پر
بیٹھ جاتا ہوں تو محسوس تھکن ہوتی ہے
’’ضیا ؔعظیم آبادی کی شاعرانہ ضیاپاشی‘‘ کے عنوان سے بدر محمدی نے اپنے
تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شاعر اپنی سے زیادہ دوسروں کی زندگی
جیتا ہے ، اس لئے وہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر دس بیس آدمی رہتا ہے ۔
اس کی تنہائی میں محفل اور محفل میں تنہائی کی سی فضا ہوتی ہے یعنی شعر گو
بیک وقت کئی صفات کا مالک ہوتا ہے۔ سید مظفر عالم ضیا عظیم آبادی ایسے ہی
ایک سخن ور ہیں۔ پیشہ سے وہ ڈاکٹر ہیں لیکن فطرتاً وہ ایک مریض ہیں ، مریض
شعر و سخن۔ انہیں موزونیٔ شعر کا روگ لگا ہے اور اس روگ میں وہ چھ دہائیوں
سے مبتلا ہیں۔ ضیا عظیم آبادی دوسروں کا علاج کرنے کے مقابلے اپنے اندر شعر
و سخن کا روگ بڑھانے میں زیادہ مصروف رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں کس
بھی ہے، رقص سیماب بھی اور گرد سفر بھی۔ تبھی تو وہ لکھتے ہیں:
فطرت عجیب پائی ہے ہم نے بھی اے ضیاؔ
ہر لمحہ اضطراب ہے سیماب کی طرح
عبدالمتین جامی کا دوسرا شعری مجموعہ ’’اوج ثریا‘‘کے نام سے منظر عام پر
آیا ہے۔ بدر محمدی نے اس شعری مجموعہ پر اپنے خیالات کا اظہار ’’اوج ثریا‘‘
کے شاعر کی زمینی وابستگی‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ عبدالمتین جامی غزل کے خوش
فکر اور خوش اسلوب شاعر ہیں۔ انہوں نے پابند غزلیں بھی کہیں ہیں اور آزاد
غزلیں بھی ۔ ان کے شعروں میں غزل کا سوز و گداز ہے۔ درد و خلش ہے۔ جامیؔ نے
زندگی اور زندگی کے حقائق کو شعری جامہ پہنایا ہے۔ اپنے تجربات و مشاہدات
کو قالب بحر میں ڈھالا ہے۔ انسانی معاشرے کی بات کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے
کہ ان کی وابستگی زمین سے ہے۔
شہر کولکاتہ سے تعلق رکھنے والے ایک منفرد انداز کے شاعر علیم الدین علیمؔ
ہیں۔ بدر محمدی نے ان کی غزلوں کا رنگ و آہنگ بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی
ہے۔ دو مصرعوں، تین مصرعوں اور چار مصرعوں میں اپنی بات کہنے والے علیم
الدین علیم کے بیان میں چستی اور زبان میں شگفتگی ہے ۔ ہنر آشنا ، تازہ کار
اور قادر الکلام شاعر نے چار مصرعوں میں کی ہے۔ دو مصرعوں سے مراد دوہا
نہیں غزل کی اکائی بیت غزل ہے جو بے ربط ہونے پر نیم وحشی اور مربوط ہونے
کی صورت میں آبروئے سخن کہلاتی ہے۔ ساز دل پر غزل سرا علیم الدین علیم کے
اشعار میں موضوعات کی رنگا رنگی ہے۔ ان کی غزلوں میں یاد محبوب کی جاں
گدازی بھی ہے اور غم روزگار کی دلفریبی بھی۔
اظہرؔ نیر ضلع دربھنگہ کے ایک گاؤں برہولیا کے رہنے والے ہیں۔ ان کا ایک
شعری مجموعہ ’’سائے ببول کے‘‘ ہے۔ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
بدرمحمدی اظہر نیر کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’حوادث سے دوچار اظہر نیر دھوپ کا مسافر ہے۔ یہ دھوپ غم کی دھوپ ہے اور غم
کی یہ دھوپ کڑی دھوپ ہے۔ ایسے میں ببول کا سایہ ہی بہت ہے۔ انجمن ساز اظہر
نیر نے صرف شاعری ہی نہیں کی ہے، اردو کے علمی و ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ
لیا ہے ۔ ان کی نسبت عملی دنیا سے رہی ہے۔ خادم اردو اظہر نیر کو رام پرکاش
کپور نے مجاہد اردو سے ملقب کیا ہے۔ یہ مجاہد اردو اپنے غم میں غم دیگراں
سمونے والا جواں مرد ہے۔ جو ٹوٹتا رہا مگر آئینے کی طرح اور مشاہدات و
تجربات کو شعری جامہ پہناتا رہا۔ اسے ببول کا سایہ سہانا لگتا ہے۔
‘‘(ص:۱۷۵)
’’تیکھے لہجے کا شاعر: ظفرؔ صدیقی‘‘ میں بدر محمدی رقم طراز ہیں:’’ظفرؔ
صدیقی کے جذبوں میں لہجے کا اثر ہے۔ ان کا اپنا شعری رنگ و آہنگ ہے۔ ان کے
لہجے میں ندرت اور رنگ و آہنگ میں جدت ہے اور یہ چیز بقول ان کے غزل میں ان
کی پہچان بنانے کا وسیلہ ہے۔ شاعر موصوف کا لہجہ سادہ اور خود ساختہ ہے۔ ان
کا انداز بیاں بے لاگ لپیٹ والا ہے۔ ان کے اسلوب میں بے ساختگی اور صاف
گوئی ہے۔ ریا کاری یا کرتب بازی نہیں۔ اس لئے وہ اکثر اس انداز کے اشعار
موزوں کرتے ہیں:
زمانہ داد مرے فن کی ایک دن دے گا
کہ تیرگی سے اجالے نچوڑتا ہوں میں
مجھ پہ الزام رکھا جاتا ہے غداری کا
میرا لہجہ ہوا جاتا ہے بغاوت والا
دل نازک میں بھی اک روز ہمت سر اٹھاتی ہے
زیادہ ظلم ہونے سے بغاوت سر اٹھاتی ہے
اشرف یعقوبی کا تعلق سرزمین کولکاتا سے ہے۔ ان کی شاعری فکرکی شاعری ہے۔ ان
کی غزلیہ شاعری ہو یا نظمیہ شاعری اکثر ایک پیغام نمایاں ہوتا ہے۔ وہ
تصورات کو نہیں اپنے تجربات کو شعری جامہ پہناتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش جو
کچھ دیکھتے ہیں اسے شعری سانچے میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری
ماں اور مادر وطن کی شاعری ہے۔ ان کے شعروں میں گاؤں اور شہر کا ذکر کثرت
سے ملتا ہے۔ ملک میں آئے دن پیش آنے والے حادثات و واقعات سے وہ پوری طرح
باخبر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں کسان اور سیاست کی بات پیش کی
گئی ہے۔ دو اشعار ملاحظہ کریں:
جو بیج بانٹتا تھا مرے گاؤں میں کبھی
بندوق بانٹتا ہے وہ آکر کسان میں
ہم نے اس کو دیکھا ہے سوکھی روٹیاں کھاتے
جو کسان محنت سے سبزیاں اگاتا ہے
کتاب میں شامل آخری مضمون ’’مینو بخشی کی اردو شاعری‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس
مضمون میں بدر محمدی مینو بخشی کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
:’’مینو بخشی کی شاعری مسائل حسن و عشق اور کیفیات دل کی شاعری ہے لہٰذا
ایسے کلام پر مشتمل شعری گلدستہ کا نام تشنگی رکھنا بڑا معنی خیز ہے۔ یہ
نام اس لئے بھی مناسب ہے کہ تشنگی مینو بخشی کا پہلا شعری گلدستہ ہے۔
محترمہ بخشی ایک حساس طبیعت شاعرہ ہیں۔ وہ دل کی تسلی اور راحت کے لئے
اشعار کہتی ہیں۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں عشق کی مختلف کیفیات کو واضح کیا
ہے۔
اس طرح بد ر محمدی کی پیش نظر کتاب ’’ہم عصر شعری جہات‘‘ میں شامل تمام
تنقیدی مضامین مطالعہ طلب ہیں۔ اس کتاب کی پذیرائی اردو حلقے میں یقینا
ہوگی۔
٭٭
|