علامہ اقبالؒصرف شاعر نہیں تھے بلکہ وہ شاعری برائے
شاعری کے قائل ہی نہیں تھے ۔ شاعری محض ان کے لیے ذریعہ پیام تھی۔بالکل اسی
طرح ان کی فکر اور فلسفہ ُامّت مُسلمہ کا ترجمان اور تہذیب مشرق کا نگہباں
تھا ۔اقبالؒ مفکّر بھی تھے اور فلسفی بھی،مفسّر قرآن بھی اور علوم ِاسلامی
کے عالم بھی، اسلامی اقتصادیات کے ماہر بھی اور بین الاقوامی مدبّر بھی اور
انتہائی دُور اندیش رہنما بھی ۔ان تمام حیثیتوں میں انہیں اوجِ کمال حاصل
تھا۔ان کا فلسفہ حیات وکائنات کے ایسے راز ظاہر کرتا ہے جو بنی نوع انسان
کی نظروں سے اوجھل تھے ۔
میری نوائے دو رنگی کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ خانہ
ان کا پیغام انفرادی طور پر بنی نوع انسان ، مردِ مومن اور مردِ کامل کے
لیے اور اجتماعی طور پراپنے ہم وطنوں، ملت اسلامیہ سمیت سارے جہاں کے لیے
ہے۔جہاں وہ اسلامی نشاۃِ ثانیہ اور احیائے اسلام کے علم بردار تھے وہاں
انہوں نے مسلمانانِ ہند کے مستقبل کے معمار کا کردار بھی اداکیا۔ہندوستان
کے مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات ان گنت اور ناقابلِ فراموش ہیں ۔
بیسویں صدی کا پہلا نصف ہندوستان کے عوام کے لیے فیصلہ کن تھا ۔انگریز حاکم
جو انیسویں صدی میں ہندوستان کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے اور انہیں
کسی قسم کی رعایت دینے کے روادار نہیں تھے، وہ بیسویں صدی میں خصوصاََ پہلی
عالمی جنگ کے بعد کچھ قانونی سہولتیں دینے کی طرف مائل ہوئے ۔ مگر اس وقت
ہندوؤں نے اکثریت کے بل پر ان کے گرد گھیراڈال رکھا تھا ۔ اگر مخلوط
انتخابات کا طریقہ رائج ہو جاتا جوہندوؤں اور کانگریسیوں کا مطمعِ نظر تھا
تو مسلمان ہمیشہ کے لیے محکوم ہوجاتے، پہلے انگریزوں کے اور مستقبل میں
ہندوؤں کے ۔ ادھر انتہا پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے
پر تولے ہوئے تھیں ۔ وہ ببانگِ دہل مسلمانوں کو لکار رہی تھیں کہ ہندو بن
جاؤ یا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ۔اگر ہندوؤں کی حکومت آ جاتی تو پھر
مسلمانوں کی بقا خطرے میں تھی۔ ان کی نسل کشی کی جا سکتی تھی۔تاریخ میں اس
کی مثال موجود ہے جب ہسپانیہ پر آٹھ سو سال کی حکومت کے بعد مسلمانوں پر
زوال آیا تو وہاں ایک بچہ بھی زندہ نہیں رہنے دیا گیا ۔ یا تو وہ عیسائی
بنا لیے گئے یا پھر تہ تیغ کر دیے گئے۔ جو تھوڑے بہت باقی بچے انہیں جہازوں
میں بھر کر شمالی افریقہ کے ساحلوں پر پھینک دیا گیا۔
ہندوستان کے مسلمان حکومت کے چھن جانے کے بعد کبھی بھی نہیں سنبھلے ۔ وہ
انگریزوں اور ہندوؤں سے سہمے ہوئے اور اپنے بچاؤ کے لیے فکر مند رہتے تھے ۔
ان میں اندرونی انتشار تھا ۔عام مسلمان ان پڑھ تھے۔ جو تعلیم یافتہ تھے وہ
انگریزوں سے سخت مرعوب تھے اور باقی خارزارِ سیاست سے دور رہتے تھے ۔ ان
دنوں مسلمانوں کے لیڈر چند علماتھے جو زیادہ تر کانگریس کی بھول بھلیوں اور
تحریک ِ خلافت میں مگن تھے اور بحثیت قوم مسلمانوں کے مستقبل کی انہیں
زیادہ فکر نہیں تھی ۔اس جمود کو ، وطنیت کے اس جال کو اور قوم پرستی کے اس
خول کو سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے توڑا ۔:
ایک بُلبل ہے کہ محوِ ترنّم ہے اب تک
اس کے سینے میں نغموں کا تلاطم ہے اب تک
انہوں نے اپنی ولولہ انگیزشاعری کے ذریعے وطنیت کا بت پاش پاش کیا،
مسلمانوں میں تازہ رُوح پھونکی، ان کے اندر جذبہ ایمانی جگایا اور سیاسی
بصیرت کی روشنی سے انہیں اپنے قانونی اور سماجی حقوق سے آگاہ کیا ۔ انہوں
نے مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے
تیار کیا۔ سب سے اہم یہ کہ ایک الگ قوم کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنے اور
اس پر جمے رہنے کی مسلسل ترغیب دیتے رہے ۔ مسلمانوں کو ایک قوم ، ایک طاقت
کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے علامہ ؒنے طویل جدوجہد کی ۔ اس راہ میں انہیں
اپنوں اور غیروں سمیت چو مکھی لڑائی لڑنی پڑی مگر ان کے پائے استقامت میں
کبھی لغزش نہیں آئی ۔ایک طرف انگریز تھے ، دوسری طرف ہندو تھے، تیسری طرف
قوم پرست کانگریسی مسلمان مدّمقابل تھے اور چوتھی جانب مسلم لیگ کے اندر
سازشی عناصر سانس نہیں لینے دے رہے تھے ۔ علامہؒ پر بھی مخلوط انتخابات کا
نہرو فارمولہ مسلط کرنے کی بارہا کوشش کی گئی ۔ ان کے بہت سے ساتھی اس
جھانسے میں آگئے مگر اقبالؒ اپنے اصولی موقف سے ایک قدم بھی نہیں ہٹے ۔ اسی
لیے بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ نے علامہؒ کے بارے میں فرمایا تھا :
" He is friend, a guide,philospher, during the darkest moments through
which the Muslim league had to go,he stood like a rock and never
flinched for one single moment "
( ترجمہ : وہ (اقبالؒ) میرے دوست ، میرے راہبر اورفلسفی ہیں ۔ تاریک ترین
لمحات جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا اس دوران وہ چٹان کے طرح جمے رہے اور ان
کے پائے استقامت میں ایک لمحے کے لیے بھی لغزش نہیں آئی )۔
حقیقت یہ ہے کہ 1908 ء جب اقبالؒ یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آئے
سے لے کر 1938 ء تک، اپنی زندگی کے آخری تیس برسوں میں وہ اپنی شاعری،
خطبات، مقالات اور بیانات کے ذریعے قوم کی رہنمائی کرتے رہے ۔ جب وہ عملی
سیاست میں نہیں ہوتے تو بھی مسلمان ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے ۔1926 ء سے
لے کر 1934 ء تک علامہ نے انتہائی اہم سیاسی کردار ادا کیا۔ اس دوران میں
اقبالؒ مسلمانوں کی سیاسی قیادت نہ کرتے تو ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل
تاریک ہو سکتا تھا ۔ کیونکہ یہ برصغیر کی تاریخ کے نہایت اہم سال تھے۔
انگریز اقتدار کے منتقل کرنے کے قانونی فارمولے سوچ رہے تھے ۔ اس کے لیے
انہوں نے لندن میں تین گول میزیں کانفرنسیں بلائیں ۔ علامہ اقبالؒ نے ان
میں سے دو میں شرکت کی اور مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا ۔ ان کا سب بڑا
اور تاریخی قدم 1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے سے صدارتی
خطاب ہے ۔ اس خطاب میں پہلی مرتبہ علامہ ؒنے مسلمانانِ ہند کی طرف سے آزاد
وطن کا مطالبہ کیا ۔ حالانکہ اس وقت انگریزوں کی حکومت نصٖف النہار پر تھی
مگر علامہ ؒنے اپنی سیاسی بصیرت اور دُور اندیشی کی بنا پر مسلمانوں کو الگ
وطن کا راستہ دکھا دیا ۔علامہ اقبال ؒ کا یہ مطالبہ اتنا عظیم تھا اور وہ
بھی مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت کے صدر کے طور پرکہ اس کی گونج بین
الاقوامی سطح پر بھی سنائی دی ۔ اس مطالبے سے کانگریس اورانگریز ہل کر رہ
گئے ۔علامہؒ کے اس مطالبے کی گونج ہندوستان کے قریہ قریہ میں پھیل گئی ،
بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بن گئی ۔
1934 ء کے بعد علامہؒ کی طبیعت خراب رہنے لگی مگر انہوں نے ادبی مشاغل اور
قومی خدمات کا سلسلہ ترک نہیں کیا ۔ قائد اعظم مسلم لیگ کے اندرونی انتشار
سے برگشتہ ہو کر 1930ء میں لندن منتقل ہو گئے تھے ۔ علامہؒ نے انہیں
ہندوستان واپس آنے اور مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے پیغامات اور خطوط کا
سلسلہ جاری رکھا ۔ قائد اعظم بھی علامہ ؒ کی خدمات اور ان کی سیاسی بصیرت
کے قائل تھے۔ لہذا وہ 1934 میں وطن واپس آگئے اور انہیں مسلم لیگ کا تاحیات
صدر منتخب کر لیا گیا۔اس کے بعد بھی علامہ ؒ نے قائد اعظم کے ساتھ دستِ
تعاون دراز رکھا۔ یوں دو عظیم رہنماؤں جنھیں اﷲ نے اس عظیم کام کے لیے
منتخب کیا تھا، کی سرکردگی میں یہ تحریک آگے بڑھتی گئی ۔ علامہ21 اپریل
1938 ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔اِنّا ﷲ ِ و ااِنّا الیہِ رَاجعون ۔
اس کے دو برس بعد مارچ 1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی ۔ اسی شام
قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا ۔’’ آج اقبال زندہ ہوتے توکتنے خوش ہوتے
کہ ہم نے وہی قدم اٹھایا ہے جو وہ چاہتے تھے ‘‘۔ اُدھرآسمانوں پر رُوحِ
اقبالؒ مسکرا رہی تھی۔
مدتوں کرتی ہے گردش جستجو میں کائنات
تب کہیں ملتا ہے ایسا محرمِ رازِ حیات |