آخر کار ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں یوگی آ
دتیہ ناتھ نے وزیر اعلی کے طور پردوسری بار حلف لے لیاہے۔کہتے ہیں کہ بی جے
پی لیڈرشپ انہیں پہلی بار اتر پردیش کا وزیر اعلی بنانے کے تعلق سے
ہچکچارہی تھی،وجہ معقول تھی، تجربہ نہ ہونا تھا،لیکن سنگھ پریوار نے بڑی
طاقت سے ان کی حمایت کی اور وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلی کے عہدہ
پر فائز کردیئے گئے، گزشتہ پانچ برسوں میں اترپردیش میں جو کچھ ہواہے ،وہ
کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔یوپی میں جو کچھ ہوا ہے،اس بحث میں فی الحال نہیں
پڑتے ہوئے صرف یہ حقیقت پیش کرنا ہے کہ ریاستی اسمبلی انتخابات میں سب سے
زیادہ کانگریس کی مٹی خراب ہوئی ہے،الیکشن نتائج کے بعد ایک سفر کے دوران
ایک مسلم ٹیکسی ڈرائیورنے یوپی الیکشن نتائج پر ایک سطر میں تبصرہ کرتے
ہوئے کہاکہ "صاحب جی ،کانگریس کوبابری مسجد کی بددعالگ گئی ہے،یوپی کا
مسلمان شایدہی کبھی اُسے معاف کرپائے۔"اس بات کی گہرائی کاجائزہ پھر
لیاجائیگا۔
لیکن،مذکورہ سچائی سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ہے،کیونکہ کانگریس گزشتہ تین
عشرے میں ان ریاستوں میں ہی کامیابی حاصل کرتی رہی ہے،جہاں تیسری مضبوط
پارٹی نہیں ہوتی ہے۔پھر ایم پی اور کرناٹک میں ناقص اورضدی لیڈرشپ کی وجہ
سے اس نے اقتدار گنوادیتی ہے۔
سچائی یہ بھی ہے کہ پہلے بابری مسجد کے انہدام کے بعد،جس نے پارٹی کو کہیں
کا نہیں چھوڑا ہے اور پھر مسلسل دوبار 2019-2017 کا لوک سبھا انتخابات
ہارنے پربھی کانگریس نے اپنی کوئی اصلاح نہیں کی ہے،تنظیمی ڈھانچے میں
معمولی تبدیلی بھی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ 2019 کے بعد سے کانگریس، لیڈرشپ
کے بحران کا شکارہے،راہل گاندھی تین سال قبل الیکشن میں شکست کے دوچار ہونے
کے بعد سے راہ فرار اختیار کرچکے ہیں، شمالی ہند میں کانگریس کے اقتدار
والی واحد ریاست پنجاب میں بھی عآپ نے جھاڑو پھیر دی ہے۔جہاں الیکشن سے محض
چھ مہینے پہلے تک ایسا گھمسان ہوا ہے کہ 'ناخداہی ملانہ وصال
صنم'۔امریندرسنگھ،سدواور دیگر لیڈران ہائی کمان کی ڈانٹ پھٹکار تک دست
وگریباں رہے۔
آج کانگریس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ بے یار ومددگا ر ہے۔کوئی پرسان حال
نہیں ہے۔اس لیے پارٹی کو علاقائی پارٹیوں کی "شرن" لینا پڑی ہے۔قدیم۔جماعت
کا تمغہ اب اتار پھینکنا چاہیئے۔
اس کی مہاراشٹر میں کھلی مثال ہے۔کانگریس کو اقتدار کے لیے اپنے اصولوں
وضوابط کو بالائے طاق رکھنا پڑا ہے۔اُسے ایک ایسے اتحاد کاحصہ بنناپڑا
ہے،جس میں دائیں بازوکی کٹرترین پارٹی شیوسینا بھی شامل ہے،اور وزیراعلی
اور شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے نے اپنے حالیہ بیان میں واضح کردیا ہے کہ "انہوں
نے بی جے پی کوچھوڑاہے،ہندوتوا کوتیاگ نہیں کیاہے۔"یہ اقتدار کی ہوس ہے یا
انتقامی کارروائی ،اسکا علم نہیں ہے،لیکن سچائی یہ ہے کہ ادھو کی قیادت میں
محاذ حکومت کمزور ہو چکی ہے،وہ اس طرح کہ ادھو کی کابینہ کے دو طاقتور وزیر
اور سنئیر رہنماء جن کا تعلق شردپوار کی نیشلسٹ کانگریس پارٹی سے ہے،جیل کی
ہوا کھارہے ہیں۔ این سی پی لیڈرشپ نے ان کی ای ڈی کے ذریعے گرفتاری پر
ابتداء میں معمولی سی مزاحمت کی ،اورخاموش تماشائی بنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
دراصل بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی لیڈرشپ شیوسینا کی ناراضگی کے بعد
مہاراشٹر میں اقتدار سے محروم ہونے پر تلملا اٹھی تھی،اور شردپوار سے
انتقام لینے کے لیے ان کے دست راست اور معاونین کو نشانہ بنایا جانے لگا،اس
مہم میں سیاسی محاذ پر ناکامی پرانہوں نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور انکم
ٹیکس کو سیاسی طورپر استعمال کرنا شروع کردیا،ای ڈی نے سب سے معمولی لیڈر
سمجھتے ہوئے ایک بچکانہ حرکت کردی اور شردپوار کو ہی نوٹس بھیج دیااور
انہوں نے قبل از وقت ای ڈی دفتر پہنچنے کا اعلان کیاتو مودی حکومت اور
انتظامیہ کے ہوش اڑادیئے اور انہیں روکنے کے لیے ممبئی کے پولیس کمشنر بذات
خود پوارکے گھر پہنچے اور درخواست کی وہ ای ڈی دفتر نہ جائیں۔
خیریہ شردپوار کا ذکر نکل آیا ،پوار نے انیل دیشمکھ کی گرفتاری کے بعد این
سی پی لیڈروں کی سرد مہری پر واضح طور پر ایک میٹنگ میں بلاجھجھک کہاتھا
کہ"انیل دیشمکھ کی حمایت میں این سی پی لیڈران طاقت سے کھڑے نہیں رہے اور
انہیں بے یار ومدد گار چھوڑ دیاگیا۔"یہ سچائی ہے،بالکل ایک دیڑھ سال بعد
این سی پی کے سینئر لیڈر اور شردپوار کے چہتے کہہ جانے والے بے باک ونڈر
مسلم چہرہ نواب ملک کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔
نواب ملک کی گرفتاری پر شردپوار نے انٹلی جنس کی ناکامی کی بات کہی
ہے۔دراصل انہیں شایدپتہ نہیں یا بھول گئے ہیں کہ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ
دلیپ ولسے پاٹل کی نااہلی اورسست روی اس کے لیے ذمہ دار ہے، حالانکہ وہ
گزشتہ تین عشرے سے کئی وزرائے اعلیٰ کی کابینہ میں رہ چکے ہیں اور پوار کے
منظور نظربھی ہیں ،لیکن پتہ نہیں جوش وولولہ نہیں ہے،ایک بار انہوں نے
مرحوم رفیق زکریاکے مہاراشٹر کالج میں بحیثیت وزیر تعلیم ان کی موجودگی میں
ایک جلسہ میں اقلیتوں کو دستور کے تحت تعلیمی اداروں میں ملنے والی رعایت
اور ریزرویشن پر سوال اٹھائے تو مرحوم زکریا نے انہیں منہ توڑ جواب
دیاتھا،ایسے لیڈر سے نواب ملک کے بارے میں وزیر داخلہ رہتے ہوئے کوئی امید
نہیں کی جاسکتی ہے۔ پوار صاحب کو پارٹی میں ایسے لوگوں کی تلاش کروانی
چاہیئے۔
اگر شردپوار کے دونوں بیانات کا جائزہ لیاجائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی ضرب المثال یہاں صادق نہیں ہورہی ہو۔دونوں
لیڈران شرد پوار کے قریبی خیال کیے جاتے ہیں۔جبکہ نواب ملک نے حال میں
نیشنل ڈرگس بیورو اور اس کے سربراہ سمیر کی دھجیاں اڑا ئیں اور اس کے بعد
ہی نواب ملک کے خلاف کارروائی، انتقامی ردعمل ہی لگتا ہے۔
نواب ملک کی لیڈرشپ گزشتہ دوتین سال میں مزید ابھرکرسامنے آئی ہے اور این
سی پی کے ترجمان کی حیثیت سے وہ مخالفین اور عدل و انصاف جیسے دشمنوں کی
دھجیاں اڑاتے رہے ہیں ،اس انداز سے مخالفین ہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے
لیڈران بھی سہم جاتے ۔شردپوار سمیت دیگر سینئیرلیڈران کوچاہیئے کہ ایک حکمت
عملی کے تحت ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسی غیر جانبدارانہ ایجنسیوں کو انتقامی
کارروائیوں سے روکیں۔نواب ملک کا معاملہ بیس سے پچیس سال پرانا ہے،انہیں
صرف اور صرف ناانصافی کے خلاف کھڑے رہنے اور ایک بدعنوان افسر کی پول
کھولنے کے جرم میں جیل پہنچایا گیا ہے،اس انتقامی کارروائی میں بی جے پی کی
ریاستی اور مرکزی لیڈرشپ ہی نہیں بلکہ این سی پی میں آستین کے سانپ بھی
ملوث نظرآرہے ہیں ،ورنہ پوار کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ انیل
دیشمکھ کی حمایت میں پارٹی کے لوگ حمایت میں کھڑے نہیں ہوئے اور نواب ملک
کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی ہے،بلکہ بی جے پی مہاراشٹر کی سیاسی پوزیشن کو
سمجھتی ہے اور اس نے یوپی کی فتح کے بعد 'مہاراشٹر مشن' تیار کرلیاہے،یہی
سبب ہے کہ جونیئر ٹھاکرے کے حواریوں کو کھنگالنا شروع کردیا گیا ہے۔ادیتیہ
ٹھاکرے ان کے نشانہ پر ہیں۔آئندہ چھ مہینے میں اس مشن کو انجام تک
پہنچادیاجائے گا، اگر حکومت اور مہاوکاس اگھاڑی پر پوار کی گرفت کمزور پڑ
گئی،توادھو ٹھاکرے حکومت کوبچانا مشکل ہوجائے گا، یعنی مہاراشٹر میں
ادھوسرکار کیلئے"کھٹن ہے ڈگرپنگھٹ کی۔"
|