انیس الرحمٰن خان کا قاتل کون ہے؟

 انیس الرحمٰن خان کون تھا ؟ کہ جس کے قتل نے ممتا بنرجی کے دامن کو داغدار کردیا ۔ اس سوال کا جواب جانے بغیر قاتلوں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ کولکاتہ سے قریب میں ساردا دکھن گائوں کا یہ نوجوان وہاں کے سارے باشندوں کی امیدوں کا مرکز تھا کیونکہ وہ ہرمصیبت میں ان کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ انیس الرحمن کی ماں کا تین سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے دو بھائیوں میں سےایک سعودی عرب میں زیر ملازمت ہے جب کہ سب بڑا بھائی کولکاتہ میں اےسی کی مرمت کا کام کرتا ہے۔ اتفاق سے اس قتل کی رات اپنےکمرے میں بچوں کے ساتھ سورہا تھا۔ وہ نہیں جان سکا کہ اس کا چھوٹا بھائی کس طرح خونی بھیڑیوں کا شکار ہوگیا ورنہ اسے بچانے کی خاطر اپنی جان لڑا دیتا۔ بڑے بھائی کے علاوہ دوسرے کمرے میں بھانجی بھی سورہی تھی۔ قاتلوں نے جب اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر نصف شب میں دروازے پر دستک دی تو بدنصیب والد نے دروازہ کھولا تھا۔

اس منحوس رات میں گاوں کے اندر میلاد کا جلسہ تھااس لیے انیس الرحمٰن سمیت سارے مرد اس میں شریک تھے۔ اس رات انیس الرحمٰن کے تعاقب میں صرف 15منٹ بعد وردی میں قاتل اس کے گھر پہنچ گئے – یہی وجہ ہے کہ سرکاری مدرسہ کے مدرس کلیم اللہ نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ مبادہ انیس کا پیچھا کرتے ہوئے وہ لوگ جلسہ گاہ سے اس کے گھر آئے تھے ۔ دروازہ کھولنے پر جب انیس کے والد نے کہا کہ وہ ابھی گھر میں نہیں ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ وہ گھر آیا ہے اور اس کو تلاش کرتے ہوئے اوپر والی منزل پر چلے گئے۔یہ قتل کے منصوبہ بند ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ کلیم اللہ نے یہ بھی بتایا کہ گاوں کی سیاست اور تنازعات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ انیس کے ہم مدرسہ کلیم اللہ کے مطابق وہ اپنے گاوں کی تصویر بدلنا چاہتا تھا ۔ وہ کولکاتہ اور ہوڑہ کے الوبیڑیا میں این آر سی اور شہری ترمیمی ایکٹ مخالف تحریکوں میں حصہ لیا کرتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف ایک دو مقدمات بھی درج ہوئے تھے ۔

اپنی مادرِ تعلیم عالیہ یونیورسٹی کو بچانے والی تحریک میں بھی وہ پیش پیش تھا کیونکہ وہیں سے اس نے پانچ سالوں تک ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس کے بعدوہ کلیانی یونیورسٹی میں کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔انیس کی پھوپھی حلیمہ کے مطابق انیس بچپن سے ہی پڑھا ئی لکھائی میں تیز تھا۔وہ اپنے گاوں اور خاندان کے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا۔گاوں کے کسی بچے کا داخلہ کرنا ہو یا پھر کسی کو کتاب وغیرہ فراہم کرنی ہو تووہ پیش پیش رہتا تھا۔گاوں کے لوگوں نے اس سے بڑی امید یں وابستہ کررکھی تھیں کہ وہ پورے علاقے کی ترقی کےلئے کام کرے گا۔پولس نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ساردادکھن پارہ چار پانچ سو گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا پسماندہ گاوں ہے جس کی 80فیصدآبادی مسلمان ہے۔یہاں کے زیادہ تر باشندے کھیتی کرتےہیں ۔جب سے نوجوانوں نے ملک کے دیگر شہروں میں کام کرنا شروع کیا ہے گاوں کے اندر کچھ پختہ مکانات نظر آنے لگے ہیں ۔

اپنی تعلیم کے علاوہ وہ دیگر فلاح و بہبود کی سرگرمیوں کا اہتمام کیا کرتا تھا مثلاً 6مہینے قبل انیس الرحمن نے اپنے گاوں میں خون کا عطیہ جمع کرنے کی خاطرکیمپ منعقد کیا تو ترنمول کانگریس نے اسے روکوادیا ۔ اس کے خلاف انیس الرحمن نے پولس میں شکایت بھی درج کرائی تھی ۔ اس سے ممتا کا وہ دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوتا ہے کہ جس میں اسے حکمراں جماعت کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بھرم کسی اور نے نہیں خود ممتا بنرجی نے پھیلایا کہ ترنمول کانگریس کے انیس کے ساتھ کافی اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے کہا کہ انیس کے ساتھ ہماری اچھی بات چیت تھی۔ الیکشن کے دوران انیس نے بھی ہماری بہت مدد کی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی رہنما اس سے ناراض رہتے تھے کیونکہ وہ کسی خوشامد نہیں کرتا تھا بلکہ مظلومین کی مدد میں کمر بستہ رہتا تھا ۔ سوشل میڈیا پرانیس خا ن کا ایک پوسٹ وائرل ہورہا ہے جس میں انیس خان نے لکھا تھا کہ وہ ھمکیوں سے خوف زدہ نہیں ہونے والے ہیں ۔وہ لوگوں کی مدد اور یہاں کے عوام کےلئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔

انیس الرحمٰن نے چونکہ چند ماہ قبل عباس صدیقی کی سیاسی جماعت انڈین سیکولرفرنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی اس لیے ترنمول کا اس سے خفا ہونا قابلِ فہم ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنے مخالف کو قتل کردیا جائے۔ بی جے پی کے رہنما جب ترنمول کانگریس پر یہ الزام لگاتے تھے کہ اس کے غنڈے اپنے مخالفین کا قتل کردیتے ہیں ہم یقین کرنے میں تامّل کرتے تھے مگر اب تو یہ خود ہمارے ساتھ ہوگیا ۔ اس پر زیادہ افسوس اس لیے بھی ہےکیونکہ مسلمانوں نے کمل کو نہیں بلکہ ترنمول کے پتوں کو اپنے خون سے سینچا ہے ۔مسلم مجلس مشاورت کے ریاستی جنرل سیکریٹری عبد العزیز اور قمرالدین ملک پر مشتمل وفد نے انیس الرحمٰن کے والد سالم خان سے ملاقات کے بعد کہا کہ ان کے بیٹے کو انصاف دلانے کی لڑائی میں مشاورت ہمیشہ کھڑی رہے گی ۔عبدالعزیز نے واضح کیا کہ انیس الرحمن کا قتل یہ بتاتا ہے کہ حکمراں جماعت کسی بھی ابھرتی ہوئی آواز کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔انہوں نے ریاستی پولس اور سی آئی ڈی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ حیدر علی آتش کے مطابق؎
دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پولس سیاسی رہنماوں کے دباؤ میں کام کرتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مغربی بنگال کے مسلمان ممتا بنرجی کے خلاف مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی بدنام زمانہ ادارہ سی بی آئی کے ذریعہ تفتیش کا مطالبہ کررہے ہیں۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں گورنر کا مرکزی حکومت کی کٹھ پتلی ہونا جگ ظاہر ہے اور بی جے پی کی مسلم دشمنی بھی کھلا راز ہے اس کے باوجود بنگال کےگورنر جگدیپ دھنکر نے انیس خ کےان قتل کو انتہائی تشویش ناک بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعہ کی وجہ سے نوجوانوں میں غم و غصہ ہے ۔ ایک مندر کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا کہ انیس خان کے قتل معاملے کا نوٹس لے کر کئی مختلف نامور شخصیات سے معلومات حاصل کی ہے۔ اس طرح بنگال میں اس بابت غم کے ماحول کا اعتراف کرنے کے بعد انہوں نے اسے تشویشناک، غصے اور ہمدردی کے لائق بتایا ۔ ایسے میں یہ شعر یاد آتا ہے؎
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

انیس کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئےانڈین سیکولر فرنٹ نے رکن اسمبلی نوشاد صدیقی کی قیادت میں کلکتہ شہر کے سیالدہ ریلوے اسٹیشن سے دھرم تلہ تک جلوس نکالا تو اس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔2021میں تشکیل شدہ آئی ایس ایف کا کولکاتہ میں یہ پہلا سیاسی پروگرام تھا ۔ جلوس سے خطاب کرتے ہوئے نوشاد صدیقی نے عالیہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم و سماجی کارکن انیس خان کا تعارف ایک ابھرتا ہوا نوجوان کی حیثیت کراکے کہا تھا کہ وہ ناانصافی کے خلاف جد وجہد کرتا تھا۔این آر سی اور شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک میں وہ بنگال کا نمایاں چہرہ تھا۔وہ ممتا بنرجی کی حکومت اور ترنمول کانگریس کی غنڈہ گردی کے خلاف بھی آواز بلندکرتا تھا۔صدیقی کے مطابق انیس خان کا قتل شاہد ہے کہ اس کے پس پشت سینئر پولس اہلکار اور سیاست داں ملوث ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انیس خان کے والد کو بنگال پولس پر بھروسہ نہیں ہے ۔

سڑکوں اور تعلیم گاہوں میں جاری و ساری احتجاج نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کوخود سامنے آکر نقصان بھر پائی کے لیے مجبور کردیا۔ اس کی ابتداء میں انہوں نے انیس خان کے والد کواپنے دفتر میں طلب کیا مگر اس خوددار باپ نے ملاقات سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ کیوں جائیں؟ اگر ممتا ضروری سمجھتی ہیں تو آسکتی ہیں۔ اس رسوائی کے بعد ممتا بنرجی نے غیرجانبدارانہ جانچ کی یقین دہانی کراتے ہوئے اعلیٰ سطحی ایس آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کمیٹی کو 15 روز میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنےکی ہدایت دی اور انکوائری کمیٹی میں ڈی جی، چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری اور سی آئی ڈی کے افسران کو شامل کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’’میں جان واپس نہیں دلا سکتی ہوں یہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ میرا یقین کرو، میں جو کچھ بھی کر سکتی ہوں وہ کر و ں گی۔ حکومت غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، انصاف ہوگا۔ میں صرف اتنا ہی وعدہ کر سکتی ہوں۔ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔جو بھی قصوروار ہےاس کو سزا ملے گی ۔ اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہے‘‘۔ کاش کے اس وعدے پر عمل در آمد ہو۔

ممتا بنرجی کے اس بیان پر یقین کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ان کے تحت کام کرنے والی پولس کا موقف مسلسل بدلتا رہا ہے اور اس نے انیس الرحمٰن کے کردار کشی کی بہت کوشش کی ہے۔ پہلے کہا گیا کہ چار افرادمیں سے ایک شخص پولس آفیسر اور تین سیوک پولس کے لباس میں جبرا ًداخل ہوکر انیس خان کو دوسری منزل کے چھت سے ڈھکیل دیا۔ان چاروں نے خود کو پولس کے طور پر متعارف کرایا گویا وہ پولس نہیں تھے لیکن اب یہ پتہ چلا کہ وہ پولس ہی تھے ۔انیس خان کی موت کے 30گھنٹے بعد فرانسک ٹیم کا گھر پہنچنا حیرتناک ہے۔ اس سازش میں پولس آفیسرنے انیس کے والد سالم خان کو باتوں میں مصروف رکھا اور اس درمیان تین اہلکار اوپر جاکر انیس کو گھر کی تیسری منزل سے ڈھکیل دیا۔سالم خان کے مطابق جب اچانک گھر سے نیچے گرنے کی زوردار آواز آئی تو دیکھا کہ وہ انیس تھا۔اس دوران اوپر جانے والے تین افراد نے پولس آفیسر سے کہا کہ ’’سرکام ہوگیا ہے‘‘اور اس کے بعد یہ تینو ں گھر سے نکل گئے ۔ یہ مختصر سا جملہ سارے راز فاش کرنے کے لیے کافی ہے۔ حفیظ بنارسی فرماتے ہیں؎
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.