تحریک عدم اعتماد۔انجام کیا ہوگا ؟

 گزشتہ روز ایک ایم پی اے دوست کے ساتھ ایک دوسرے ایم پی اے کے گھر جانا ہوا تو راستے میں اور ایم پی اے کے حجرے میں ایک ہی موضوع زیرِ بحث رہا کہ تحریکِ عدم اعتماد کا میاب ہو گی یا ناکام ؟ دراصل یہی موضوع آج کل سوشل میڈیا ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ، حجروں اور نجی محفلوں میں باعثِ تکّلم ہے ۔ملکی سیاست میں اس وقت اتنی کنفیوژن ہے کہ کوئی بھی بات یقین کے ساتھ نہیں کی جا سکتی اور کسی بھی تجزیہ کو حرفِ آخر نہیں کہا جا سکتا ۔ مگر جو بات قرینِ قیاس ہے ،وہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اپوزیشن کے مقابلہ میں وسائل اور اختیارات بہت زیادہ ہو تے ہیں ۔ حکومت کے پاس کسی بھی ایم این اے یا ایم پی اے کو کچھ دینے کے لئے نقد اور فوری وسائل، اقتدار میں شراکت یا دیگر مقنا طیسی ذرائع موجود ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں اپوزیشن کے پاس صرف وعدے وعید ہو تے ہیں اور عموما لوگ آج کو کل پر ترجیح دیتے ہیں او’ر‘ نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ والی بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔حکومت اپنے اتحادی جماعتوں سے رابطے میں ہے اور عین ممکن ہے کہ ان کو مطمئن کر دیا جائے گا ۔لہذا اپوزیشن کے لئے حکومت کے کسی بھی اتحادی جماعت کو توڑنا آسان نہیں ہو گا ۔ جو باتیں اس وقت اتحادی جماعتوں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں وہ دراصل حکومت سے زیادہ سے زیادہ کچھ بٹورنے کے لئے حکمتِ عملی ثابت ہو سکتی ہے ۔ ق لیگ کو اشارہ ملتے ہی پینترہ بدل دے گی اور حکومت سے علیحدگی اختیار نہیں کرے گی ۔ چونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار ق لیگ پر ہی ہے لہذا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ممکن نہیں ۔ حکومت کے اراکین کے منحرف ہونے کی جو خبریں پھیلائی جا رہی ہیں ،یہ اپوزیشن کا ایک نفسیاتی حربہ ہے درحقیقت اس میں سچ کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اور اگر دوچار حکومت کے اراکین اپو زیشن کے پاس چلے بھی جائیں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اپوزیشن سے بھی بھی دوچار اراکین حکومت کے جھولی میں جا گریں گے ۔

مقتدر قوتیں کبھی نہیں چا ہیں گی کہ ایسے وقت پر موجودہ حکومت کو توڑا جائے جب کہ عام انتخابات میں صرف ایک سال ہی باقی رہ گیا ہے ۔روس یوکرین جنگ، افغانستان کی صورتِ حال ، امریکہ کی ناراضگی اور پوری عالمی صورتِ حال اس بات کا متقاضی ہے کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم رہیں ۔بوجوہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا چانس صرف پچیس فی صد ہے ۔ بے شک عمران خان کے دورِ حکومت میں مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں خوار و ذلیل ہو رہا ہے ۔مگر ان کو یہ بھی یقین ہے کہ سابقہ حکمرانوں کی طرح عمران خان کرپٹ نہیں ہے ، چور نہیں ہے ۔ جبکہ اپوزیشن میں شامل پارٹیوں اور ان کے راہنماؤں کے بارے میں عوام کی رائے مختلف ہے ۔یہی سوچ اسٹیبلیشمنٹ کی بھی ہے ۔ گویااگر ایک طرف عمران خان کی مہنگائی کو ترازو میں دالا جائے اور دوسری طرف عمران خان کی ایمانداری ،صاف گوئی اور راست گوئی کو پلڑے میں ڈالا جائے( کچھ باتیں ان کی قابلِ اعتراض ضرور ہیں ) تو ایمانداری اور نیک نیتی کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے جو ان کو اقتدار میں رہنے کاجواز فراہم کرتا ہے ۔ تمام صورتِ ھال کا جائزہ لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی ۔البتہ اگر مہنگائی کی رفتار برقرار رہی تو اگلے عام الیکشن میں شاید پی ٹی آئی کو اتنے ووٹ نہ مل سکیں کہ وہ حکومت بنانے کی پوزیش میں آجائے ۔

 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315599 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More