پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اقتدار کے دوراہے پر۰۰۰۰

پاکستان کی سیاست میں گرما گرمی دیکھی جارہی ہے۔ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد کے درمیان کون بازی لے جاتا ہے اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو کامیابی مل پاتی ہے یا وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں اہم کردار کس طرح ادا کرسکتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اتنا ضرور ہے کہ عمران خان کی حکومت اس وقت ڈگمگا رہی ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران عمران خان کو بلیک میل کرنے والے بھی ابھر کر سامنے آتے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں ملک کو جس راہ پر لے جانا چاہتے تھے اس میں انہیں بڑی حد تک کامیابی ملنے کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ حکومت کے اتحاد جماعتوں کے بعض قائدین بھی عمران خان کی حکومت کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’ہم ان پانچ برسوں میں جو کام کرکے دکھائیں گے ایسا کام پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں دو ایسی یونیورسٹیاں بنانے جارہے ہیں جن میں ٹکنالوجی کی تعلیم دی جاسکے گی، انہو ں نے مزید کہا کہ وہ ایرواسپیس ٹیکنالوجی کی ایک یونیورسٹی بنارہے ہیں تاکہ ہم اپنے جہاز بناسکیں ۔ وزیر اعظم نے گذشتہ اتوار 13؍ مارچ کو صوبہ پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم جب دیکھتے ہیں کہ ملک کے سب کرپٹ مجرم لوگ اکٹھے ہوکر حکومت گرانے کی بات کرتے ہیں، ارکانِ قومی اسمبلی کے ضمیر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں تو قوم اس کا مقابلہ کرتی ہے‘‘۔ انہو ں نے کہا کہ مغربی ممالک میں کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کسی رکن پارلیمنٹ کا پیسے کے عوض ضمیر خریدنے کی کوشش کرے۔ وزیر اعظم کو یقین ہے یا وہ خوش فہمی میں مبتلا ہیکہ وہ تحریک عدم اعتماد کو مات دے دینگے اور انکی حکومت مزید بقیہ مدت اقتدار پر براجمان رہے گی۔ عمران خان نے اس موقع پر مزید عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’میں نے 25سال سے قوم کو بتارہا ہوں کہ جب تک قوم برائی کے خلاف نہیں کھڑی ہوگی ، آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ اپنی قوم میں تبلغ کررہا ہوں کہ اگر ہمیں عظیم قوم بننا ہے تو ہم سب کو اچھائی کا ساتھ دینا ہوگا‘‘۔ اس طرح وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی حکومت اور وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کی حفاظت کی ذمہ داری قوم کے اوپر چھوڑ دی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ اگر پاکستان میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے اور عمران خان اس میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر دوبارہ انتخابات میں پاکستانی عوام ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کرپٹ سیاست دانوں کے بجائے اقتدار ایماندار وں کے ہاتھ دینگے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق کیونکہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو وہ حکومت تشکیل دینے کے بجائے انتخابات کرانے کے حق میں دکھائی دیتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو عوام پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ عمران خان نے پاکستانی عوام کو جھنجوڑتے کہاکہ’’ جو اپنی قوم کیلئے کھڑا ہوتا ہے مغرب اس کی عزت کرتا ہے، ہماری حالات یہ ہے کہ ہمارا وزیر اعظم امریکہ کے صدر کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے تو اس کا ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں اور اس کے ہاتھ میں پرچی ہوتی ہے کہ کہیں منہ سے کوئی ایسی چیز نہ نکل جائے جس سے امریکہ کا صدر ناراض ہوجائے‘‘۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سمجھا جارہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے یورپی یونین کے خلاف کہنے کی وجہ سے انکے خلاف اپوزیشن اتحاد نے تحریک عدم اعتماد جمع کروایا ہے اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سلسلہ میں عمران خان نے کہاکہ ’’ابھی یورپی یونین کے سفیروں نے خط لکھا تھاکہ ہماری حکومت کو روس کے خلاف بیان دینا چاہیے، یہ سفارتی آداب کے خلاف تھا ، میں نے انہیں کہاکہ کیا آپ نے ہندوستان کو ایسا خط لکھا؟، ہوسکتا ہیکہ یہی بات مغربی و یورپی ممالک کو ناگوار لگے اور اسی کے عمران خان شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ ویسے عمران خان نے اور ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ ’’ہمارے ملک میں 2008 سے 2018 تک چار سو سے زاید ڈرون حملے کیے گئے جس کی جنگ ہم لڑ رہے تھے۔ آصف زرداری اور نواز شریف نے اس کی ایک بار بھی مذمت نہیں کی۔‘انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو ہر ملک سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئے لیکن میں 22 کروڑ پاکستانیوں کا وزیراعظم ہوں، میری ذمہ داری ہے کہ میں پاکستان کے مفادات کی حفاظت کروں۔ میں ایسی خارجہ پالیسی بنانے کی اجازت نہیں دوں گا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔‘اس طرح ایسا محسوس ہوتا ہیکہ پاکستانی عوام کی سلامتی و ترقی اور ملک میں امن و آمان کی بحالی بنائے رکھنے کے لئے عمران خان نے روس اور یوکرین کے مسئلہ میں خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اور یہ ایک مومن کی پہچان ہے کہ وہ مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے عملی اقدامات کرے۔ عمران خان کی ایمانداری کے سلسلہ میں انکے اتحادی بھی جو فی الوقت انکے خلاف نظر آتے ہیں اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ عمران خان ایک ایماندار ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی اور عمران خان کی حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے سینئر رہنماچودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہیکہ ’’وزیر اعظم عمران خان ایماندار اور ان کی نیت بھی اچھی ہے‘‘۔یہ خبریں عام ہورہی تھیں کہ مسلم لیگ ق حکومتی اتحاد کے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دے سکتی ہے اس سلسلہ میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے ایک نجی پاکستانی ٹی وی کو دیئے انٹرویو کے دوران پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تذکرہ کئی بار آیا تو انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ان کی جماعت اس عہدے کی خواہشمند ہے۔ چہارشنبہ 16؍ مارچ کو پرویز الٰہی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ان کی جماعت حکومت چھوڑی ہے نہ ہی اپوزیشن جوائن کی ہے جبکہ حکومت کا حصہ ہیں ہر مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیا ہے‘‘۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ’’عوامی مسائل کی نشاندہی آج نہیں کی ، پہلے دن سے کررہے ہیں، اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے چلا جائے تو حکومت کا اپنا فائدہ ہے‘‘۔ انکے اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ق ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرپائی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں یا اپوزیشن کا اور ہوسکتا ہے کہ آخر وقت میں حکومت کا ساتھ دے کر عمران خان کو اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل کرنے کی راہیں فراہم کریں کیونکہ جس طرح انہوں نے عمران کی نیت نیتی اور ایمانداری کی تعریف کی ہے یہ عمران خان کی کیلئے کہیے جانے والے الفاظ سمجھے جاسکتے ہیں۔ البتہ حکومتی اتحاد بشمول مسلم لیگ ق پنجاب کی صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتے ہیں جبکہ عثمان بزدار ، وزیر اعظم عمران خان کے خاص اور نورِ نظر رہے ہیں ، عمران خان نے عثمان بزدار کو پنجاب وزارتِ اعلیٰ برقرار رکھے ہوئے ہیں لیکن اگر انکی کرسی خطرے میں پڑجائے تو ہوسکتا ہیکہ آخری وقت وزیراعظم کا فیصلہ بدل جائے لیکن ایسا ہوتا محسوس نہیں ہورہا ہے۔

عمران خان نے اسلام آباد ڈی چوک پر 27؍ مارچ کو دس لاکھ سے زائد لوگ جمع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عوام انکی حکومت کا فیصلہ کرینگی۔وزیر اعظم عمران خان نے چہارشنبہ 16؍ مارچ کو سوات میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 27؍ مارچ کو اسلام آباد میں انسانوں کے سمندر کو دعوت دی ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم نکلے اور اسلام میں پہنچ کر دنیا کو بتائے کہ ہم سچ کے ساتھ کھڑے ہیں، اچھائی کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم ان چوروں ، ڈاکوؤں، منافقوں اور امریکہ کے غلاموں کے خلاف کھڑے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے بھی عوام کو تیار رہنے کا عندیہ دے دیا ہے ، پی ڈی ایم کا 23؍ مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان ہوا جس کے بعد اسلام آباد میں صورتحال سنگین ہوتی نظر آرہی ہے۔ عمران خان کو سب سے پہلے اپنی حکومت کو بچانے کے لئے پارلیمنٹ میں 172اراکین کی تائید ضروری ہے جبکہ اتحادی جماعتوں کی تائید سے یہ تعداد 179ہے جو سابق میں عمران خان کی تائید کرچکی ہے لیکن حالات بدلتے نظر آرہے ہیں اتحادی جماعتو ں میں جہانگیر ترین گروپ بھی اہم حیثیت رکھتا ہے اس گروپ کے ترجمان صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال نے حال میں ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جب تک وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو عہدے سے ہٹایا نہیں جاتا ان کا گروپ حکومت سے بات چیت نہیں کرے گا۔ ویسے انہو ں نے اس سلسلہ مزید کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلے کا اختیار جہانگیر ترین کو دیا گیا ہے وہ جو فیصلہ کرینگے اس پر عمل کیا جائے گاجبکہ جہانگیر ترین ان دنوں علاج کے سلسلہ میں لندن میں مقیم ہیں اور ان کی طرف سے ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے خیبرپختونخوا میں پاکستانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔خیبر پختوانخوا میں پی اے پی کے صوبائی پارلیمانی قاد بلاول آفریدی نے اپنے ایک بیان میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر حکومت کا ساتھ نہیں دینگے ، اور جلد ہی قومی اسمبلی ، سینیٹ اور بلوچستان میں بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کردیں گے ۔

وزیر اعظم عمران خان نے اتحادیوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر کوئی پریشانی نہیں ، صورتحال اطمینان بخش ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان کے چاہنے والے انکی آواز پر ڈی چوک ، اسلام آباد پر جمع ہونے کے لئے کتنی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور اگر اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں تو یہ عمران خان کی مخالفت کرنے والوں میں ایک طمانچہ ہوگا اور حکومتی اتحاد میں شریک جماعتوں کے قائدین کو شرمندگی کا منہ دیکھنا ہوگا بلکہ انہیں اگر وہ عمران خان کے خلاف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں اپنے فیصلوں پر بدلنے مجبور ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اتنا بڑا مجموعہ ہوتا ہیکہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی اہم ہوجائے گا کیونکہ 23؍ مارچ کو اپوزیشن نے بھی عوام کو جمع ہونے کی اپیل کی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ڈی چوک، اسلام آباد میں عوامی اژدھام اور پارلیمنٹ میں 172سے زائد ووٹوں تعداد حاصل کرکے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوالینگے یا پھر اپوزیشن اتحاد اپنے مضبوط ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۰۰۰ آئندہ چند دن پاکستانی تاریخ کے اہم ترین دن ہے چاہے وہ عمران خان کے ہوں یا عثمان بزدار کے یا پھر عوامی منتخبہ نمائندوں یا عوام کے ۰۰۰
****
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 257333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.