تاریخ کے جھروکے
*ایمان قبول کرو یا جزیہ دو یا تلوار کا سامنا کرو*
*قیصر ِ روم کی فوج جب مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے "بیسان" ( روم کا ایک
مقام ) میں پڑی ہوئی تھی ، تو مسلمانوں سے اتنی خائف تھی کہ کسی قیمت پر ان
سے جنگ کرنا نہیں چاہتی تھی ۔
*اس کا سپہ سالار "باہان" کسی بھی طرح جنگ کو ٹالنا چاہتا تھا ، اس لئے
اپنے ایک بہت ذمہ دار کمانڈر کو اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ
جراح رضی اللہ عنہ سے مذاکرات کرنے کے لئے اسلامی فوج کے پڑاؤ میں "فحل" (
ایک مقام ) بھیجا ۔
*رومی سفیر کا مقصد مسلمانوں کو مال و دولت کا لالچ دے کر اپنے وطن واپس
کرنا تھا ۔
*اس نے حضرت ابوعبیدہ جراح رضی اللہ عنہ کو یہ پیشکش کی کہ :
*اگر مسلمان ان پر حملہ نہ کریں اور واپس چلے جائیں ، تو قیصر ِ روم کی طرف
سے فی سپاہی دو دینار دیے جائیں گے ، ایک ہزار دینار سپہ سالار کو دیں گے
اور دو ہزار دینار آپ کے خلیفہ کو مدینہ بھیج دیئے جائیں گے ، اگر آپ اس کے
لئے تیار نہیں ہیں ، تو جنگ میں آپ کے لوگ مارے جائیں گے اور اتنی بڑی مالی
رعایت بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔
*حضرت ابوعبیدہ جراح رضی اللہ عنہ نے بڑی سنجیدگی سے رومی کمانڈر کی بات
سنی ، پھر انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا :
*آپ لوگ شاید ہم کو اتنا ذلیل اور کم مایہ ( گرا ہوا ) سمجھتے ہیں کہ ہم
دولت کی خاطر آپ کے ملک میں آئے ہیں ۔
*میں آپ کو صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہاں آنے کا مقصد ملک و
مال نہیں ہے ، نہ ہمیں ملک سے رغبت ہے ، نہ مال کا لالچ ، آپ دو دینار کی
بات کرتے ہیں ، آپ کے دو لاکھ دینار بھی ہمارے سپاہی کی نظر میں دھول کے
برابر ہیں ، ہم تو صرف کلمۃ الحق کا اعلان کرنے نکلے ہیں ، توحید کا پیغام
لے کر آپ کے ملک میں آئے ہیں ، یا تو آپ ایمان قبول کر کے ہمارے بھائی بن
جائیں ، یا ہماری اطاعت قبول کرکے ہمیں جزیہ دیں ، نہیں تو جس خون خرابے سے
تم ہمیں ڈراتے ہو ، اس سے ڈرنے والے ہم نہیں ہیں ، ہماری تلوار میدان میں
یہ فیصلہ کر دے گی کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر اور اللہ یہ بتادے گا
کہ کون ذلیل اور کم مایہ ہے ، تم یا ہم ؟
|