گدھ جسے انگلش میں Vulture کہتے ہیں ایک مردار خور پرندا
ہے۔ یہ بلند پرواز کرتا ہے ۔ گدھ کے پنکھ جسے عرفِ عام میں پر کہتے ہیں بڑے
ہوتے ہیں جن سے اسے اونچا اڑنے میں مدد ملتی ہے۔ جسمانی خدوخال میں اس کی
مشاہہت شاہین سے ہے ۔ بلندی پر پرواز کرتے ہوٸے ان دونوں میں فرق جاننا
قدرے مشکل ہے ۔ مردار خور گدھ کے سر کے کسی قدر نیچے کی جانب دونوں طرف
آنکھیں ہوتی ہیں جو دو الگ طرف دیکھنے میں مدد دیتی ہیں ۔ اس میں سونگھنے
کی صلاحیؓت بہت تیز ہوتی ہے۔ گدھ مردار کے علاوہ شکار بھی کرتا ہے۔ مگر یہ
کبھی بھی صحت مند جانور پر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ بیمار یا لاغر جانور کو
ہی اپنا شکار بناتا ہے ۔ گدھ جھنڈ کی شکل میں خوراک کھاتے ہیں۔ جہاں مردار
دیکھاٸی دے تب گدھ کا جھنڈ وہاں اتر پڑتا ہے۔
افسوس کہ ابلیس مرود اپنی شیطانی چالوں سے انسان کو حرام خوری کی رغبت دیتا
ہے اور یہ حرام رزق انسان میں گدھ نما سبھاٶ پیدا کر دیتا ہے۔ گدھ کی فطرت
رکھنے والے لوگ مردار اور لاغر شکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک
میں ہر طرح کے وساٸل کا فقدان ہوتا ہے۔ عوام خوراق ، صحت اور تعلیمی
پسماندگی کا شکار ہوتی ہے۔ اس لئے انسانی گدھوں کا بیمار اور لاغر شکار
بنتی ۔ مگر گدھ کی خوراک کا بیشتر حصہ مردار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا
انسانوں میں مردار پائے جاتے ہیں ؟ مردار کے لفظی معانی ٰ بے جان شہ کے ہیں
اب چاہے وہ بے جان جسم ہو یا پتھردل، مردہ ضمیر ہو یا بےنور روح ہو۔ چلیں
آج ہم ان چاروں صورتوں کا تفصیلاً جائزہ لیتے ہیں ۔
جسم صرف موت کے بعد غیرمتحرک نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ جسم جو کام کرنے کی
صلاحیت ہونے کے باوجود کام نہ کرے تو وہ ساکت ہوتا ہے اورجیسا کہ اقبال نے
فرمایا
اس راہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
گویا سکون موت کا دوسرا نام ہے اور یہ ساکن جسم مردہ ہی ہوتے ہیں ۔ ہمارے
ہاں یہ قسم حکومتی محکموں میں کثرت سے پائی جاتی ۔ بلکہ اگر ہم ان کی تعداد
کو Whole number میں approximate کریں تو حاصل کردہ تعداد سو فیصد ہی ہوگی
۔ دوسری مردار کی قسم وہ ہے جس میں دل پتھر ہو جاتا ہے اور پتھر سائنس کی
روح سے غیرجاندار میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ وہ انسان ہوتے ہیں جو اقبال کےِ
فلسفہ خودی میں” خودی“ سے مراد” خود“ لیتے ہیں اور صرف اپنی ذات سے محبت
کرتے ہیں ۔ ان کو ہر وہ فیصہ غلط اور نا مناسب لگتا ہے جو ان کے ذاتی
مفادات کے حق میں نہ ہو اور اسی طرح ہر وہ عمل موزوں ہوتا ہے جو ان کو
فائدہ پہنچائے خاہ وہ ان کے اپنے عزیز کی ہلاکت کا باعث کیوں نہ بنے ۔ یہ
لوگ اپنے سے کم حںثیت کے لوگوں کو کمتر انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے دل کبھی
کسی اور کی تکلیف کے لئے نہیں تڑپتے اور تڑپیں بھی کیسے جبکہ وہ مردہ ہوچکے
ہیں۔ اپنے ملک میں آپ کے لٸے ان لوگوں کو پہچاننا کوٸی دشوار نہیں۔ ان میں
سے اکثریت ملک کے اہم institutions میں فاٸض ہوتی ہے اور خود کو ملک کی
elite نسل سمجھتی ہے ۔
مردار کی تیسری قسم اپنے نام سے کافی حد تک واضع ہو جاتی ہے ۔ یہ وہ لوگ
ہیں جن کے ضمیر ابدی نیند سو چکے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ دولت کی خاطر اپنے وجود
کی جسمانی اور روحانی ہر شہ بازار میں بیچ دیتے ہیں ۔ ان کے سامانِ فروخت
کا دائرہ وقت کے ساتھ وسیع تر ہوتا جاتا ہے اور بالآخر ماں جیسی ہستی بھی
اس میں سما جاتی ہے ، اب چاہے وہ جنم دینے والی ماں ہو یا دھرتی ماں یہ کسی
کا بھی سودا کرنے سےنہیں ہچکچاتے ۔ یہ مردار ہر طبقہ اور نسل میں ہوتے ہیں۔
مردار کی چوتھی اور آخری قسم وہ لوگ ہوتے ہیں جو مذہب کا لباس زیب تن کر کے
دنیا حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی روح زندہ ہوتے ہوئے بھی قبر کی تاریکی کی طرح
بے نور ہو جاتی ہے ۔ یہ لوگ مزاروں پر، آستانوں میں، مدارس میں اور مسجدوں
میں پائے جاتے ہیں ۔ کبھی مجور کی صورت میں خرچہ پانی حاصل کرتے ہیں تو
کبھی گدی نشین کے مرتبے پر بیٹھ کر دولت اکٹھی کرتے ہیں ۔ مساجد میں چندے
کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے ہیں ۔ مدارس میں بچوں کو اپنے ناپاک مقاصد کے
لئے استعمال کرتے ہیں ۔ بلکہ دیکھا جاٸے تو یہ ہر دوسرے گھر میں نظر أتے
ہیں ۔ میلادالنبی کی محفلیں سجا کر رتجگا کرتے ہیں چاہے اہل محلہ کو کس قدر
تکلیف پہنچے ۔ رمضان میں سو گنا منافع کما کر آخری اشرہ حرم شریف میں
گزارتے ہیں ۔یہ اس حد تک خطرنک ہوتے ہیں کہ کسی کی بھی مذہب کے نام پر جان
لے لیتے ہیں ۔ خود تو نبی پاک ﷺ کی پیروی نہیں کرتے مگر ناموسِ رسالت کے
نام پر ہجوم کی صورت میں کسی پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔افسوس کے ہمارے
ملک میں مردار کی یہ قسم سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔
ان چار اقسام کے علاوہ ایک نئی قسم بھی اس فہرست شامل ہوئی ہے ۔ یہ برہنہ
لاشوں کی مانند ہیں چونکہ ان لوگوں نے مذہب کو پھٹا پرانا لباس سمجھ کر
مکمل طور پر اتار پھینکا ہے ۔ دورِ جدید میں یہ خود کو liberals کے نام سے
پکارتے ہیں ۔ ہر غیر مذہب کے تہوار اور خصوصاً ویمن ڈے پر یہ بڑے بڑے بینرز
اٹھائے عام شاہراہوں پر نظر آتے ہیں، علاوہ ازیں یہ عام انسان کی نگاہ سے
اوجھل رہتے ہیں ۔ اپنے جسم پہ اپنی مرضی کے داویدار ہوتے ہوٸے بھی جسم مغرب
کے اشاروں پر تھرکتا ہے. ان کی تعداد ابھی کافی کم ہے اسلٸے میں نے انہیں
چار major categories میں شامل نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ یہ
معدوم ہو جاٸیں یا پھر اضافہ کے ساتھ یہ بھی کثیرالتعداد ہو جاٸیں۔ خیر یہ
تو آنے والا وقت ہی بتٸے گا۔
تو جناب یلساٸنسی اصول کے مطابق جس جگہ مردار اتنی وافر مقدار میں پایا
جاتا ہو وہاں مردار خور نسل کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے ۔ بلکہ دور دراز
کے علاقوں سے بھی گدھ وہاں پہنچ جاتےہیں اور مردار کو نوچ کھاتے ہیں ۔ پس
آج ہم باحیثیت ایک مردہ قوم اندرونی اور بیرونی گدھوں کا شکار ہیں ۔ اب
سوچیں کہ کیا ہمارا اپنے رب سے شکوہ بنتا ہے کہ یہ گدھ نما سیاست دان اور
بیرونی گدھیں ہمیں کیوں نوچ کھاتی ہیں۔ مگر سوال اب یہ بھی ہے کہ ہماری
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زندہ ہے بھی کہ نہیں ؟ |