انڈریو بیرنگ بریوک بلا شبہ ایک
عالمی اسلام مخالف فکر اور تحریک کا حصہ ہے اسی لئے وہ خودتوبائیں بازو
کاانتہا پسند عیسائی ہے اس کے باوجوداسرائیل کےیہودی انتہا پسندوں کو اپنا
عم زاد بھائی قرار دیتا ہے اور بھارت کے ہندو قوم پرستوں کا بہت بڑا مداح
ہے۔بھارت سے عقیدت کا اظہار اس کے اپنے ’منشور‘ میں ۱۰۲ مقامات پر کیا گیا
ہے۔اس کےمطابق ’ہندو قوم پرست دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کا تختہ پلٹنے
میں اس کےاہم اتحادی ہیں اوروہ بھارت سے مسلمانوں کو نکالنے میں ان کی مدد
کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔پندرہ سو صفحات کے اس منشور میں بریوک نے اپنے عزائم
کو بیان کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ کس طرح وہ ’تہذیبی مارکسی نظام‘ (جس میں
مختلف نسلوں کے لوگ بغیر کسی فرق کے مل کر رہیں، یا ملٹی کلچرل ازم) کو ختم
کرنے کے لیے وہ ایک مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہےاور اپنے مقصد کو حاصل
کرنے کی خاطراس مہم کی ابتدا دہشت گردی کی کاروائیوں سے کرکے اسے ایک ایسی
عالمی جنگ میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے جس میں وسیع پیمانے پر تباہی کے
ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جائے۔سنگھ پریوار سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے بریوک لکھتا ہے‘ہندو قوم پرستوں کو انڈین کلچرل مارکسوادیوں کی جانب
سے اسی طرح کی زیادتیوں کا سامنا ہے جیسا ان کے یورپین بھائیوں کو
ہےاوربھارت میں کانگریس کی قیادت کرنے والی یو پی اے حکومت ہر قیمت پر
مسلمانوں کی خوش آمد میں مصروف ہے’ ہندو دہشت گردوں کی جانب سےمسلمانوں پر
کئے جانے والے مظالم کو بھی بریوک حق بجانب قرار دیتا ہے اور ان کے بھرپور
تعریف وتائید کرتا ہےمگراس حکمت عملی کو فائدے کی بجائے نقصان دہ بتلاتا
ہے۔دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ بی جے پی سابق ایم پی، بی پی سنگھل یہی بات بریوک
کے بارے میں کہتے ہیں ان کے مطابق بریوک کا مؤقف حق بجانب ہے لیکن اس کا
طریقہ کار غلط ہے جس سےفائدے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔
بیرنگ بریوک سرزمین ہند پر پائے جانے والے اپنے ہمنوا بجرنگیوں کو مشورہ
دیتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملے کرنے کے بجائے بھارت میں غداروں کو نشانہ
بنائیں اور عسکری سیل منظم کریں تاکہ کلچرل مارکسی حکومت کا تختہ پلٹا
جاسکے۔ بریوک کے الفاظ میں ‘‘ہمیں ایک دوسرے سے (بریوک کی تنظیم اور ہندو
قوم پرست) تعاون کرنا چاہیے اور سیکھنا چاہیےکیونکہ ہمارے مقاصد ایک جیسے
ہیں’’۔ویسے بریوک کےاس زرّین مشورے کےقبل ہی کرنل پروہت جیسے لوگوں نے
سناتن پربھات اور اکھنڈ بھارت جیسی عسکری تنظیموں کے تحت مالیگاؤں،
اجمیر،حیدرآباد اور نہ جانے کہاں کہاں اپنی دہشت گردی کا آغاز کر دیا ہے
لیکن ان کی توجہ مارکسوادیوں کے بجائے مسلمانوں کی جانب ہے ۔بریوک کے منشور
میں جہاں ایک طرف سنگھ پریوار کی ویب سائٹس کی لنک موجود ہیں وہیں سنگھی
دانشوروں کی کتابوں کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس نے اپنی تنظیم کا نشان
ِامتیاز ہندوستان کے شہر بنارس سے بنوایا لیکن ایسا اسلئے نہیں کیا گیا کہ
بنارس ہندوؤں کا مقدس شہر ہے بلکہ روپیہ بچانے کی یہ ایک حکمت عملی تھی
چونکہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا سارا زور تارکین وطن کی یوروپ میں
آمد کے خلاف ہے اس لئے وہ اپنے ہمنوا ہندو انتہا پسندوں کو بھی اس معاملے
کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے کا روادار نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر احسان کرنا
چاہتا ہے کہ انقلاب کے بعد بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کے غیر مسلم
باشندوں پر مشتمل ایک سروینٹ کلاس (نوکروں کا طبقہ) بنایا جائے گااور یہ
لوگ یورپ میں اپنے قیام کے دوران دن میں بارہ گھنٹے کام کریں ، وہ ہر بڑے
شہر کے باہر الگ آبادیوں میں رہیں گےاور ان کے کانٹریکٹ کی مدت چھ سے بارہ
مہینے ہوگی جس کے بعد انہیں ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔بریوک کے ذہن
میں یہ گھناؤنے خیالات یقیناً منو سمرتی کا مطالعہ کرنے کے بعد آئے ہوں
گے۔ اس خواب کا بہترین پہلو یہ ہیکہ بریوک کی اس رسوائی کا شکار مسلمان
نہیں ہو ں گے اس لئے کہ وہ وہاں کارخ ہی نہ کریں گے نیز ہزاروں سال تک
شودروں کو اپنے آگے جھکانے والے براہمن ضرور اس ذلت کے آگے ماتھا ٹیک دیں
گے ۔
مثل مشہور ہے کندہم جنس با ہم جنس پرواز اس لحاظ سے یہ کیسے ممکن ہے کہ
کوئی دہشت گرد ہنود کا مداح ہو اور اسکے یہود سے تعلقات نہ ہوں ؟ بریوک کا
بھی یہی معاملہ ہے اس کا نہ صرف اسرائیل میں بی جے پی کی ہم پلہ یسرائیل
بئٹینونامہ جماعت سےبلکہ اسرائیل کے بددماغ وزیر خارجہ اویگور لئیبرمن سے
بھی گہرےمراسم ہیں ۔امریکہ میں موجود صہیونی دانشور مثلاً دانیال پائپس،
رابرٹ سپانسر اور پامیلا گیلر جسکی زندگی کا واحد مقصد مساجد کی مخالفت
ہےسے بھی وہ لگاؤ رکھتااور فیض حاصل کرتا ہے۔اس نے اپنی حکومت کو مشورہ
دیا تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جبکہ فلسطینیوں کو دی جانے والی احمقانہ
حمایت کو بند کر دیا جائےاور اپنے تہذیبی عم زادبھائی اسرائیل کی حمایت کی
جائے ۔بریوک کی اس دھمکی سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ ناروے ایک غیر
جانبدار اور پر امن ملک ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ ناروے ناٹو کا رکن ہے
اور امریکی سامراجیت کا ہمنوا ہے ۔ فی الحال افغانستان اور لیبیا میں
امریکہ کے شانہ بشانہ بر سرِ جنگ ہے۔تمام ہی یوروپی ملکوں کی طرح ناروے میں
بھی انتہا پسند بائیں بازو کی قدامت پرست جماعتیں پائی جاتی ہیں ۔ ناروے کے
دارالخلافہ کو امریکہ نے فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی قبضہ کا جواز فراہم
کرنے والی مہم میں استعمال کیا تھا جو آگے چل کر اوسلو امن معاہدہ کی شکل
اختیار کرگئی ۔
یوروپ کے اندر جدید قدامت پرستی کی آغاز برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم
مارگریٹ تھیچر نے ۱۹۷۸ میں کیا انہوں نے ببانگ ِ دہل اس اندیشے کا شکار کیا
کہ برطانیہ مختلف تہزیبوں کے حامل افراد کے بہاؤ میں بہہ جائیگااور اس سے
بڑھکر ۱۹۸۹ میں تھیچر نے یہاں تک کہہ دیا کہ انسانی حقوق کا آغاز انقلابِ
فرانس سے نہیں ہوا بلکہ اس کی حقیقی جڑیں یہودیت اور مسیحیت کے مرکب ہونے
میں پائی جاتی ہیں ۔یوروپ اور امریکہ میں بائیں بازو کی دہشت گردی کوئی نئی
اور اجنبی شۂ نہیں ہے۔تیس سال قبل ۱۹۸۰میں اس طرح کی ایک لہر نے یوروپ کو
اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ماہِ اگست میں بولوگنا ریلوے اسٹیشن کے بم
دھماکے میں ۸۴ افراد ہلاک اور ۱۸۹ زخمی ہوئے تھے ۔ایک مہینے بعد میونخ میں
ہونے والا دھماکہ ۱۱ لوگوں کی موت کا سبب بنا اوراکتوبر کے اندرپیرس کے ایک
یہودی عبادتگاہ کے باہر ہونے والے دھماکے میں ۴ لوگوں نے اپنی جان گنوائی ۔امریکہ
کے اوکلاہامہ شہر میں ۱۹۹۵ کے اندر ٹموتھی مک ویگ نے برویک کی طرح کھاد سے
بم تیار کیا اور حکومت کی عمارت کو بم سے اڑا دیا جس میں ۱۶۸لوگ ہلاک ہوئے
لیکن اسی کے ساتھ یوروپ میں فسطائی سیاسی رحجانات کی حامل سیاسی جماعتوں نے
بھی اپنا رسوخ بڑھایا ۱۹۹۰ میں جورگ حیدر کی لبرل پارٹی نے آسٹریا کے
انتخابات میں ۲۲ فی صدووٹ حاصل کئے اوراسی زمانے میں ناروے کے اندر کارل
ایگار کی پروگریس پارٹی سب سے بڑی حزب اختلاف بن کر ابھری ناروے کی اس
انتہا پسند جماعت نے ۲۰۰۹ میں پھر ایک بار۲۳ فیصد ووٹ حاصل کئے اور سب سے
بڑی حزب اختلاف بن کر ابھری ۔گیانو فرانکو فینی کے قومی محاذ۱۵کو اٹلی میں
فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔بیلجیم کے اندر ولام کے محاذ کو۳ء۱۲ فی صد حاصل
ہوئےاور فرانس کے اندر حزب اقتدار جماعت کو پانچ ریاستوں میں قومی محاذ کے
ساتھ مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔سویڈن میں گزشتہ سال مالمو کے
ایک شخص کو ۱۲ افراد کے قتل میں گرفتار کیا گیا اور پہلی بار بائیں بازو کی
انتہا پسند جماعت ۴ء۵ فیصد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں پہنچی ۔ ڈنمارک
جہاں اہانت رسول کے کارٹون بنائے جاتے رہے دائیں بازو کی ڈانش پیوپلس پارٹی
کو ۱۷۸ میں سے ۲۵ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ نیدرلینڈ کا گیرٹ ویلڈر جو
قرآن مجید کو ہٹلر کی کتاب مین کامف کا ہم پلہ قرار دیتا ہے نے۵ء۱۵فیصد
ووٹ حاصل کئے اور یہ دونوں جماعتیں باہر سے اقلیتی حکومت کی حمایت کر کے
اپنا رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔اسی طرح کی کامیابی بی جے پی کو بابری مسجد
کی شہادت کے بعد ہونے والے انتخابات میں حاصل ہوئی تھی اور یہی کچھ مودی کے
ساتھ گجرات میں ہوا گویا اس طرح کے تشدد نے ہمیشہ ہی بائیں بازو کو انتخابی
فائدہ پہنچایا ہےلیکن اس کے باوجودوشواہندو پریشد کے بی ایل شرما اور اکھنڈ
بھارت کے کرنل پروہت جیسے لوگ دہشت گردی پر اتر آتے ہیں انہیں میں سے ایک
بریوک بھی ہے۔
عوام کے اندر انتہا پسندرحجانات کا فروغ دیگررہنماؤں کو بھی اسکی تائید
کیلئے مجبور کررہا ہے مثلاً گزشتہ سال جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل نے
اعلان کیا کہ کثیر ثقافتی نظام ناکام ہو چکا ہے۔برطانوی صدر نے اعلان کیا
کہ کثیر ثقافتی نظام نے مختلف تہذیبوں کے حامل افراد میں علٰحیدگی
پسندطرززندگی کو فروغ دیا ہے ۔نکولس سرکوزی نے تو صاف فرمادیا کہ کثیر
ثقافتی نظام ناکام ہو گیا اس لئے کہ ہماری جمہوریت نےتارکین وطن کے تشخص پر
مقامی لوگوں سے زیادہ توجہ دی یہ وہی لہجہ ہے جو ممبئی کی سڑکوں پر راج
ٹھاکرے کے اندر دکھلائی دیتا ہے ۔ سرکوزی نے انتہا پسندوں کو خوش کرنے
کیلئے پہلے تعلیم گاہوں میں اسکارف پر پابندی لگائی پھر برقعے کو نشانہ
بنایا اس کے باوجود فی الحال اسے مارین لی پین نامی انتہا پسند رہنماسے
صدارتی انتخاب میں مقابلہ کرنا ہے جو مسلمانوں کے سڑکوں پر نماز پڑھنے
کوہٹلر کی جارحیت سے مماثل سمجھتی ہے یہی مسئلہ کسی زمانے میں شیوسینا نے
ممبئی میں اپنی مقبولیت میں اضافے کی خاطر اٹھایا تھا ۔بریوک جمہوری ذرائع
کے بجائےاپنی تحریک نائٹ ٹمپلر کی مدد سے فوجی انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر
قابض ہونے کا خواہشمند ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی کی خاطر ۴۵۰۰۰ ہزار
مارکسیوں کی ہلاکت اور دس ہلاک کے زخمی ہونے کی توقع کرتا ہے ۔ وہ۸۰۰۰ ہزار
افراد سے رابطہ قائم کر رکھا ہے اور اپنی جان یہودی و مسیحی تہذیب کی بقاء
کیلئے قربان کر دینا چاہتا ہے ۔
انرش بیرنگ بریوک نے جو کہا سوکیا۔اس نے اپنے منشور کی تشہیر کیلئے ۹۳
معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی اور اپنے گھناؤنے مقصد میں کامیاب رہا اس
لئے کہ اگر وہ کوئی پر امن ذریعہ اختیار کرتا تو اس قدر جلد ایسی زبردست
مقبولیت نہیں حاصل کر پاتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مقصد میں
کامیابی کیلئے معصوم لوگوں کی جانوں سے اس طرح کھیلا جاسکتا ہے ؟مغربی دہشت
گردوں کیلئے اس سوال کا جواب مثبت ہے اس لئے کہ وہ انسانیت سے خالی وحشی
درندے ہوتے ہیں۔ بریوک کی ذاتی ڈائری اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ۸۲وہ دنوں تک
اپنے منصوبے پر کام کرتا رہا ۔ ۴۱ روز قبل جب وہ وسط میں پہونچا تو نہایت
دلچسپ الفاظ اس نے صفحہ قرطاس پر ثبت کئے وہ لکھتا ہے ۔‘‘آج بڑے دنوں کے
بعد میں نے پہلی بار عبادت کی ، میں نے خدا کو سمجھایااگر وہ نہیں چاہتا کہ
مارکسی و اسلامی محاذیوروپ پر قابض ہو جائے تو اسے چاہئے کہ یوروپی عیسائیت
کا تحفظ کرنے والے جنگجوؤں کی کامیابی کو یقینی بنائے’’اپنی اس جرأت
رندانہ کے بعد آخری دن وہ کچھ یوں رقمطراز ہے ۔‘‘۲۰ دھماکوں کا بارود میرے
پاس ہے مجھے اپنے طے شدہ مقامات پر دھماکوں کے سلسلے کی ابتدا کرنی ہے۔اگر
سب کچھ ناکام ہوگیا تو میں دوبارہ نجی تحفظ کے ادارے میں ملازمت اختیار
کروں گا تاکہ کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ کما کر قرض ادا کر سکوں ۔مجھے
یقین ہے کہ یہ میرا آخری اندراج ہے اس لئے کہ رات کے ۱۵ء۱۲ ہوچکے ہیں ۔
آئندہ بہار میں پولیس افسر کا نیالباس جب میں زیب تن کروں گا تو کیا خوب
لگوں گا۔اس کے بعد حاشئے میں لکھتا ہے تصور کریں کہ اگر کل انتا میہ کا
عملہ میرے پاس آئےاور اس غلط خیال کے ساتھ کہ میں دہشت گرد ہوں۔گویا اسے
یقین ہے کہ دوسروں کی نظر میں تو وہ دہشت گرد ہے لیکن خود اپنی نظر میں
نہیں ۔آخری سطر اس طرح ہے نیک تمناؤں کے ساتھ انڈریوبریوک ۔جسٹیشئر نائٹ
کمانڈر۔نائٹس ٹمپلر یوروپ۔
اس ڈائری کو پڑھنے کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے آخر اس انتہا پسندی
کا محرک کیا ہے ،وہ کون سی چیز ہے جو بریوک جیسے نوجوانوں کیلئے دہشت گردی
کو مرغوب بناتی ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب اللہ کی کتاب قرآن ِ مجید کچھ
اس طرح دیتا ہے کہ ‘‘اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا راز دار نہ بنانا
یہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے- یہ صرف تمہاری مشقت و
مصیبت کے خواہش مند ہیں- ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں
چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے. ہم نے تمہارے لئے نشانیوں کو واضح کرکے
بیان کردیا ہے اگر تم صاحبانِ عقل ہو (آل عمران ۱۱۸) |