اقتدار کی مچھلی

مچھلی بھلا پانی کے بغیر کب تک زندہ رہ سکتی ہے؟اورایم کیوایم کی مچھلی تو اقتدار کے سمندر کے سوا کسی پانی کو پسند ہی نہیں کرتی، دریاؤں پر تو اس کی نظر جاتی ہی نہیں، کینچھر جھیل کا ٹھنڈامیٹھا پانی بھی اسے راس نہیں آتا ، اقتدار کے سمندر کا نمکین پانی اس کے لئے آب ِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ سمندر کے کنارے رہتے رہتے وہ اس کے ایسے عادی ہوئے ہیں کہ اب ”بحرِ اقتدار “ ہی ان کی زندگی ہے۔

سیاست کے کھیل کا اب یہ اصول سب اصولوں پر حاوی ہوچکا ہے کہ اس کھیل کا کوئی اصول نہیں ہوتا، جو چاہیں من مرضی کریں،جب چاہیں جس سے اتحاد کریں، جس وقت چاہیں اسے ختم کردیں، جب چاہیں اقتدار کو خیر باد کہہ دیں ، جب موڈ ہو واپس آجائیں،جب دل کرے اتحادی ہوتے ہوئے بھی واک آؤٹ کرجائیں،دل میں آئے تو ساتھ دینے سے انکار کردیں۔وہ زمانہ لد گیا جب اصولوں کی سیاست ہوتی تھی، ہر کسی کے کچھ نظریات تھے، سوچ بچار کے بعد فیصلے ہوتے تھے ، جو جہاں کھڑاہے کھڑا رہتا تھا،انفرادی طور پر پینترابدلنے والے کو ”لوٹا “ کہاجاتا تھا اور معاشرے میں اس کی پوزیشن خراب ہوتی تھی،اب لوٹوں کی بھی اس قدر بہتات ہے کہ کسی کو اپنے کئے پر شرمساری نہیں ہوتی، اور اب انفرادی کے ساتھ پور ی پارٹی ہی ”لوٹی “ بن جاتی ہے ، اور کچھ دنوں بعد دوبارہ لوٹ آتی ہے تو کسی کو پریشانی نہیں ہوتی۔وہ جمود کا دور تھا اب حرکت کا زمانہ ہے۔

ایم کیوایم کے بارے میں اب بھی اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ نظریاتی یا ایک سنجیدہ سیاسی پارٹی ہے تو خام خیالی ہے، یہ الگ بات ہے کہ لسانی بنیادوں پر یا پھراکثریتی دھونس کی بنا پر الیکشن میں کامیاب ہوجانا اس کا مقدر ہوا۔لیکن حیران کن حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم ہر مقتدر طبقے کے ساتھ رہتی ہے، وہ چاہے مشرف ہو ، یا ن لیگ اور خواہ پی پی حکومت۔ان حکومتوں سے سخت نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ اتحاد کی کہانی سمجھ سے بالاتر معلوم ہوتی ہے، مگر مفادات کی سیاست کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی بات اجنبی محسوس نہیں ہوتی،اس نوعیت کی سیاست میں ہر کسی سے اتحاد ممکن ہوتا ہے۔

ایم کیوایم کی قیادت اول تو حکومت میں رہتی ہے، اگر حکومت سے باہر ہوتی ہے تو ملک سے بھی باہر چلی جاتی ہے، ایم کیو ایم کی سیاست عجائبات کا ایک گہراغار ہے،سالہا سال پہلے انہوں نے اپوزیشن کی سیاست کا ذائقہ چکھاتھا، اس تلخ تجربے کے بعد مخالفت کی سیاست سے تائب ہوگئے۔ اب اقتدار کے اندر بیٹھ کر مخالفت کرتے اور اپنا وزن بڑھاتے ہیں۔ کیا یہ عجوبہ نہیں کہ فوج کی حکمرانی کے خلاف بھی ہیں، عملی میدان میں اس کے دست وبازو بھی،جاگیر داروں کے خلاف بھڑکیں اورتقریریں کرتے اور ایوانوں میں ان کا ساتھ دیتے ہیں؟اور یہ کیا کم عجوبہ ہے کہ برس ہابرس سے اقتدار کی عیاشیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں، سندھ کا گورنر پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین دورانئے کا حامل ہے، لیکن ’قیادت‘ پاکستان نہیں آتی، ٹیلی فونک خطابات سے ہی کام چلایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ گورنر نے بھی دباؤ بڑھانے کے لئے استعفیٰ دیا اور باہر چلے گئے ، اگر ایم کیوایم کی حکومت میں دوبارہ واپسی نہ ہوتی ، تو عشرت العباد باقی زندگی لندن کے کسی عشرت کدے میں ہی گزارتے۔

ایم کیو ایم کے اس فیصلے کے ”خطرات “ موجود تھے، کیونکہ اب بچہ بچہ جان چکا ہے کہ یہ مچھلی اقتدار کے پانی سے باہر نہیں رہ سکتی،لیکن مقامِ حیرت ہے کہ میاں نواز شریف کو اس حقیقت کا ادراک نہ جانے کیوں نہیں ہوا؟ویسے بھی میاں صاحب نہ پی پی کے فطری اتحادی ہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کے ، مگر پی پی کی دشمنی میں انہوں نے ایم کیوایم کی حکومت سے ناراضگی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، میاں صاحب نہ جانے کس قسم کے مومن ہیں جو اس قسم کے سوراخوں سے بار بار ڈسے جاتے ہیں، یا یہ تصور کرلیا جائے کہ یہاں ہر سیاسی جماعت کا ایک ہی اصول ہے ، کہ اقتدار کا حصول اور بے اصولی کادامن پوری قوت سے تھامے رکھو۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472700 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.