ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو کا کھیل

پنجاب کے انتخاب میں کانگریس ہیرو سے زیرو ہوگئی اور عام آدمی پارٹی صفر سے سپر اسٹار بن گئی لیکن ایسا اتر پردیش میں بھی ہوا۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا ۔ وہ پہلے بھی ہیرو تھے اور اب بھی ہیرو ہیں ۔ مایاوتی کا بھی وہی حال ہے وہ پہلے سے زیرو تھیں اوراب بھی زیرو ہی ہیں اس لیے ان دونوں بات نہیں کریں گے ۔ اس رام ملائی جوڑی کے برعکس انتظامیہ اورگودی میڈیا نے اعظم خان کو زیرو بنانے کی خاطر آسمان زمین ایک کردیا مگر وہ جیل سے الیکشن لڑنے کے باوجود ہیرو بن گئے اور سریش رانا جیسے صوبائی وزیر کو اشرف علی خان نامی گمنام امیدوار نے زیرو بنادیا ۔ ان نتائج نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی زبان سے بے ساختہ نکلنے والی اسی ّ اور بیس والی سچائی کی تصدیق کردی۔ اپنے آپ کو دبنگ سمجھنے والے یوگی مہاراج اپنے اس موقف پر قائم نہیں رہ سکے اور اسے سنبھالتے سنبھالتے ان کو پسینہ چھوٹ گیا۔

پہلے جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو بابا جی بولے اس سے مراد ہندو مسلمان نہیں تھا بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت صوبے کے اسیّ فیصد لوگ تھے ان کے ساتھ ہیں اور بیس فیصد عوام تو مخالف ہوتے ہی ہیں ۔ یوگی جی کو کم ازکم اپنے بھگوا لباس کا خیال کرکے ایسی پاکھنڈی توضیح نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن جب کسی یوگی کو ستاّ کا موہ(اقتدار کی لالچ) لگ جاتی ہے تو اپنے دھرم کو بدنام کرنے لگتا ہے۔ ویسے انتخابی نتائج نےبتا دیا کہ وہ جسے 80فیصد سمجھ رہے تھے وہ تو صرف 30 فیصد تھا۔ آخری وقت میں اگربی ایس پی کے دس فیصد ہاتھی نہ آتےتو فی الحال یوگی جی گورکھناتھ مٹھ کا گھنٹا بجا رہے ہوتے۔ اس سوال نے یوگی جی کا خوب پیچھا کیا۔ انتخاب کے آخری مرحلے میں جب اس کے ساتھ پوچھا گیا کہ مسلمانوں سے آپ سے کیسا تعلق ہے ؟ تو انہوں نے بڑی عیاری سے کہا ویسا ہی ہے جیسا مسلمانوں کا مجھ سے ہے۔یہاں تک تو انہوں نے صاف گوئی سے کام لیا کیونکہ مسلمانوں نے یوگی کے ساتھ وہی رویہ روارکھا ہوا ہے۔

یوگی کے بلڈوزر سے ڈرکر برہمن تو ناراض ہونے کے باوجود منقسم ہوگئے مگر مسلمان رہنما یا رائے دہندگان نہ جھکے اور نہ دبے بلکہ مناسب موقع کا انتظار کیا اور جب لوہا گرم ہوگیا ہتھوڑا ماردیا۔ یہ ایسی ضرب کاری تھی کہ اگر ہاتھی نے اسے اپنی سونڈ پر نہیں لے لیا ہوتا تو بعید نہیں کہ یوگی جی کی چھٹی ہوجاتی۔ دوسری مرتبہ بھی اپنے بیان میں کمال منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوگی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں اور مسلمان بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کون سے مسلمان ہیں جو یوگی سے محبت کرتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ اگرکوئی مسلمان گوناگوں وجوہات کی بناء پر ایسا کرتا بھی ہو تب بھی اس کا اظہار نہیں کرسکتا۔ کسی مسلمان نے اگر یوگی سے اظہار محبت کی جرأت کی تو اس سے نہ صرف مسلم امت کا ہر فرد بلکہ دیگر امن پسند عوام بھی نفرت کرنے لگیں گے ۔

بی جے پی نے چونکہ اپنی سیاست کا مرکز و محور مسلم دشمنی کو بنارکھا اس لیے وہ ایسے حلقوں سے بھی برائے نام مسلمان امیدوار نہیں اتار سکتی جہاں اس کی شکست یقینی ہو کیو نکہ پھر اس کا ہندو ووٹر سوال کرے گا کہ اگر مسلمان ملک کے دشمن ہیں تو انہیں ٹکٹ سے کیوں نوازہ گیا ؟ اس لیے کہ بی جے پی کامسلم امیدوار تو یقیناً ہارے گا مگراس سے ہندو ووٹر ناراض بھی ہوجائےگا ۔ اس حقیقت کے باوجود بادلِ نخواستہ سہی سُوار حلقۂ انتخاب میں عبداللہ اعظم خان کے سامنےبی جے پی نے اپنے حلیف اپنا دل کی آڑ میں حیدر علی خان عرف حمزہ میاں کو میدان میں اتارا اور اس کی بھر پور حمایت کی ۔ بی جے پی کو امید رہی ہوگی کہ حمزہ میاں چونکہ کمل کے نشان پر انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں اس لیے مبادہ مسلمان جھانسے میں آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کو صرف 65,059 ووٹ ملے جبکہ ان کا مقابلہ کرنے والے اعظم خان کے بیٹے نے جنھیں ایک طویل عرصہ تک جیل میں بند کردیا گیا تھا 1,26,162 ووٹ حاصل کرلیے۔ اس طرح بی جے پی کا یہ تجربہ بھی ناکام رہا اور مسلم رائے دہندگان کی دانشمندی اپنا کام کرگئی ۔

اس کے باوجود ملک کا ایک مشہورتحقیقی ادارہ سی ڈی ایس اگر یہ انکشاف کرے کہ یوپی میں اس بار ۸ فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تو بھلا اس پر کیسے یقین کیا جائے؟ جن مسلمانوں نے ایم آئی ایم اور بی ایس پی کو ووٹ نہیں دیا وہ بھلا بی جے پی کو کیسے ووٹ دے سکتے ہیں ؟ اور ایسی حالت میں جبکہ ان کے سامنے بی جے پی کے خلاف ایک سے زیادہ متبادل موجود ہوں ۔ سیاست میں علامت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ میڈیا جتنا چاہے بیرسٹر اسدالدین اویسی کو بڑھا چڑھا کرپیش کرے مگر نہ صرف اترپردیش بلکہ پورے ملک میں اعظم خان کا قد خاصہ اونچا ہے۔1980کے بعد 2019تک انہوں نے 9 مرتبہ اسمبلی انتخاب میں اپنی کامیابی درج کرائی اور پھر پارلیمانی لیکشن میں بھی کامیاب ہوئے ۔ 2017 میں زبردست مودی لہر کے باوجود ان کے بیٹے عبداللہ کو اسمبلی کے انتخاب میں کامیابی ملی اور ضمنی انتخاب میں اہلیہ تنظیم فاطمہ بھی رامپور سے رکن اسمبلی منتخب ہوئیں ۔

اس تفصیل سے اعظم خان کی شہرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اعظم خان کا ایک بڑ ا کارنامہ300؍ایکڑ پر محیط مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی ہے۔ اس میں 3000ہزار سے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں اور توسیع و ارتقا کا عمل جاری ہے۔ ایک ایسے رہنما کو پورے خاندان سمیت جیل میں بھیج کر یوگی سرکار نے مسلمانوں کو مایوس کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا مقصد ملت کی حوصلہ شکنی کے ساتھ امت کو ان سے برگشتہ کرنا تھا ۔ وہ آج بھی جیل میں ہیں حالانکہ ان کے خلاف تقریباً 100 جعلی مقدمات میں سے98 میں ضمانت مل چکی ہے،باقی دو فائلیں غائب کردی گئی ہیں ۔ اس کے باوجودانہوں نے جیل سے انتخاب لڑا اور 1,21,755 ووٹ حاصل کئے، جبکہ ان کے مخالف اُمیدوار بی جے پی کے آکاش سکسینہ کو صرف 56,368 ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ اس طرح مسلم قیادت کی ایک علامت کو بدنام کرنے کی زعفرانی کوشش اوندھے منہ گر گئی۔

مغربی اترپردیش کی کیرانہ سیٹ بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ امیت شاہ اور یوگی نے اسی علاقہ میں وقوع پذیر ہونے والے ایک قتل کی بنیاد پر خوب نفرت انگیزی کی لیکن وہاں سے بھی اسے ناکامی ہاتھ آئی۔ اس نشست کے رکن اسمبلی ناہید حسن پر بھی یوگی سرکار نے ایک فرضی مقدمہ جڑ دیا اور گرفتاری سے بچنے کی خاطر وہ روپوش ہوگئے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جاتا مگر سماج وادی پارٹی نے پھر سے انہیں پر بازی کھیلنے کا حوصلہ دکھایا۔ ناہید حسن اپنی نامزدگی کے کاغذات داخل کر کے جیسے ہی لوٹے گھات لگائے ہوئے افسران نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ ناہید حسن کسی گلی کا موالی نہیں ہے بلکہ آسٹریلیا سے تعلیم یافتہ ہے۔ این آر سی کی تحریک میں حصہ لینے کے سبب ان پر فرضی مقدمات درج کیے گئے اور غنڈہ ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔

اس گرفتاری کے بعد لندن سے تعلیم حاصل کر عوامی زندگی میں قدم رکھنے والی ناہید حسن کی بہن اقرا حسن نے اپنے بھائی کے پیچھے ان کے لیے انتخابی تشہیر کی ذمہ داری سنبھا لی۔ ناہید حسن کی گرفتاری کے بعد ا یسی خبریں آ رہی تھیں کہ سماجوادی پارٹی اقرا حسن کو کیرانہ اسمبلی سیٹ سے امیدوار بنانے پر غور کر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اقرا حسن مظفر نگر کی سابق رکن پارلیمان تبسم حسن اور مرحوم منور حسن کی بیٹی ہیں۔ وہ کیرانہ ضلع پنچایت رکن بھی ہیں۔ لندن سے تعلیم مکمل کرکے لوٹنے والی اقرا نے دہلی کے لیڈی شری رام کالج سے قانون کی سند حاصل کرنے کے بعد پوسٹ گریجویشن کے لیے لندن کا رخ کیا۔ ہندوستان میں جب سی اے اے مخالف تحریک چل رہی تھی تو اس وقت اقرا کی لندن والی ایک تصویر خوب وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کر رہی تھیں۔

اقراء حسن نے جیل میں بند اپنے بھائی کے لیے انتخابی جنگ جیت کر اپنی سیاسی مہارت کا لوہا منوالیا۔ مغربی یوپی کی سب سے اہم سیٹ کیرانہ سے بی جے پی کے موگنکا سنگھ کو شکست دینے کا سہرا نہیں کے سر جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی کے لیے میدان سنبھال کراسے مارا لیا۔ناہید حسن نے کیرانہ میں 26800 ووٹ کے فرق سے جیت درج کرائی ۔ ان کی بہن اقرا حسن نے بھی امیت شاہ کی مانند گھر گھر ،محلے محلے اور گلی گلی میں اپنے بھائی کے لیے مہم چلائی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ 10 مارچ کو اقرا جیت گئیں اور امیت شاہ ہار گئے ۔مُراد آباد کے سماج وادی رکن پارلیما ن شفیق الرحمن برق پر افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا جنگ آزادی سے موازنہ کرنے کے سبب ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں بدنامی کا ایک طوفان کھڑا کردیاگیا اس کے باوجود ان کے بیٹے ضیاء الرحمن نے بی جے پی کے کمل کمار کو 43,162 ووٹوں سے شکست دے کر بتا دیا کہ ؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سوبارکر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449314 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.