عملی زندگی کی جانب بڑھنے والی کسی بھی مثبت یا منفی فکری
سوچ کو نظریے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ بغیر کسی نظریاتی سوچ کے انسان مردہ
ہی تصور کیا جاتا ہے، جو صرف روٹی، کپڑا اور مکان کی تگ و دو کے لیے دنیا
میں آکر مقررہ میعاد کے بعد واپس چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ انفرادی بھی
ہو سکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ ایک اجتماعی سوچ ہی اجتماعی نظریے کو جنم دیتی
ہے جس کا تعلق پوری قوم کی بقا کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ
"ضرورت ایجاد کی ماں ہے"۔ ایسے ہی کسی بھی نئے ملک کا کرہ ارض پر معرض وجود
میں آنا کسی خاص نظریے کا محتاج ہے جسے اگر نظریہ ضرورت کہیں تو بے جا نہ
ہوگا۔ اس دنیا میں انسان کی پیدائش کے بعد نظریہ ضرورت کے ہی تحت مختلف
قوموں اور قبیلوں کی تشکیل ممکن ہوئی۔ ہر قوم اور قبیلے کے پیروکار اپنے طے
کردہ اصول و ضوابط کے مطابق ایک مخصوص خطے میں مخصوص طرز زندگی گزارنے لگے۔
کوئی بھی ملک اچانک سے آزاد نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے مختلف افراد کی اجتماعی
سوچ، جدو جہد اور قربانیوں کی عظیم داستانیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ عام لوگوں کے
لیے اپنے ملک کی اہمیت کا احساس اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انہیں اپنے
علاقائی خطے کی تاریخی حقائق سے مکمل آگاہی حاصل نہ ہو۔ اس سلسلے میں اگر
تاریخی حوالے سے آزادی پاکستان کی بات کی جائے تو اس کے پیچھے بھی مذہبی
لسانی اور سیاسی نظریہ کار فرما رہا ہے۔ ہم سب کے لیے بحیثیت پاکستانی اس
نظریے کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے،
جغرافیائی حوالے سے دیکھا جائے تو دنیا کے دوسرے علاقوں کی نسبت برصغیر پاک
و ہند ایک کثیر القومی خطہ تھا۔ اس خطے میں مسلمان، ہندو، سکھ اور کئی
دوسرے مذاہب کے پیرو کار رہائش پذیر تھے۔ ہر قوم کی اپنی الگ ثقافت، زبان،
مذہب اور رہنے طریقہ کار تھا. یہی وجہ تھی کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد
برصغیر پاک و ہند میں تعصب، لسانیت اور مذہب کے نام پر کئی تحریکیں سر
اٹھانے لگیں جن کا سب سے زیادہ نقصان مسمانوں کو ہوا۔ انہیں زندگی کے باقی
شعبوں کے ساتھ اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی دشواریوں کا سامنا
کرنا پڑا۔ تب جا کر اس خطے میں رہنے والے تکلیف دہ حالات سے دو چار،
مسلمانوں کے لیے ایک ایسی آزاد ریاست کی سوچ نے جنم لیا جس میں مسلمان پوری
آزادی اور احترام کے ساتھ اپنے معاشرتی و مذہبی رسومات اور فرائض بخوبی سر
انجام دے سکیں۔ اسے دو قومی نظریہ کا نام دیا گیا۔ محترم سر سید احمد خان
اس مذہبی اور سیاسی نظریے کے بانی تھے۔
اس نظریے کو لے کر 30 نومبر 1906 میں نواب وقار الملک اور دیگر سربراہان کی
سربراہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ 23 مارچ 1940 کو آخر
کار یہ جدو جہد رنگ لائی اور قرارداد پاکستان پیش کی گئی۔ قائد اعظم محمد
علی جناح، لیاقت علی خان اور دوسرے عظیم راہنماؤں کی سرپرستی میں 14 اگست
1947 کو ایک آزاد مملکت کی بنیاد پڑی، یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہوا بلکہ
اس دو قومی نظریے نے تاریخ کے صفحہ قرطاس پر زبان اور مذہب کے نام پر خون
آشام داستانیں رقم کیں۔ تاریخی حوالے سے ان ایام کی اصل روح کو محسوس کیے
بنا ہم ہر سال بڑے جوش و ولولے سے یوم آزادی، یوم پاکستان اور یوم قائد
مناتے ہیں۔ ہمیں قیام پاکستان کی اصل روح تک پہنچنے کے لیے ان خونی
داستانوں کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جسے ان تمام قربانیوں کی آگہی نا ہو
مگر باوجود اس کے ہم انجان بنے ہیں۔ وہ کون سا غلط کام ہے جو ہمارے معاشرے
کی پہچان نہ ہو۔ جھوٹ، قتل، غارت گری، ڈاکا، چوری، زنا، کرپشن، ناانصافی،
لا قانونیت وغیرہ اب ہماری میراث بن چکے ہیں۔ جس دو قومی نظریے کے تحت
پاکستان بنا تھا، اس کے کئی ٹکڑے ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے تو مذہب کو لیتے
ہیں جو کہ اس نظریے کا ایک اہم ستون تھا، کئی فرقوں کی نذر ہو چکا ہے۔ جو
پابندیاں، مذہبی فرائض کی ادائیگی میں اس وقت کے کافر اور مسلمانوں کے
مابین حائل تھی وہ اب شیعہ، سنی کے علاوہ مزید کئی مختلف فرقوں میں پیدا ہو
چکی ہیں۔ ہمیں ایک بس یا جہاز میں سفر کرنا گوارا ہے مگر ایک مسجد میں نماز
پڑھنا گوارا نہیں، ہم سب ایک دکان سے ضروریات زندگی کا سامان تو خرید سکتے
ہیں مگر ایک صف میں اینے رب کے حضور سجدہ ریز نہیں ہو سکتے۔ یہی حال ہمارے
سیاسی اختلافات کا بھی ہے۔ لسانیت کی جو جنگ اردو اور ہندی کے مابین نظریہ
ضرورت کو پیش کرنے کا موجب بنی اب وہی اردو اور ہندی سے نکل کر پنجابی،
سندھی، سرائیکی، بلوچی، پشتو، ہندکو وغیرہ کی جنگوں کی نذر ہو چکی ہیں۔ ان
تمام کثیر النظریاتی اختلافات نے شروع میں ہمیں مشرقی پاکستان اور مغربی
پاکستان کی جانب دھکیلا۔ تیئیس سال بعد بد ترین شکست کے نتیجے میں صرف
مغربی پاکستان ہی ہماری جھولی میں رہ گیا۔ مگر اب یہ بچا ہوا زخم خوردہ
پاکستان بھی مزید کئی قومیتوں کی نذر ہوچکا ہے۔ تقریباً تین سال پہلے ریاست
جموں کشمیر جسے ہم اپنی شہہ رگ کہتے نہیں تکتے تھے، ہماری کمزور خارجہ
پالیسیوں کی وجہ سے ہم سے ہمیشہ کیے لیے جدا کردیا گیا۔ مگر اب بھی ہمیں
سمجھ نہیں آئی۔ ایوان بالا سمیت تمام عوامی منتخب ادارے، جو ان امور کے لیے
آئین سازی اور ان کے تحفظ کے لیے بنے تھے وہی بدترین کرپشن کی نذر ہوکر اس
شکست و ریخت کا سبب بن رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم سب بھی اپنے فرائض کا علم رکھتے
ہوئے بہت بڑی کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہم احساس کمتری اور غلامی کے ایسے دلدل میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنا اب
مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے یہ خطہ ارض انگریزوں اور ہندؤوں
سے اپنی جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں دے کر حاصل کیا مگر جواب میں ہم
اس کی بقا اور سلامتی کے لیے کیا کررہے ہیں؟؟؟ ہمارے قول فعل کے تضاد کی
انتہا کہیے کہ اوپر سے حب الوطنی کا لبادہ اوڑھے برطانیہ، کینڈا، یورپ اور
آسٹریلیا کی شہریت کے خواب دیکھتے ہیں۔ وہاں کا دو نمبر شہری بننے کو اپنی
خوش قسمتی سے تعبیر کرکے وہیں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر افسوس تو
یہ کہ اپنے ملک اور نظام کو برا کہتے ہیں۔ حالاں کہ نظام بنانا اور درست
سمت میں چلانا کسی بھی قوم کے ہنر مند افراد پر منحصر ہے۔
آج بحیثیت ایک آزاد سر زمین کے باسی ہونے کے، اس بات کا بھرپور احساس ہو
رہا ہے کہ اس نظریے کی اصل روح کہیں ہم سب کے وجود میں دفن ہوچکی ہے۔ اسے
کھوجنے اور اپنے اندر بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ بصورت دیگر پاکستان
مزید تقسیم ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بقول کسی عظیم مفکر کے کسی بھی قوم
کی بقا اس امر میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو نہ بھولیں اور ان کے نقش
قدم پر چلیں۔
|